سعودی عرب پہ جمال خاشقجی قتل کے سلسلے میں بڑھتے ہوئے امریکی دبائو کے پیچھے ایک وجہ اوپیک کی تیل کی منڈی میں اجار ہ داری ہے جو دنیا بھر میں سعودی عرب کی سربراہی میں تیل کی پیداوار اور قیمتوں کو کنٹرول کرتا ہے۔ اوپیک کے دو ارکان ونیزویلا اور ایران معاشی پابندیوں کی زد میں ہیں ۔ان دوبڑے ممالک پہ تیل کی فروخت کی پابندی کی وجہ سے اوپیک کے دیگر ممالک بالخصوص سعودی عرب پہ دباو تھا کہ وہ پروڈکشن بڑھائے جس میں اس سانحے کے بعد اضافہ ہوگیا۔ ستر کی دہائی میں عرب اسرائیل جنگ کے دوران اوپیک ممالک نے اسرائیل کی مدد کرنے پہ امریکہ کو تیل کی سپلائی بند کردی تھی گو اس کی ایک وجہ ڈالر کی گرتی ہوئی قدر بھی تھی۔ایک سال عرب تیل کی بندش اور قیمتوں میں چار گنا اضافے نے امریکی معیشت کی چولیں ہلا دی تھیں اور امریکی گاڑیاں پیٹرول پمپوں پہ طویل قطاروں میں کھڑی رہ گئی تھیں ۔اوپیک کی اس حکمت عملی کے نتائج و عواقب میں جہاں عرب اسرائیل امن معاہدے شامل تھے وہیں صدر نکسن نے آئندہ امریکی معیشت کو مقامی تیل کی پیداوار پہ استوار کرنے کی پالیسی تشکیل دی ۔یہی وجہ تھی کہ حالیہ جمال خاشقجی بحران میں جب سعودی وزیر پٹرولیم سے دریافت کیا گیا کہ آیا وہ ایک بار پھر امریکہ کے خلاف تیل کی بندش کا ہتھیار استعمال کریں گے تو انہوں نے صاف انکار کردیا کیونکہ اب ایسا ممکن نہیں رہا۔امریکہ نے ان چالیس سالوں میں خو د کو تیل کی پیداوار کے لحاظ سے ان ممالک میں شامل کرلیا ہے جن پہ تیل کا ہتھیار اب موثر نہیں ہوگا۔امریکہ اس وقت مقامی طور پہ گیارہ بلین بیرل یومیہ کے حساب سے کروڈ تیل(شیل نہیں)پیدا کررہا ہے ۔عالمی توانائی ایجنسی کے مطابق اگر پیداوار اسی طرح جاری رہی تو امریکہ روس اور سعودی عرب کو پیچھے چھوڑ جائے گا۔ شیل آئل کی پروڈکشن میں بڑھوتری عالمی سیاسیات میں پالیسی ساز ممالک کی پوزیشن تبدیل کردے گی اور 2040 ء تک امریکہ دنیا میں تیل کی پچھتر فیصد پیداوار کے قابل ہوجائے گا۔دنیا کے پانچ ممالک ایسے ہیں جو اپنی ایمرجنسی تیل کی ضروریات کے لئے تیل کا تیار ذخیرہ رکھتے ہیں۔ امریکہ کے پاس تیل کا یہ محفوظ ذخیرہ محض چھتیس دنوں کی ضروریات کے لئے کافی تھا لیکن گزشتہ دنوں یہ ذخیرہ اس نے چین کو فروخت کرنا شروع کردیا ہے۔ اس کی وجہ بھی تیل کی مقامی پیداوار میں قابل قدر اضافہ ہے۔اس کے علاوہ ٹیکساس میں پرمیان کے مقام پہ تیل کے جن 140,000 کنوئوں پہ کام ہورہا ہے وہ اتنے بڑے ہیں کہ اگر تیل کی قیمت تیس ڈالر فی بیرل بھی ہوجائے تب بھی وہ منافع بخش ہونگے۔سعودی عرب نے ان ہی حالات کا ادراک کرتے ہوئے اوپیک کو قیمت نہ بڑھانے کی ہدایت کی لیکن ساتھ ہی پیداوار میں کمی کا فیصلہ بھی کیا۔ حیرت انگیز طور پہ یہاں اس کے گھر کے بھیدی لنکا ڈھا رہے ہیں ۔ ایک تو لیبیا ہے جو اپنی تعمیر نو کے نام پہ پیداوار کم کرنے کو تیار نہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مشرقی لیبیا میں جہاں تیل کے کنویں ہیں اورقوس کی صورت اس پورے علاقے کو تیل کے چاند کے نام سے جانا جاتا ہے وہاں امریکہ کے منظور نظر خلیفہ ہفتار کی حکومت ہے ۔عراق میںایرانی حمایت یافتہ وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے کردستان کے ساتھ معاہدہ کرلیاہے جس کے تحت اب کرد علاقے کرکوک سے تیل کی پیداوار جو ایک سال سے رکی ہوئی تھی، بحال ہوجائے گی اور یومیہ پچاس ہزارسے ایک لاکھ بیرل تک تیل کی ترسیل شروع ہوجائے گی ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تیل ترکی کی بندرگاہ چیحان کے ذریعے اسرائیل کو بھیجا جائے گا۔