’’بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے اچھی ہے‘‘ مجھ کو معلوم نہیں ہے کہ یہ قول کس کا ہے۔ یہ قول سننے میں اچھا لگتا ہے۔ مگر وہ چیز جو سننے یا دیکھنے میں اچھی لگے ضروری نہیں کہ وہ اچھی ہو۔ اچھا ہونے اور اچھا دکھنے میں بہت فرق ہے۔ ویسے بھی اردو کہاوت ہے ’’دور کے ڈھول سہانے‘‘ مغرب میں بجنے والے ڈھول ہمارے لیے ہمیشہ پرکشش رہے ہیں۔ مغرب اگر جمہوریت کے گن گاتا ہے، تو اس سے پوچھا جائے کہ وہ اپنے ملک کے علاوہ دنیا میں جمہوریت کا طرفدار ہے یا نہیں؟ اگر مغرب جمہوریت کا حامی ہوتا تو سرد جنگ کے دوراں تیسری دنیا کے ممالک کے مقدر میں آمریت کیوں آتی؟ بات صرف پاکستان کی نہیں ہے۔ پاکستان میں تو جنرل ضیاء کی مارشل لاء کے بارے میں یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ چونکہ افغانستان میں روسی فوجیں داخل ہوگئی تھیں۔ اس لیے پاکستان میں ایک ایسی حکومت کی ضرورت تھی جو سختی سے چلے اور جو آئین اور قانون کے مطابق چلنے کے بجائے حالات کے حوالے سے فوری طور پر ایکشن لے اور ایسی پالیسیاں بنائے، جس سے روس کا مقابلہ ممکن ہو پائے۔ مگر ایسے ’’نظریہ ضرورت‘‘ مسلط کرنے والوں سے یہ سوال بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر پاکستان میں مارشل لاء افغان صورتحال کا لازمی نتیجہ تھا تو بنگلادیش میں کیا ہوا تھا؟ بنگلادیش کی سرحدوں پر تو روسی فوج نہیں تھی۔ پھر وہاں کیوں مارشل لاء لگایا گیا اور اس مارشل لاء کو امریکہ نے کبھی برا نہیں کہا۔ اگر پاکستان میں مارشل لاء کے علل و اسباب تھے تو انڈونیشیا میں کیا تھا؟ سب سے اہم ترکی میں فوجی حکومت کیوں قائم ہوئی اور اس کے امریکہ سے اچھے مراسم کیوں تھے؟ امریکہ اپنے عوام کے لیے اچھا ہے مگر دنیا کے لوگوں کے لیے اس کی پالیسیاں بری کیوں ہیں؟ امریکہ نہ صرف پاکستان بلکہ چین پر بھی تنقید کرتا رہا ہے کہ اس نے اپنے عوام کی جمہوری آزادیاں ختم کی ہیں۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر چین اپنی طرز حکومت میں خوش اور خوشحال ہے تو امریکہ کو اس کی تکلیف کیوں ہو رہی ہے۔ مغرب نے ہمیشہ ہمارے ذہنوں میںایسے خیالات ٹھونسے ہیں جو ہمارے لیے انٹلیکچوئل بوجھ ثابت ہوئے ہیں۔ میں عمران خان کی حمایت نہیں کر رہا۔ مگر امریکہ سے پوچھا جائے کہ کیا وہ دنیا کے کسی بھی ملک کو یہ حق دے گا کہ اس کے حکومتی معاملات میں مداخلت کرے؟ نیشنل سکیورٹی کونسل کی میٹنگ کے مراسلے میں سازش کا لفظ شامل نہیں تھا مگر امریکہ کے حوالے سے لکھا گیا خط پاکستان کے معاملات میں مداخلت تھا۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکہ برداشت کر سکتا ہے کہ اس کے ملکی معاملات میں کسی غیر ملک کی مداخلت ہو؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر اس وقت صورتحال سنگین ہوگئی تھی، جب اس پر الزام عائد ہوا تھا کہ روس نے مبینہ طور پر ٹرمپ کی انتخابات میں مدد کی ہے۔ امریکہ اپنے ملکی معاملات میں اگر اس قدر حساس ہے تو پھر وہ یہ حق دوسرے ممالک کو دینا کیوں نہیں چاہتا؟ کیا یہ دنیا دوہرے معیارات سے متوازن ہوسکتی ہے؟ دنیا میں دانشوروں نے صرف نہیں کہا ہے کہ ’’بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے اچھی ہے‘‘ دنیا میں دانشوروں نے یہ بھی کہا ہے کہ جو اپنے لیے اچھا سمجھو دوسرے کے لیے اسی اچھائی کا انتخاب کرو۔ مگر امریکہ نے اپنے لیے الگ معیار اور ہمارے لیے الگ معیار قائم کر رکھا ہے۔ اگر امریکہ یا مغرب اور ہم میں فرق ہے تو پھر مغرب ہمیں جمہوریت کے اسباق کیوں پڑھا رہا ہے؟ کیا یہ ہمارا حق نہیں ہے کہ ہم اپنی مرضی کا وہ نظام تلاش کریں جو ہمارے حالات اور ہمارے مزاج کے لیے اچھا ہو؟ کیا کسی قوم کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنے انداز سے چلے اور آگے بڑھے؟ کیا دنیا کی اقوام امریکی اشارے پر چلنے کے لیے پابند ہیں؟ کیا ہمیں جمہوریت یہ سمجھاتی ہے؟ اگر جمہوریت صرف قطاریں باندھ کر مخصوص انتخابی نشان پر ٹھپہ لگانے کا نام نہیں اور جمہوریت اقوام کی آزادی اور وقار کی ضمانت فراہم کرتی ہے تو پھر ہمیں اپنے انداز سے جینے کی آزادی ملنی چاہئیے۔ ہم اس لیے نہیں ہیں کہ ہر وقت مغرب کی طرف دیکھیں اور ان سے پوچھیں کہ ہمیں کیا کرنا ہے؟مغرب کی ذہنی آمریت کے خلاف سب سے بڑی بغاوت حکیم الامت علامہ اقبال نے کی تھی۔ وہ مشرق کے پہلے شاعر تھے جنہوں نے مغرب کو للکارا اور جنہوں نے مغرب کو بتایا کہ اس کا آشیانہ شاخ نازک پر ہے اور وہ بہت کمزور اور ناپائیدار ہے۔ ہمارے لیے کیسے جمہوریت ہوگی؟ اس کا فیصلہ مغرب نہیں بلکہ ہم نے کرنا ہے۔ مغربی جمہوریت پر علامہ اقبال نے کتنی بڑی اور بیحد کھری تنقید کرتے ہوئے لکھا تھا : اس راز اک مرد افرنگ نے کیا فاش ہر چند داناء کہ اسے کھولا نہیں کرتے جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے علامہ اقبال کے تصور میں آمریت نہیں تھی۔ ان کے اشعار میں تو بغاوت اور آزادی کی خوشبو ہے۔ مگر انہوں نے اس جمہوریت سے انکار کیا تھا جو جمہوریت مغرب ہم پر مسلط کرنا چاہتا ہے۔ مگر مغرب اور امریکہ کی بات ہی کیا؟ امریکہ نے نہ صرف اپنی پسند کی جمہوریت ہم پر لاگو کرنے کی کوشش کی ہے بلکہ اس کی خواہش اور کوشش رہی ہے کہ وہ اپنے پسند کے حکمران بھی نافذ کرے۔ یہی سبب ہے کہ پاکستان میں اقتدار پرست سیاستدان امریکہ کے بارے میں تنقید کرنے کا سوچ تک نہیں سکتے۔ جب کہ امریکہ یا دنیا کا کوئی بھی ملک تنقید سے بالاتر نہیں ہے۔ جمہوریت ایک بہتر نظام ہے مگر اس کی بھی چند شرائط ہیں۔ جمہوریت کو اپنے ماحول کے مطابق ہونا چاہیے۔ یہ نہیں کہ ہم جمہوریت کے نام پر فدا ہوکر وہ نظام نافذ کریں جو ہمارے لیے مغرب صحیح سمجھے۔ مغرب نہ تو ہمارا آقا ہے اور نہ ہمارا طبیب ہے کہ اس کے نسخے کو سر آنکھوں پر رکھ کر ہم جوں کا توں قبول کریں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ جمہوریت کو برائے نام نہیں ہونا چاہیے۔ جمہوریت ہو تو پھر اصلی ہو۔ ہم نقلی جمہوریت کا کیا کریں گے۔ سچ بات یہ ہے کہ اب تک ہمارے مقدر میں نقلی اور جعلی جمہوریت آئی ہے۔ اس لیے جمہوریت کی جڑ اس سرزمین میں نہیں لگ رہی۔ کیا وہ جمہوریت اصلی ہوسکتی ہے جس جمہوریت میں چور اور کرپٹ کرپشن سے لوٹی ہوئی دولت لگا کر حکومت میں آجائیں۔ اس صورتحال کے پیش نظر تو چلی کے انقلابی شاعر پابلو نرودا نے لکھا تھا۔ ’’کہو تو وزارت میں جانے سے پہلے کہو تم سفارت میں جانے سے پہلے دکھاؤ ہمیں اپنے اعمال نامے قیامت کے دن اور خدا پر نہ چھوڑو قیامت سے یہ لوگ ڈرتے نہیں ہیں اسی چوک پر خون بہتا رہا ہے اسی چوک پر قاتلوں کو پکڑ کر سزا دو، سزا دو، سزا دو،سزا دو کیا پابلو نرودا درست نہیں کہتا؟ کیا پابلو نرودا کی بات ہمارے ملکی حالات کی ترجمانی نہیں کرتی؟ کیا یہ نظم جعلی جمہوریت کی اصلیت کو بے نقاب نہیں کرتی؟