انہوں نے کہا کہ کہ گورنر ایک ''مکمل'' اتھارٹی نہیں ہے بلکہ ایک ''آئینی مندوب'' ہے۔سبل نے سوال کیا: اگر صدر مرکزی کابینہ کی مدد اور مشورے کے بغیر پارلیمنٹ کو تحلیل نہیں کر سکتے تو گورنر اس اختیار کا استعمال کیسے کر سکتا ہے؟سبل نے اپنی گزارشات کو یہ کہتے ہوئے ختم کیا: ''جموں و کشمیر کے لوگوں کی آواز کہاں ہے؟ کہاں ہے نمائندہ جمہوریت کی آواز؟ پانچ سال گزر چکے ہیں ۔ انہوں نے دوبارہ کہا کہ عدالت اسوقت تاریخ کے ایک کٹہرے میں ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ عدالت خاموش نہیں رہے گی۔ سبل کی تقریباً تین دن تک محیط اس بحث کے بعد سینیر وکیل گوپال سبرامنیم نے دلائل کا آغاز کیا۔ انہوں نے اس نقطہ سے بحث شروع کی کہ بھارتی آئین کی طرح ، جموں و کشمیر کا بھی اپنا آئین ہے ، جو 1957میں آئین ساز اسمبلی نے تشکیل دیا۔ انہوں نے کہا کہ دفعہ 370کے ذریعے دونوں آئین ایک دوسرے سے بات چیت کرتے ہیں۔ سبرامنیم نے جو دوسرا نکتہ پیش کیا وہ یہ ہے کہ موجودہ کیس میں، عدالت کا تعلق صرف ایک نہیں بلکہ دو آئین ساز اسمبلیوں کے مینڈیٹ سے ہے، یعنی ہندوستان کی دستور ساز اسمبلی اور جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی۔سبرامنیم نے آئین سے متعلق ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی تعارفی تقریر کا حوالہ دیا، جس میں کہا گیا ہے کہ ہندوستانی آئین کا وفاقی ڈھانچہ ریاست میں لوگوں کو خصوصی حقوق اور مراعات دینے کی اجازت دیتا ہے۔ سبرامنیم نے کہا کہ عدالت کو اس حقیقت کو دھیان میں رکھنا چاہئے کہ ’’جموں و کشمیر کسی دوسری ریاست کی طرح نہیں تھا‘‘۔انہوں نے اس دلیل کو یہ بتاتے ہوئے واضح کیا کہ دیگر راجواڑوں کے برعکس، جموں و کشمیر کا اپنا 1939ء کا آئین تھا یہاں تک کہ ہندوستان کے تسلط کے ساتھ الحاق کے معاہدے پر دستخط کرنے سے پہلے بھی وہاں ایک پرجا پریشد تھی۔ انہوں نے جموں و کشمیر کی دستور ساز اسمبلی کے مباحثوں کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی تھی جس نے آرٹیکل 370(1)(d) کے تحت ہندوستان کو 1950، 1952 اور 1954 کے صدارتی احکامات کے ذریعے جموں و کشمیر پر ہندوستانی آئین کے اطلاق کے سلسلے میں کچھ مستثنیات کو لاگو کرنے کی دعوت دی۔سبرامنیم نے کہا کہ ہندوستان ان صدارتی احکامات کی پابندی کرنے پر راضی ہے۔واضح رہے کہ 1954ء کے صدارتی حکم نامے کی، جس نے پہلے کے احکامات کی جگہ لے لی تھی، بالآخر جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی نے توثیق کی۔سبرامنیم نے نشاندہی کی کہ جموں و کشمیر کی دستور ساز اسمبلی نے ایک رسمی قرارداد منظور کی جس میں کہا گیا کہ ہندوستان کو 1954 کے صدارتی حکم کی پابندی کرنی چاہیے اور اسے آرٹیکل 370 کی شق (1) اور شق (3) کے ساتھ جاری رہنا چاہیے۔اس دوران سبرامنیم نے خود سپریم کورٹ کے ہی پچھلے فیصلوں کا حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنا جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کا مینڈیٹ نہیں تھا اور ریاستی مقننہ کے ذریعہ منسوخی کا اختیار کبھی بھی استعمال نہیں کیا جاسکتا ہے، تو ایسا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ وفاق یا پارلیمنٹ خود کو ریاست کی آئین ساز اسمبلی میں تبدیل کرکے اس دفعہ کو منسوخ کرادے۔ سبرامیم ، جو لندن سے آن لائن دلائل دے رہے تھے اس کی د س گھنٹہ کی بحث کے بعد پوڈیم جموں و کشمیر کے معروف وکیل ظفر شاہ نے سنبھالا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ آرٹیکل 370 نے جموں و کشمیر کے آخری ڈوگرہ مہاراجہ، مہاراجہ ہری سنگھ کے ذر یعہ دستاویز الحاق میں درج اختیارات کو برقرار رکھا۔انہوں نے کہا کہ مہاراجہ نے جموں و کشمیر کا ہندوستان نے ساتھ الحاق کیا تھا ۔ مگر انضمام کا کوئی معاہدہ عمل میں نہیں آیا تھا۔انہوں نے الحاق اور انضمام کی تشریح کی۔ شاہ نے کہا کہ چونکہ انضمام کے کسی معاہدے پر دستخط نہیں ہوئے تھے، جموں و کشمیر نے اپنی ''آئینی خود مختاری'' کو برقرار رکھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ قانون بنانے کے بقایا اختیارات کے ذریعے ہی ریاست نے اپنی خودمختاری کا استعمال کیا۔آرٹیکل 370(1) کے حوالے سے، انہوں نے کہا کہ یہ شق ہندوستانی آئین کے ساتویں شیڈول کے تحت تین فہرستوں کے قوانین کے اطلاق کے بارے میں بات کرتی ہے جو جموں و کشمیر پر لاگو ہوگی۔شاہ نے واضح کیا کہ چونکہ جموں و کشمیر کے لیے تین موضوعات یعنی دفاع، خارجی امور اور مواصلات پر قانون بنانے کے لیے ہندوستان کو پہلے ہی مکمل اختیارات دیے گئے تھے، اس لیے آرٹیکل 370(1)(i) لفظ ''مشاورت'' کا استعمال کرتا ہے۔اس موقع پر، شاہ نے یہ بھی نشاندہی کی کہ آرٹیکل 370(1)(ii) یا 370(1)(d) میں استعمال ہونے والے اظہار ''اتفاق'' کا مطلب ہے کہ دونوں فریقوں کو متفق ہونا پڑے گا۔انہوں نے کہا کہ انسٹرومنٹ آف ایکشن کے تحت متعین کیے گئے ہندوستانی قوانین میںیہ واضح ہے کہ دونوں فریقین کی رضامندی ہونا ضروری ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ جموں و کشمیر کے تناظر میں، ریاست کے لوگوں کی رضامندی ہوگی جس کا اظہار وزراء کی کونسل کے ذریعے کیا جاسکتا ہے۔ شاہ نے کہا کہ آرٹیکل 370 کے تحت، یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ پارلیمنٹ کوئی یکطرفہ فیصلہ کرے۔ جسٹس کھنہ نے شاہ کے اس عرضی کا جواب دیتے ہوئے کہ جموں و کشمیر کا ہندوستان کے ساتھ انضمام مکمل نہیں ہوا، کہا کہ انضمام کا سوال ''مکمل طور پر یقینی'' ہے۔انہوں نے ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 1 کا حوالہ دیا، جس میں لکھا ہے کہ ہندوستان ریاستوں کا ایک یونین ہے، جو جموں و کشمیر کے آئین کے آرٹیکل 3 سے مطابقت رکھتا ہے۔کھنہ نے واضح کیا کہ آرٹیکل 370 صرف ریاستی مقننہ کو اپنے لیے قانون بنانے کا خصوصی حق دیتا ہے۔جسٹس کھنہ نے ریمارکس دیئے: ''مجھے مکمل انضمام کے لفظ کے استعمال پر تحفظات ہیں۔''انہوں نے مزید کہا: ''بھارتی آئین کے آرٹیکل 1 کے لحاظ سے مکمل انضمام ہوا ہے۔''چیف جسٹس نے ریمارکس دیے جموں و کشمیر کے ذریعہ الحاق کے مسودہ پر دستخط کرنے کے بعد انضمام کی بحث ختم ہوتی ہے۔ شاہ بنچ کے استدلال سے متفق نہیں ہو سکے۔ شاہ نے اپنے استدلال کو دہرایا کہ خودمختاری دستاویز الحاق کے ذریعے منتقل نہیں کی گئی۔ اسے صرف انضمام کے معاہدے کے ذریعے منتقل کیا جا سکتا ہے۔اس پر چیف جسٹس نے نشاندہی کی کہ آج بھی، پارلیمنٹ کے پاس ریاستی فہرست میں اندراجات کے لیے قانون بنانے کے مکمل اختیارات نہیں ہیں لیکن اس سے اس حقیقت پر کوئی اثر نہیں پڑتا کہ بالآخر خودمختاری ہندوستان کے پاس ہے۔انہوں نے مزید کہا: ''ایک بار جب ہندوستانی آئین کا آرٹیکل 1 کہتا ہے کہ ہندوستان ریاستوں کا ایک یونین ہوگا جس میں ریاست جموں و کشمیر شامل ہے، خودمختاری کی منتقلی مکمل ہوگئی تھی۔ ہم ہندوستانی آئین کو ایک دستاویز کے طور پر نہیں پڑھ سکتے جو آرٹیکل 370 کے بعد جموں و کشمیر کو کچھ خودمختاری برقرار رکھے۔اس دلیل کو آگے بڑھاتے ہوئے، چیف جسٹس نے کہا کہ لفظ ''اتفاق'' کا استعمال جموں و کشمیر کے آئینی حوالہ جات کے لیے منفرد نہیں ہے، ہندوستان کے آئین میں اتفاق کے بہت سے مختلف شیڈز کی ضرورت ہے۔چیف جسٹس نے ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 246A کی مثال پیش کی، جو گڈز اینڈ سروسز ٹیکس (جی ایس ٹی) کے لیے فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس دفعہ کے تحت پارلیمنٹ ریاستی مقننہ کی منظوری کے بغیر کچھ نہیں کر سکتی۔(جاری ہے)