اس کے علاوہ ایرانی تیل کے خریداروں کو امریکہ نے خاص رعایت دے دی ہے لہٰذا وہ بھی بکتا رہے گا۔ دنیا میں تیل کی قیمتیں اس وقت تین افرادکے ہاتھوں میں ہیں۔ٹرمپ، محمد بن سلمان اور پوٹن۔پہلے دو کا حال آپ دیکھ رہے ہیں۔پوٹن فی الحال خاموشی سے سعودی عرب کی کمزور پوزیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے اتحادی ایران کے ساتھ تیل کی پیداوار میں کمی نہ کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔دوسری طرف جنرل ابی زید کو سعودی عرب میں امریکہ کا سفیر مقرر کیا گیا ہے پورے مغرب میں جن سے بہتر عرب معاملات کو کوئی نہیں جانتا۔ ان کی تعیناتی کے ساتھ ہی سعودی عرب پہ یمن سے نکلنے کے لئے دبائو بڑھایا جارہا ہے۔ یمن پہ حملہ کرنے والے سعودی طیاروں کی ری فیولنگ جو فضا میں امریکی ائیر ٹینکر کیا کرتے تھے، بند کردی گئی ہے ۔ سعودی عرب کا دعوی ہے کہ اب وہ اس ٹیکنالوجی میں خود کفیل ہوگیا ہے۔ لہٰذا اسے اس کی ضرورت نہیں رہی ۔یہ دعویٰ بجائے خود سعودی عرب کے خلاف جاتا ہے۔ ساتھ ہی یہ بات اہم ہے کہ گو سعودی عرب ہمیشہ ہی جوہری ہتھیار بنانے اور رکھنے کے خلاف رہا ہے لیکن پاکستان کے جوہری پروگرام میں اس نے دامے درمے سخنے مدد کی ہے۔نوے کی دہائی میں کامیاب ایٹمی تجربے کے بعد پاکستان پہ لگنے والی عالمی پابندیوں کے دوران یہ سعودی عرب ہی تھا جس نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا،اربوں ڈالر کی امداد اور کئی سال کے لئے مفت تیل فراہم کیا۔مغربی دنیا میں یہ ایک عام تاثر ہے کہ پاکستان کا جوہری پروگرام نہ صرف پاکستان بلکہ سعودی عرب بالخصوص حرمین کے تحفظ کے لئے بھی کسی تیار گھوڑے کی طرح چوکس کھڑا ہے۔ اس تاثر کے منفی مثبت یا درست اور غلط ہونے سے قطع نظر اس کا ہونا ہی اہم ہے۔مقتول جمال خاشقجی نے ایک تحقیقی ادارے کے لئے سعودی عرب کے جوہری پروگرام سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ فی الحال وہ حالت خوابیدگی میں ہے یعنی اس وقت تک جب تک ایران کے ساتھ امریکہ کا جوہری معاہدہ ختم نہیں ہوجاتا۔ سعودی عرب اورامریکہ کے درمیان اس معاہدے میںاختلافات ایران کی مشرق وسطی میں بڑھتی ہوئی نفوذ پذیری کی وجہ سے تھے۔سعودی عرب چاہتا تھا کہ نہ صرف ایران کا جوہری پروگرام محدود رہے بلکہ مشرق وسطی میںا سکے پھیلتے ہوئے پر پرزے بھی قابو میں رکھے جائیں۔ٹرمپ نے سعودی عرب کے ساتھ اس کا وعدہ بھی کرلیا تھا لیکن حسب عادت وہ فریب ہی تھا۔اس کے برخلاف امریکہ نے اس معاہدے سے نکل کر ایران کو کھلی چھوٹ دے دی۔اب چونکہ ایسا ہوچکا ہے تو سعودی عرب کو اپنے جوہری پروگرام پہ عمل کرنے سے کون روک سکتا ہے جسے دنیا کو یہ دکھانا ہے کہ اس خطے میں ایک ایران ہی جوہری طاقت نہیں ہے جس سے اسے خطرہ بھی ہے۔جو روک سکتا ہے وہ جمال خاشقجی کے خون سے لتھڑے پنجے نکالے سعودی عرب پہ غرا رہا ہے۔ اپنے حالیہ بیان میں صدر ٹرمپ نے شاہی خاندان کو کسی حد تک بری الذمہ قرار دیکر شکنجہ ڈھیلا کرنے کا عندیہ دیا ہے لیکن یہ ڈھیل اس وقت تک ہوگی جب تک امریکہ عرب تیل کی انحصاری سے مکمل طور پہ آزاد نہیں ہو جاتا۔ اس کے بعد کیا ہوگا وہ گریٹر اسرائیل کی کہانی ہے،پھر کبھی سہی۔ (ختم شد)