ایوان صدر میں جاسوسی آلات لگانا کافی مشکل ہے۔اس کی باقاعدہ جانچ پڑتال ہوتی ہے پھر بھی ہر وزیر اعظم سن گن لینے کے لئے خصوصی انتظام کر ہی لیتے ہیں‘خواہ صدر ان کا اپنا بااعتماد ساتھی ہی کیوں نہ ہو۔میاں نواز شریف نے صدر غلام اسحق خاں اور ایوان صدر کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لئے انہی کے ملٹری سیکرٹری عجائب خاں سے تال میل بنا رکھا تھا‘ایک دن جناب صدر سے ان کے ملٹری سیکرٹری کے بارے میں اپنے خدشات کا اظہار کیا تو کہنے لگے‘چند دن پہلے فوج کے سربراہ آصف نواز جنجوعہ اس بارے میں کہہ رہے تھے کہ عجائب خاں نواز شریف کے ساتھ ساز باز کر چکا ہے‘میں اسے تبدیل کر کے کوئی زیادہ قابل اعتماد ملٹری سیکرٹری بھجوائے دیتا ہوں‘مگر میں نے (صدر صاحب) ان سے کہا نہیں اسی کو رہنے دیجیے ’’وہ شیطان جس کو ہم پہچان چکے ہیں‘اس شیطان سے بہتر ہے جس سے ہم بے خبر ہوں‘بس آپ احتیاط کریں اگر کوئی ضروری پیغام ہو تو آپ فضل الرحمن خاں (F. R. K.....)سیکرٹری ایوان صدر کے ذریعے بھجوا دیا کریں۔ ایسا ہی ایک واقعہ ضیاء الحق کے بارے میں بھی ہے‘چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق کو اطلاع دی گئی کہ راولپنڈی کے کور کمانڈر شمس الرحمن کلو کی سرگرمیاں کافی مشکوک ہیں اور پیپلز پارٹی کے بعض سرگرم لوگوں سے ان کے روابط روز افزوں ہیں‘احتیاط کا تقاضا ہے کہ انہیں ریٹائر کر دیا جائے یا کم از کم راولپنڈی جیسی حساس کور سے ہٹا دیا جائے لیکن ضیاء الحق نے ’’جنرل کلو‘‘ کے ریٹائر ہونے تک راولپنڈی کور کی سربراہی پر برقرار رکھا‘البتہ ان کی خفیہ نگرانی کے لئے ایک میجر صاحب کو ذمہ داری سونپ دی گئی تھی۔1989ء میں بے نظیر وزیر اعظم بنیں تو ریٹائر لیفٹیننٹ جنرل شمس الرحمن کلو کو آئی ایس آئی کا سربراہ مقرر کر دیا گیا‘غالباً یہ پہلا اور آخری موقع تھا جب کوئی ریٹائر افسر آئی ایس آئی کا سربراہ بنایا گیا۔ وسیم سجاد چیئرمین سینٹ اور قائم مقام صدر بھی تھے‘ان کے گھر اور ذاتی بیڈ روم سے جاسوسی آلات برآمد کئے گئے۔بے نظیر کے پہلے دور حکومت میں مرد اول آصف علی زرداری فن شہنشاہی میں طفل مکتب تھے اور اپنے حریف میاں نواز شریف سے دائو پیچ سیکھ رہے تھے‘غلام اسحق خاں کے ایوان صدر کی راہداریاں ان کے لئے اتنی کشادہ نہ تھیں کہ وہ اپنی آزادانہ مرضی سے دندنایا کرتے بلکہ نوبت یہاں تک پہنچی ہوئی تھی کہ ایوان صدر کی سرگرمیوں کی بھنک تو انہیں کیا ملی‘اس حکمران جوڑے کی بے خبری کا یہ عالم تھا کہ جس دن روزنامہ نوائے وقت اور دی نیشن میں عارف نظامی صاحب کے نام سے شاہ سرخی میں بے نظیر کی حکومت برطرف ہونے کے بعد عبوری حکومت کے وزیر اعظم اور اس کی پوری کابینہ کے نام چھپ چکے تھے اور بے نظیر کے سب سے ہوشیار وزیر خواجہ طارق رحیم چند وزراء کے ساتھ ایوان صدر میں جناب صدر سے ملاقات کی درخواست کے جواب کا انتظار کرتے کرتے تنگ آ کر پہلے چیئرمین سینٹ وسیم سجاد کے پاس گئے اور ان سے درخواست کی وہ اخبارات میں چھپنے والی حکومت برطرفی کی خبر کا صدر صاحب کی طرف سے نوٹس لینے اور تردید کرنے کا کہیں‘وسیم سجاد سے مایوس ہو کر وہ راقم کے پاس آئے اور کہا کہ آپ صدر صاحب سے فوری ملاقات کر کے عارف نظامی کی خبر کی تردید کروائیں‘وہ اس شخص سے تردید کروانے کی آس امید لے کر آئے تھے جو کم از کم ایک ہفتہ پہلے سے اس ہونی سے باخبر اور منتظر تھا اور صرف اٹھارہ گھنٹے پہلے ’’اٹک‘‘ کی ایک تحصیل میں اعجاز الحق‘ ہمایوں اختر کے ہمراہ جلسہ عام میں تقریر کرتے ہوئے سامعین کو یہ خوشخبری سنا چکا تھا کہ اگلے اڑتالیس(48) گھنٹوں میں پاکستانی تاریخ کی سب سے بدعنوان حکومت ختم ہونے والی ہے‘مختصر یہ کہ وزیر پانی و بجلی خواجہ طارق رحیم کے رخصت ہونے کے بعد جب گورنمنٹ ہوسٹل سے نکل کر پارلیمنٹ بلڈنگ میں چیئرمین سینٹ کے کمرے میں پہنچ کر خواجہ طارق رحیم کی بے بسی اور بے خبری کا ذکر کیا تو ہنستے ہوئے پیچھے کی طرف مڑے‘جہاں سامنے ’’ڈی چوک‘‘ کا پورا منظر دکھائی دیتا ہے‘ڈی چوک میں فوج کی گاڑیاں پہنچ چکی تھیں‘انہوں نے فوجی گاڑیوں کی طرف اشارہ کیا تو عرض کی کہ ان کے بیچوں بیچ گزر کے ابھی آیا ہوں مگر وزیر اعظم کی بے خبری اور کابینہ کے ممبران کی سادگی ملاحظہ ہو کہ ’’یہ سب ہو گزرنے کے بعد وہ ابھی ایوان صدر سے تردید کے منتظر ہیں: خبر دیتی تھیں جن کو بجلیاں وہ بے خبر نکلے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ: جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے بلوچستان سے ہمارے سینیٹر حسین بنگلزئی‘سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے چیئرمین تھے۔انہوں نے بری افواج کی دفاعی امور پر بریفنگ کے لئے اجلاس طلب کر رکھاتھا۔جنرل ہیڈ کوارٹر راولپنڈی میں منعقدہ اجلاس کو بری فوج کے سپہ سالار اسلم بیگ نے دفاعی سرگرمیاں‘کشمیر کے حالات‘ضرب مومن نامی دفاعی مشقوں کے اثرات‘دفاعی پیداوار میں انقلابی پیش رفت کے بارے میں تفصیل سے بتایا‘سوال جواب کا دورانیہ شروع ہوا تو راقم کے سوال پر طرح دے گئے بلکہ سب کے سامنے پہلو بچاتے ہوئے کہنے لگے ’’وقت زیادہ ہو گیا‘لنچ کی میز پر بیٹھ کر آپ کے سوال کا جواب دیتا ہوں(اس سوال جواب کی تفصیل کسی مناسب وقت تک اٹھائے رکھتے ہیں) لنچ ٹیبل پر جانے سے قبل باتھ روم کی طرف گیا‘واپس آیا توبرآمدے میں جنرل اسلم بیگ کھڑے تھے‘روک کر کہنے لگے آپ کا منتظر تھا‘مجھے آپ سے علیحدگی میں کچھ کہنا ہے۔فرمائیے!انہوں نے بے نظیر کی بھارت نوازی‘کشمیر میں مجاہدین کی سرگرمیاں‘ضرب مومن مشقوں کے حکمت عملی کی دستاویزات وغیرہ کے علاوہ آصف زرداری کی بے تحاشہ کرپشن کا کھڑے کھڑے ذکر کیا اور کہا کہ یہ سب تفصیل سے صدر صاحب کے علم میں لا چکے ہیں اور ان سے گزارش کی ہے کہ اس حکومت کو برطرف کریں مگر وہ ’’پبلک ابھی تیار نہیں‘‘ کا کہہ کر ٹال دیتے ہیں‘پانی سر سے اونچا ہوا جاتا ہے‘ہم چاہتے ہیں آپ ہماری مدد کریں اور صدر صاحب سے کہیں کہ انہیں چلتا کریں‘فوج ہر طرح سے آپ کے ساتھ ہے‘ اس سے ملتا جلتا ایک واقعہ آصف نواز جنجوعہ کے دور میں نواز شریف کے بارے میں بھی پیش آیا تھا۔ یہ ساری باتیں جہاں طاقت ور حکمران اور اداروں کی مجبوریاں اور حدیں متعین کرتی ہیں وہیں طاقت کے مراکز‘ان کی حدود اور میکنزم کو سمجھنے میں بھی مددگار ہیں۔جو لوگ فوج کے سربراہ یا اسمبلی توڑنے کے اختیارات کے ساتھ صدر کو سب کچھ خیال کرتے ہیں وہ محض سطحی ہیں‘ اندرونی حالات اور حقیقتوں کو ہرگز نہیں جانتے‘ برآمدے میں ہونے والی بات چیت میں نواز شریف اور پنجاب کی حمایت و کردار کا ذکر بھی ہوا کہ پنجاب اس تبدیلی کے لئے تیار ہی نہیں بلکہ صورتحال پر بیزار ہو رہا ہے یہ سب واقعات اس بات کی نشاندہی کر رہے تھے کہ اقتدار کے ایوانوں میں جلد ہی بڑی ہلچل ہونے والی ہے۔ اسلام آباد میں قیام کے دنوں میں شام کے وقت عابدہ حسین اور فخر امام کے گھر شام کو خوب محفل جما کرتی‘اس محفل کا آغاز و انجام‘اوڑھنا بچھونا سب سیاست ہی سیاست تھا‘جی ایچ کیو میں دفاعی کمیٹی کے اجلاس کے بعد ایک شام مذکورہ محفل میں گئے تو وہاں بھی بے نظیر کی سرگرمیاں ‘آصف علی زرداری کی لوٹ مار‘بھارت کا حکومت پر اثرورسوخ‘فوج کی بے نظیر سے ناراضگی کا موضوع زیر بحث تھا‘بیگم عابدہ حسین‘صدر پاکستان غلام اسحق پر برہم تھیں کہ وہ خاموش رہ کر بے نظیر کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں‘سب کچھ دیکھتے ہوئے کچھ کرنے کو تیار نہیں۔