دنیا کا کوئی نظریہ جامد نہیں ہوتا۔ہر نظریے میں تحرک اور تعامل اس کی قوت نافذہ کی گنجائش او ر اثر پذیری کے اعتبار سے موجود ہوتا ہے۔جس قدر مضبوط نظریہ ہوگا اسی قدر اس کے پھیلائو کی خواہش اور نفاذ کی طاقت اس کے اپنے اندر موجود ہوگی۔نظریئے پہ یہی یقین اس کے ماننے والوں کو اس کی تبلیغ کا تحریک بھی عطا کرتا ہے۔تبلیغ جیسی مذہبی اصطلاح عین غیر مذہبی نظریات کے لئے بھی اسی طرح مستعمل ہے کیونکہ دیکھا گیا ہے کہ الحاد اور سیکولر ازم کے داعی، اور یہ بھی ایک مذہبی اصطلاح ہے،اسی طرح اپنے نظریات کی تبلیغ کرتے نظر آتے ہیں جس طرح مذہبی مشنری یا مبلغ۔یہ ایک مضحکہ خیز حقیقت ہے کہ مذہب کے خلاف اٹھنے والی تحریکیں اور نظریات بھی عین مذہبی نوعیت کی نفوذ پذیری کی خواہش رکھتے اور خود کو دنیا کے مسائل کے حل کے لئے لازم سمجھتے آئے ہیں۔ یورپ میں سیاست اور مذہب کی دوری کو عموماً کلیسا کی جامدڈکٹیٹر شپ سے منسوب کیا جاتا ہے جو ایک سائنس دان کی تحقیق کی تاب نہ لاسکی حالانکہ حقیقت اس کے برعکس تھی۔کلیسا تو اتنا لچکدار ہوچکا تھا کہ اس نے صدیوں پہلے یونانی فلسفے کو اپنے عقائد میں نفوذ کی نہ صرف اجازت دی بلکہ اسے خود عقیدے کا درجہ دے دیا۔یہ کوئی مذہبی عقیدہ نہیں بلکہ ارسطو کا نظریہ کائنات تھا جس کے مطابق زمین کائنات کا مرکز ہے۔بتدریج یہ نظریہ مذہب میں شامل ہوکر اتنا مقدس ہوگیا کہ پہلے نکولس کاپرنیکس بعد ازاں گیلیلو نے اسے چیلنج کیا تو معتوب ٹھہرے حالانکہ یہ ایک سائنسی نظریے کا دوسرے سائنسی نظریے سے رد تھا۔ یہ کلیساکی حد سے بڑھی ہوئی لچک ہی تھی جس نے پہلے ایک غیر الہامی نظریے کو اپنے مذہب میں شامل کیاپھر اسے ایک مذہبی عقیدے کا درجہ دے دیا۔ اس لچکداری کی قیمت کلیسا کو سیاست اور ریاست سے ہمیشہ کی دوری کی صورت میں اٹھانی پڑی اور اس کی بے چارگی کا عالم یہ ہوا آج صدیوں بعد اسے باضابطہ طور پہ گیلیلیو کے قتل پہ اظہار ندامت کا خط جاری کرنا پڑا۔ گو دنیا کو مذہب سے متنفر کرنے میں صلیبی جنگوں نے بھی کردار ادا کیا لیکن کیا دنیا کی بدترین بڑی جنگیں ، عظیم اول و دوم مذہب کے نام پہ لڑی گئیں؟ظاہر ہے کہ ایسا نہیں تھا۔ یورپ سے مذہب کو دیس نکالا دینے اور اسلام جیسے نسبتاً جدید مذہب کی مرکزیت ختم کرنے کی تمام شعوری کوششوں کے دوران،مذہب کے متبادل کے طور پہ جو نظریات وجود میں آئے چاہے وہ انسانوں کی معاشی بحالی اور ان کے استحصال کے خلاف وجود میں آئے ہوں،جیسے کمیونزم اورسوشلزم، یا پھرمذہب بیزاری کے نام پہ پروان چڑھائے گئے ہوں جیسے الحاد اور سیکولرازم،خود مذہب جیسی ہی تعامل پسندی ،نفوذ پذیری اور قوت نافذہ کی خواہش کے علمبردار نظر آئے۔ اس سلسلے میں سیکولر ازم اپنی لچک، قبولیت اور نر م روی کے باعث الحاد سے کہیں زیادہ خطرناک ثابت ہوا کیونکہ وہ مذہب کا انکار نہیں کرتا تھا۔ بڑی چابکدستی سے اس نے الحاد کو لکم دینکم ولی الدین کا شرعی جامہ پہنادیا تو کہیں رام،رب اور گاڈ کو برابر قرار دے کر ہرمذہب کو ایک لاٹھی سے ہانکنے کی کوشش کی۔الحاد کی تحریکی تاریخ سے قطع نظر اگر اسے بالکل نظرانداز کرکے مذہبی تاریخ کو حقیقت مان لیا جائے تو خود سیکولر ازم کا ہر مذہب کو ایک جتنا مقدس اور برابری کا درجہ دینے کے دعوے کا بھانڈا پھوٹ جاتا ہے کیونکہ اگر ہر الہامی مذہب بھی ایک ہوتا تو اس کے جدید تر ورژن کی کیا ضرورت پیش آتی؟یہ مانا گیا ہے کہ نیا ورژن پہلے سے بہتر ہوتا ہے اسی لئے اسلام کو اتمام حجت، آخری دین اور اس کے رسولﷺ کو خاتم النبیین کہا گیا کہ اسلام کی آمد کے بعد کسی نئے ورژن کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ سیکولرازم اور الحاد کو کسی بھی دوسرے مذہب سے زیادہ اسلام سے خطرہ تھا کیونکہ باقی ہر مذہب کو وہ بڑی پرکاری سے عبادت گاہوں تک محدود کرچکے تھے۔ ملا کو ہند میں سجدے کی اجازت تھی اور وہ اسلام کو آزاد سمجھتا تھا تو ایک شاعر خوش نوا اس کی اس خوش فہمی کے گلے پہ ابراہیمی چھری چلانے کے لئے موجود تھا۔اسلامی احیا کی تحریکیں اور جہاد مسلسل ،مشرق و مغرب میں جاری رہے اور تمام تر جبر و استبداد کے باوجود کبھی ختم نہ ہوسکے۔ مشرق وسطی میں مذہب کے نام پہ بننے والی ریاست یہود ، اسرائیل نے الحاد اور سیکولرازم پہ ضرب کاری لگائی تو جنوبی ایشیا میںاسلام کے نام پہ پاکستان کے قیام نے ان کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی جہاں نظریہ پاکستان کے مد مقابل ایک غیرا لہامی مذہب ہندو مت اپنی تمامتر شدت پسندی کے ساتھ موجود تھا۔ آپ غور کریں تو صرف عیسائیت ایسا مذہب رہ گئی جس کا دنیا کی سیاست میں کوئی ظاہری کردار نہیں رہ گیا تھا اور وہ ویٹی کن تک محدود ہوگئی ۔یہودیت کی چونکہ تبلیغ نہیںکی جاسکتی یعنی کہ آپ یا تو یہودی پیدا ہوتے ہیں یا نہیں ہوتے،تو اسرائیل کا مقصد قیام ہی اس کا تبلیغی مقصد بن گیا اور تمام تر وسائل بروئے کار لاکر اس کو قوت بہم پہنچائی گئی جس میں ویٹی کن نے اس کا پورا ساتھ دیا کیونکہ مقابل وہ مذہب تھا جس کے ساتھ اس کی کئی صلیبی جنگیں ہوچکی تھیں اور جو دنیا پہ بلاتفریق رنگ و نسل حکومت کرچکا تھا۔یہ سہولت اسرائیل کو نہیں پاکستان کو حاصل تھی کیونکہ یہ خصوصیت یہودیت نہیں اسلام کو حاصل ہے کہ کلمہ پڑھتے ہی آپ رنگ ، نسل اور قومیت سے آزاد ہوجاتے ہیں۔اس نظریاتی جن کو قابو میںکرنے کے لئے ایسے سیکولر نظریات پھیلائے گئے جس کی رو سے نعوذ باللہ رام اور اللہ ایک ہوجائیں۔ہمارا سابق وزیراعظم فخریہ اعلان کرے کہ ہم میں اور ان میں کوئی فرق نہیں،وہ رام کو مانتے ہیں ہم اللہ کو۔ وہ تو رام بھلی کرے آر ایس ایس کی ایک پرجوش مہیلا کا،جس کا نام باوجود کوشش کے معلوم نہ ہوسکااپنی آتش بجاں تقریر میں سیکولر ازم کے پرخچے اڑاتی ہوئی کہتی ہے کہ مسلمان اور ہندو ایک کیسے ہوسکتے ہیں۔یہ تواپنی اذان میں پانچ بار اعلان کرتے ہیں کہ ان کے رب کے سوا کوئی رب نہیں یعنی ہمارا بھگوان بھی نہیں۔جو ایک مولوی کے اشارے پہ جھکتے کھڑے ہوتے ہیں تو آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ہماری پوجا اور ان کی نماز ایک ہے؟ہمارا برت اور ان کا روزہ ایک ہے؟ہماری امرناتھ یاترا اور ان کا حج ایک ہے؟ہرگز نہیں۔ہماری پوجا اورمسلمانوں کی عبادت ایک کیسے ہوسکتے ہیں۔ان کی نماز، روزہ، حج سب ایک بڑے مقصد کی خاطر ہیں جس کی یہ روز پانچ بار ریہرسل کرتے ہیں اور وہ مقصد ہے دنیا میں ان کی خلافت کا قیام۔کیا آپ بھول گئے کہ جب ہندوستان اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہا تھا تو مسلمان اپنی ہاتھ سے گئی خلافت کے لئے تحریک چلا رہے تھے؟سیکولر ازم کی خاموش گھاتوں میں جہاں وہ اسلام اور ہندو مت کو ایک باور کروا کے مسلمانوں کو عبادات کی ادائیگی کی آزادی تک محدود کرنا چاہتا ہے،انتہا پسند آر ایس ایس کا دم غنیمت ہے کہ وہ اس غلط فہمی کے نہ صرف پرخچے اڑاتی ہے بلکہ بھولا ہوا سبق بھی یاد دلاتی ہے۔