امریکی سی آئی اے کی مجرمانہ سرگرمیوںپہ مبنی کھلی تاریخ رہی ہے جس میں اس نے نہ صرف اپنے مخالفوں کو ٹھکانے لگایا بلکہ ناپسندیدہ حکومتوں کے تختے بھی الٹے۔اپنے ہی ٹوڈی حکمرانوں کو عبرت ناک انجام تک پہنچانے میں بھی اس کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ایسے میں امریکی نژاد سعودی صحافی جمال خاشقجی کا ترکی میں سعودی سفارتخانے میں بہیمانہ قتل گو ایک بڑا سانحہ ضرور تھا لیکن اتنا مہیب ہرگز نہیں تھا جس کے زیر الزام سعودی عرب کے نوجوان شہزادے کا تخت ڈولنے لگتا۔ایران کی معاشی ناکہ بندی ، چین کے ساتھ تجارتی جنگ، شمالی کوریا کی گوشمالی اور ترکی کے ساتھ کشیدگی، اس ایک قتل کے بعد پس منظر میں چلے گئے اور صدر ٹرمپ نے سعودی عرب کی طرف پنجے تیز کرکے غرانا شروع کردیا۔ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جمال خاشقجی ہائی پروفائل صحافی تھے جن کی وجہ شہرت صحافت سے زیادہ سعودی عرب کے اعلی شاہی خاندان میں رسائی اور بے پناہ سماجی اور معاشی رسوخ رکھنے والے خاندان سے تعلق تھا۔ میںنے ان کے کالم باقاعدگی سے پڑھے ہیں اور انہیں مایوس کن حد تک موثر پایا ہے ۔ سعودی عرب اپنے ملک میں نہ سہی، دنیا بھر میں شائع ہونے والے جرائد و رسائل میں تنقید سنتا اور برداشت کرتا آیا ہے ۔سعودی شاہی خاندان کا ایسا کوئی راز نہیں جس کی حفاظت اس کے لئے مشکل ہو یا جس کی بنیاد پہ اسے کسی محرم راز سے خطرہ ہو۔ جس وقت جمال خاشقجی کا قتل ہوا وہ نہ صرف سعودی عرب میں نہیں تھے بلکہ امریکی شہریت کے لئے کوشاں تھے اور سیاسی پناہ حاصل کئے ہوئے تھے۔ امریکی شہری نہ ہونے کے باوجود ترک زمین پہ ان کا قتل اس امریکہ کے لئے اس قدر باعث تشویش کیوں تھا جو اس سے قبل محمد بن سلمان کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پہ آنکھ بند کئے بیٹھا رہا، تمام بڑے مسائل یکبارگی پس منظر میں چلے گئے۔میں نے اس سے قبل اس موضوع پہ دو کالم لکھے جس میں بتایا کہ محمد بن سلمان کا جرم درحقیقت کیا ہے اور یہ بھی کہ یہ قضیہ نمٹنے والا لگتا نہیں ہے۔ اب سی آئی اے کی رپورٹ جس میں محمد بن سلمان کو براہ راست ملزم ٹھہرایا گیا ہے،اس کا ثبوت ہے کہ معاملہ گھمبیر ہوتا جارہا ہے۔ سی آئی اے کی اسی قسم کی رپورٹوں پہ امریکہ نے ملکوں پہ چڑھائی کرکے انہیں جہنم بنا دیا ہے۔ یہ حقیقت بھی دلچسپ ہے کہ جن ملکوں پہ جوہری ہتھیاروں کے پھیلائو اور کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی واقعتا ثابت ہوجائے ان کے ساتھ مذاکرات کئے جاتے ہیں، ان پہ معاشی پابندیاں عائد کی جاتی ہیں یا کچھ عرصے کے لئے انہیں پوری چھوٹ دی جاتی ہے لیکن جن ممالک کے پاس جوہری ہتھیار نہ ہوں ، یا ان پہ حملہ کسی بڑے منصوبے کا ہی حصہ ہو، ان کی اینٹ سے اینٹ بجادی جاتی ہے۔ایران اور شمالی کوریا ایک مثال ہیں تو عراق لیبیا اور افغانستان دوسری مثال۔عراق پہ حملے کے کئی برسوں بعد ٹونی بلیئر کی معذرت تو یاد ہوگی حالانکہ صدام حسین نے کیمیائی ہتھیار اپنے ہی شہریوں کے خلاف استعمال کئے تھے لیکن اس وقت وہ امریکہ کی آنکھ کا تارا تھا اور یہ کیمیائی ہتھیار امریکہ اور یورپ کی کمپنیاں ہی اسے فروخت کررہی تھیں۔اس امریکی منافقت کا ایک شاہکار آپ آج کل دیکھ رہے ہیں جس میں حیرت انگیز طور پہ ترکی کے صدر طیب اردوان سعودی عرب کے خلاف امریکہ کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں جو اپنے ہی ملک میں بے حساب صحافیوں اور مخالفوں کے خلاف کریک ڈاون میں ہنوز مصروف ہیں۔