اگلے روز پائنا اور سنٹر فار سائوتھ ایشین سٹڈیز پنجاب یونیورسٹی کے اشتراک سے ایک قومی سیمینار کا اہتمام کیا گیا موضوع تھا قابل اعتماد انتخابی عمل کے تقاضے‘‘ وقت دوپہر کے ڈھائی بجے یعنی کہ شکر دوپہرے‘ اور یہی سوچ کر کہ اتنی دوپہر میں کہاں کوئی پروگرام بروقت شروع ہو گا ہم نے پوری یاکستانیت کا مظاہرہ کیا اور تقریب میں تاخیر سے پہنچے اور ہم جو تقریبات سے ہمیشہ دور بھاگتے ہیں اس لیے اس سیمینار میں جا پہنچے کہ ایک تو محترم الطاف حسن قریشی جو پاکستان میں اردو صحافت کے سرخیل ہیں انہوں نے باقاعدہ فون کر کے ہمیں سیمینار میں پہنچنے کی تاکید کی تھی اور دوسرا یہ کہ موجودہ سیاسی منظر نامے کے حوالے سے موضوع بہت اہم تھا۔ خیر ہم جو تاخیر سے پہنچے تو پنجاب یونیورسٹی کے نیو کیمپس میں انڈر گریجوایٹ بلڈنگ کا کمیٹی روم مقررین اور سامعین سے یوں کھچا کھچ بھرا تھا کہ تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ خصوصاً طالب علموں کو اس سیمینار کے مندرجات بغور سنتے دیکھ کر مجھے بہت اچھا لگا کہ نئی نسل کو بھی ملکی سیاسی معاملات میں دلچسپی ہے۔ پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب موضوع پر اپنا کلیدی مقالہ پیش کر رہے تھے اور لوگ ہمہ تن گوش تھے۔ ہم مقررین نے اس سیمینار میں اپنی رائے کا اظہار کیا جس میں بنیادی باتیں جو کہی گئیں یا یوں کہیے جن خدشات کا اظہار کیا گیا وہ کچھ یوں تھے کہ اس بار انتخابات کا بروقت ہونا اور صاف اور شفاف انداز میں منعقد ہونا ازحد ضروری ہے اگر اس بار انتخابات بروقت نہ ہوئے یا ملتوی کر دیے گئے یا پھر متنازع بنا دیے گئے تو پھر اس ملک میں دوبارہ الیکشن نہیں ہو سکیں گے۔ ایک اور اہم نکتہ یہ بیان کیا گیا کہ جیپ کا انتخابی نشان منسوخ کر کے آزاد امیدواروں کو الگ الگ انتخابی نشانات الاٹ کیے جائیں۔ تقریب کے صدر جسٹس ایس ایم کھوکھر نے اپنے خیالات پیش کرتے ہوئے ایک اہم بات یہ کی کہ الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ تمام صوبوں چیف سیکرٹریز کو طلب کر کے یہ تاکید کی جائے کہ اپنے اپنے صوبوں میں تمام سیاسی جماعتوں کے امیدواروں اور ورکرز کو تحفظ فراہم کریں اور تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابی مہم چلانے کے لیے مساوی مواقع فراہم کریں۔ ایک اور اہم بات جو اس سیمینار میں کی گئی وہ یہ تھی کہ قابل اعتماد انتخابی عمل وہی ہوتا ہے جس کی گواہی عوام دیں عوام یہ فیصلہ کریں گے کہ انتخابی عمل قابل اعتماد اور شفاف تھا یا اس پر دھاندلی کے سائے منڈلاتے رہے۔ شفاف انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن اور غیر ملکی مبصرین کی گواہی قابل قبول تجزیہ نہیں ہو سکتا۔ قارئین :یہ تو وہ فکر انگیز نکتے تھے جو اہم موضوع پر منعقد کیے گئے سیمینار میں بیان کیے گئے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا تمام دانشورانہ تجزیے بحث مباحثے سیمینار کا اثر در حقیقت انتخابی عمل پر پڑتا بھی ہے یا نہیں۔؟ ایک دانشور اور لکھاری یقینا ایسے سماج کا خواب دیکھتا ہے جو مساوات اور انصاف پر مبنی ہو لیکن زمینی حقائق ہمیشہ مختلف ہوتے ہیں۔ جمہوریت کے تصور ہی کی بات کریں اس کی وہ تعریف جو ابراہم لنکن نے کی تھی کہ عوام کی حکومت عوام کے لیے۔ کیا پاکستان میں پائی جانے والی جمہوریت اس تعریف پر پورا اترتی ہے۔ جہاں جمہوریت ایک ایسے طرز حکومت کا نام ہے سیاسی اشرافیہ عوام پر اس طرح حکمرانی کرے کہ عوام کا ہر مفاد پس پشت جائے اور جمہوریت کی دیوی بس اس اشرافیہ کے مفاد کے لیے کام کرے اسی طرح جب ہم بات کرتے ہیں کہ جمہوری عمل کے تسلسل میں قابل اعتماد اور شفاف انتخابات کی اہمیت بنیادی ہے تو خیال کی حد تک تو اس سے یقینا اختلاف نہیں کیا جا سکتا پاکستان کے سیاسی منظر نامے کو دیکھیں تواس پر غالب کا مصرعہ یاد آتا ہے کہ دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے‘ کیونکہ پاکستان کی سیاسی تاریخ ہمیں یہی کہانی سناتی ہے کہ یہاں ہونے والے ہر الیکشن پر دھاندلی کے الزامات لگائے گئے ہر الیکشن کے بعد جیتنے والی جماعت نے تو انتخابات کی شفافیت کا نعرہ لگایا لیکن ہارنے والی جماعت انتخابی عمل پر منظم دھاندلی کا الزام لگا کر انتخابی عمل پر سوالات کھڑے کرتی رہی۔ گزشتہ انتخابات کے منظم دھاندلی کا پنڈورا باکس تحریک انصاف نے پورے پانچ سال کھولے رکھا اور اس میں یقینا سچائی کا عنصر بھی کہیں کہیں موجود تھا اس لیے کہ پاکستان میں دھاندلی سے پاک الیکشن کا تصور محال ہے۔ ایسی صورت حال میں ووٹرز کا مورال بھی متاثر ہوتا ہے۔ 25جولائی کی تاریخ کا اعلان ہو چکا لیکن فضا میں ابھی بھی بے یقینی کی کیفیت پائی جاتی ہے کہ الیکشن ہوں گے یا نہیں۔؟ ابھی سے الیکشن کے متوقع نتائج پر تجزیے ہو رہے ہیں۔ یہاں تک کہ صدر کون ہو گا وزیر اعظم کی کرسی پر کون بیٹھے گا۔ کس جماعت کی قومی اسمبلی میں نمائندگی کیا ہو گی پنجاب میں فاتح کون ہو گا۔؟ بظاہر فضا تحریک انصاف کے حق میں سازگار ہے لیکن ابھی سے یہ باتیں ہو رہی ہیں کہ ایک مخلوط اور کمزور حکومت بننے جا رہی ہے جو اپنے حتمی فیصلوں کے لیے کسی اور مقتدر قوت سے رہنمائی حاصل کرے گی اگر تحریک انصاف کے لیے فضا سازگار ہے تو پھر یہ سب سے بڑا سوالیہ نشان کیوں ہے کہ آیا عمران خان وزیر اعظم بنیں گے یا نہیں۔؟ کچھ اور پراسرار چیزیں جو سیاسی منظر نامے پر وقوع پذیر ہوئی ہیں وہ آزاد امیدواروں کو جیپ کا نشان الاٹ کرنا ہے کچھ تجزیہ کار تو نقطوں کے فرق سے جیپ کو جیت کا نشان قرار دے رہے ہیں اور اب یہ پراسرار سیاسی ڈویلپمنٹ اس طرح سے معنی خیز ہوتی جا رہی ہے کہ سیاسی حالات کا جانبدار تجزیہ کرنے والے تجزیہ کار بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ ن لیگ کو انتخابات کے عمل میں مناسب اور پوری سپیس نہیں دی جا رہی تحریک انصاف کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے ایک ٹی وی اینکر نے یہاں تک کہہ دیا کہ ان حالات میں تو تحریک انصاف کو جیت کا مزا بھی نہیں آئے گا۔ ہم جمہوریت کا جو خوش کن تصور لیے بیٹھے ہیں اس سے ذرا باہر نکل کر گوگل پر صرف یہ الفاظ ٹائپ کریں۔ democracy and the third world countries آپ کو سینکڑوں آرٹیکلز پڑھنے کو ملیں گے اور آپ ان آرٹیکلز سے جان پائیں گے کہ تیسری دنیا کے کمزور معیشت رکھنے والے ملکوں میں جمہوریت کی دوسری قسمیں بھی پائی جاتی ہیں مثلاً کنٹرولڈ ڈیمو کریسی‘ گائیڈڈ ڈیمو کریسی۔ وغیرہ وغیرہ اب یہ آپ پر ہے کہ آپ اپنے ملک میں پائی جانے والی جمہوریت کو کون سا نام دینا پسند کرتے ہیں۔ تم کوئی اچھا سا رکھ لو اپنے ویرانے کا نام