انسانی رویہ بھی عجیب چیز ہے۔ یہ یکمشت نقصان پر تو دل کے دورے جیسی سنگین کیفیت تک پہنچ جاتا ہے جبکہ قسطوں میں ہوتے اس سے کئی گنا بڑے نقصان کو اہمیت ہی نہیں دیتا۔ مثلا آپ ہتھیاروں کے معاملے کو ہی لے لیجئے ! ایٹم بم یا جراثیمی ہتھیار کا نام ہی سن کر اس کے چہرے کا رنگ متغیر ہوجاتا ہے اور بسا اوقات یہ تک کہہ جاتا ہے کہ ’’شکر ہے ہیرو شیما اور ناگاساکی کے بعد اس کا مزید استعمال نہیں ہوا‘‘ لیکن یہ جانتا نہیں کہ ’’چھوٹا ہتھیار‘‘ ہر سال ہیروشیما اور ناگاساکی کی مشترکہ تباہی سے بھی دگنا نقصان پہنچا رہا ہے۔ اگراعدادوشمار پر ایک نظر ڈالی جائے تو چھوٹا ہتھیار اپنی ہلاکت خیزی کے لحاظ سے ویپن آف ماس ڈسٹرکشن کا بھی باپ نظر آئے گا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 640 ملین چھوٹے ہتھیار زیر گردش ہیںجو ہر سال پانچ لاکھ افراد کی جان لے رہے ہیں۔ عالمی سطح پر ہر ایک منٹ میں ایک انسان چھوٹے ہتھیار کے ذریعے قتل ہو رہا ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال پندرہ لاکھ انسان اس ہتھیار کے ذریعے زخمی ہو رہے ہیں۔پچھلے بیس برسوں میں 20 لاکھ بچے ان ہتھیاروں کے ذریعے قتل کئے جا چکے ہیں۔ اس پورے جانی نقصان میں 90 فیصد متاثرین سویلین تھے۔ دنیا کے اٹھانوے ممالک کی 1134کمپنیاں یہ ہتھیار تیار کر رہی ہیں لیکن مجموعی پیداوار کا 88 فیصد صرف اقوام متحدہ کے پانچ مستقل ممبران یعنی امریکہ ، برطانیہ، فرانس، روس اور چین تخلیق کر رہے ہیں۔ چھوٹے ہتھیاروں کی صرف بلیک مارکیٹ کا سالانہ تجارتی حجم پانچ سے دس ارب ڈالر کے درمیان ہے، چھوٹے ہتھیار کے 80 فیصد خریدار سویلین ہیں، اور ان سویلینز میںسے بھی 41 فیصد نے یہ ہتھیار بغیر کسی لائسنس کے حاصل کر رکھے ہیں، دنیا میں کلاشنکوف کی کم سے کم قیمت 1999ء میں یوگنڈہ میں دیکھی گئی جہاں ایک کلاشنکوف محض ایک مرغی کے عوض دستیاب تھی۔ چھوٹے ہتھیاروں کے پھیلائو ، میں سرد جنگ کے زمانے میں امریکہ اور سابق سوویت یونین نے مرکزی کردار ادا کیا، سرد جنگ تو ختم ہو گئی مگر ہتھیار باقی رہ گئے ۔ سویلین افراد کے پاس ان ہتھیاروں کی اسقدر بڑی تعداد کی موجودگی میں پانچ عوامل معاون ثابت ہو رہے ہیں، پہلا یہ کہ پائیدار ہیں، دوسرا یہ کہ مینٹننس کا خرچہ نہ ہونے کے برابر ہے، تیسرا یہ کہ سستے ہیں، چوتھا یہ کہ بآسانی دستیاب ہیں، اور پانچواں یہ کہ ان کی روک تھام کے لئے کوئی انٹرنیشنل ٹریٹی موجود نہیں۔ اس سنگین عالمی مسئلے کو خود اقوام متحدہ نے بھی اپنی تاریخ میں پہلی بار 1999ء میں اُٹھایا، اور اس میں بھی کسی ملک سے زیادہ ، اقوام متحدہ کے اس وقت کے سیکریٹری جنرل کوفی عنان کا کردار تھا، جو بر اعظم افریقہ میں ان ہتھیاروں کی تباہ کاریاں قریب سے دیکھ رہے تھے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعے ان ہتھیاروں کے پیدا کردہ مسائل پر غور کیلئے بین الاقوامی کانفرنس کے انعقاد کی منظوری دی جو دو برس بعد 2001ء میں منعقد ہوئی۔ اگر آپ ایک پرامن شہری ہیں اور پر امید ہیں کہ اگلی سطور میں اس کانفرنس کے ذریعے حاصل کردہ شاندار کامیابیوں سے آپ کو آگاہ کیا جائیگا تو خود کو ایک چٹکی بھریئے اور عالم ہوش میں لوٹ کر خود کو یاد دلایئے کہ آپ ایک یونی پولر ورلڈ میں جی رہے ہیں، جہاں امریکہ کا راج چلتا ہے، جب تک یہ راج ہے امن کیلئے کوئی سنجیدہ کوشش کیسے کامیاب ہوسکتی ہے ؟ امریکہ نے اس کانفرنس کو ناکام کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ امریکہ کے اس وقت کے انڈر سیکریٹری فار آرمز کنٹرول جان بولٹن نے شرکا ء پر واضح کردیا کہ اگر تین باتوں میں سے کوئی ایک بھی ہوئی تو امریکہ اس کانفرنس کے فیصلوں میں شریک نہیں ہوگا۔ (1) اگر چھوٹے ہتھیاروں کی روک تھام کی سفارش کی گئی تو امریکہ اسے تسلیم نہیں کرے گا کیونکہ امریکی آئین ہتھیار رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔ (2) اگر دنیا کے کسی بھی ملک میں باغیوں کو ہتھیاروں کی فراہمی کو غیر قانونی قرار دینے کی بات کی گئی تو اسے بھی امریکہ قبول نہیں کریگا۔ (3) اگر ہتھیاروں کی پرائیویٹ ملکیت پر پابندی کی سفارش کی گئی تو امریکہ اس کا بھی حصہ نہیں بنے گا۔ جان بولٹن نے یہ بھی واضح کردیا کہ اگر چھوٹے ہتھیاروں کے نقصانات سے آگاہی یا ان کی روک تھام کیلئے عوامی آگہی کی کوئی مہم شروع کی گئی تو امریکہ اسکا بھی حصہ نہیں بنے گا۔ ان شرائط کے ہوتے ہوئے چھوٹے ہتھیاروں کی روک تھام کیلئے ہونے والی کوئی سنجیدہ کوشش کیسے بار آور ہو سکتی تھی ؟ یہ کانفرنس رسمی خانہ پری تک محدود رہی۔ دو برس بعد 2003ء میں ایک کانفرنس مزید بھی ہوئی جس کا انجام پہلی کانفرنس سے مختلف نہ تھا۔ اس کے بعد سے اس موضوع پر مکمل عالمی خاموشی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ زرداری دور میں ہماری قومی اسمبلی نے چھوٹے ہتھیاروں کی روک تھام کے حق میں قرارداد منظور کی تھی جس کی نون لیگ، اے این پی اور جے یو آئی نے مخالفت کی تھی۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہماری قومی اسمبلی میں ملک کو اسلحے سے پاک کرنے کے حق میں آنے والی قرارداد کی مخالفت کرنے والی جماعتوں کا موقف امریکی موقف سے ہم آہنگ کیوں تھا ؟ ان جماعتوں کا کہنا تھا کہ محض قرارداد کافی نہیں۔ یہ تو ایک بچہ بھی جانتا ہے کہ محض قرارداد کافی نہیں ہوتی بلکہ قرارداد کی حیثیت اس پہلے قدم کی ہوتی ہے جس کے بعد قانون سازی اور قانون پر عملدرآمد کے اقدامات اٹھائے جاتے ہیں، ان جماعتوں نے تو پہلے ہی قدم کی مخالفت کردی تھی جو کسی طور بھی قابل فہم نہیں تھا۔ اس حوالے سے کسی بین الاقوامی کوشش یا اس کی کامیابی کی توقع وقت کے ضیاع کے سوا کچھ نہیں البتہ ملکی سطح پر اس مسئلے سے نمٹنے کے طریقے اور امکانات بے شمار ہو سکتے ہیں۔ طالبان سے لاکھ اختلاف رکھنے والے بھی یہ مانتے ہیں کہ اپنے دور حکومت میں انہوں نے افغانستان کو اسلحے سے پاک کرکے دکھا دیا تھا، اگر افغانستان جیسے قبائلی ، جنگجو اور پسماندہ ملک میں یہ کام ہو سکتا ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں ؟