ادھر صدر ٹرمپ ایک طرف سعودی عرب کو دھمکیاں دیتے نظر آتے ہیں تو دوسری طرف کچھ مثبت اشارے بھی دیتے ہیں اور یوں وہ بے یقینی کی فضا بنانے میں کامیاب ہیں۔ مسئلہ آخر ہے کیا؟ امریکہ اور سعودی عرب تعلقات بہت گہرے ہیں۔کیا جمال خاشقجی قتل ایسا واقعہ تھا جس کی بنیاد پہ دونوں ملکوں کے تعلقات ڈانواں ڈول ہوسکتے؟ظاہر ہے کہ نہیں۔ آخر اس معاملے کو نبٹایا کیوں نہیں جارہا؟ وہ کون سے مقاصد ہیں جو اس دبائو کے نتیجے میں سعودی عرب سے حاصل کئے جاسکتے ہیں؟کیا سعودی عرب کسی دبائو میں آسکتا ہے؟اگر اس کا مقصد شہزادہ سلمان پہ سعودی معیشت کو تیل کی انحصاری سے نکالنے کی وہ کوشش ہے جو وہ برسراقتدارآتے ہی کرچکے ہیں تو اس کا جواب بھی ہے کہ نہیں۔ وہ دبائو میں نہیں آئے۔ ان کا معاشی وژن2030 ء اسی تزک واحتشام کے ساتھ اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔انہوں نے بیچ اسی قضیے کے ریاض میں فیوچرانویسٹمنٹ انیشیٹو کانفرنس کا انعقاد کیا ، جس کا امریکی اور یورپی کمپنیوں نے امریکہ کی ہدایت پہ بائیکاٹ کردیا۔اسی کانفرنس میں پاکستان کے وزیر اعظم نے دھڑلے سے شرکت کی اور اب اسی کے دوسرے فیز میں روس کے ساتھ ثقافتی کانفرنس اسی دھڑلے کے ساتھ جاری ہے اور سعودی وزیر ثقافت ولادی میر پوٹن کے گال سے گال بھڑائے سیلفیاں لیتے پھر رہے ہیں۔اس کے باوجود تمام تر دھمکیوں اور تلخیوں کے باوجود ابھی تک امریکہ نے سعودی عرب کے ساتھ اسلحے کی ڈیل رول بیک نہیں کی۔ امریکی اسلحہ ساز کمپنیاں اسے ایسا کرنے بھی نہیں دیں گی۔ اس کے ساتھ ہی سعودی عرب اسلحہ سازی میں خود کفیل ہونے کے ایک منصوبے پہ کام شروع کرچکا ہے جو اسی وژن 2030ء کا ایک حصہ ہے اور 2025ء تک وہ اپنا اسلحہ ملک میں ہی بنانے کے قابل ہوجائے گا۔اگر اس نے امریکی اور چینی کمپنیوں سے اسلحہ سازی کی ٹیکنالوجی بھی حاصل کرلی تو بات کچھ آگے بڑھ جائے گی۔ اس سال مئی میں ہی سعودی عرب نے پرامن جوہری پروگرام پہ بھی کام شروع کردیا ہے جس کا اعلان خلیج تعاون کونسل نے 2006 ء میں کیا گیا تھاجس کے تحت اگلے پچیس سالوں میں اسی بلین ڈالر کی مالیت سے سولہ جوہری پلانٹ تعمیر ہونے تھے جس میں فرانس اور ایران کی تیکنیکی مہارت شامل تھی۔ سعودی عرب 2015ء میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کا شدید ناقد رہا ہے۔ اس کا خیال تھا کہ یہ معاہدہ ایران کو خطے میں ہاتھ پیر پھیلانے کا پورا موقع دے گا۔ اب چونکہ سعودی خدشات حقیقت کا روپ دھار چکے ہیں اور ایران مشرق وسطی میں ہر جگہ پیر جمائے کھڑا ہے ،اس لئے نہ صرف ایران) قطر بھی( اس پروگرام سے نکل گیا ہے بلکہ اس پہ موجودہ معاشی پابندیوں کے بعد محمد بن سلمان نے اسی ایرانی خدشے کے پیش نظر جوہری ہتھیار بنانے کا بھی اعلان کردیاہے اور وہ اس پہ ڈٹے ہوئے ہیں۔ اب ایران کا ہوا تو خود امریکی ہاتھوں نے بنا رکھا ہے اور یمن کا محاذ بھی سلگ رہا ہے اس لئے امریکہ کے لئے اس خدشے کا انکار ممکن نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ درون خانہ یمن سے نکلنے کے لئے سعودی عرب پہ دباو ڈالا جارہا ہے تاکہ جوہری ہتھیاروں کا ٹنٹا نبٹایا جاسکے لیکن اسے ہتھیاروں کی فروخت بھی روکی نہیں جارہی۔(جاری)