آج سے تقریباً ایک ماہ قبل ایک اہلِ نظر نے اچانک مجھے نیند سے بیدار کیا اور کہا کہ انہیں باخبر رجال الغیب میں سے کسی ایک نے یوں بتایا ہے کہ ’’فصلیں آدھی کٹی ہوں گی اور آدھی رہتی ہوں گی کہ لوگوں کو عذاب گھیر لے گا‘‘۔ پورا دن ایک خوف کا عالم طاری رہا۔ بات کرنے کا حوصلہ نہ تھا۔ رات گئے طبیعت سنبھلی تو سوچا اسے تحریر کر دوں کہ مجھے تو بتایا ہی اس لئے جاتا ہے کہ لوگوں کو خبردار کروں تاکہ لوگ اجتماعی طور پر اللہ کے ہاں سربسجود ہو جائیں اور اللہ کی ناراضگی ختم ہو۔ لیکن قلم سنبھالنے کی بھی ہمت پڑتی تھی اور نہ ہی گفتگو کرنے کو حوصلہ ملتا تھا۔ وجہ شاید ایک یہ بھی تھی کہ گذشتہ پندرہ سال سے جب کبھی کسی اہلِ نظر سے یہ خبر ملتی کہ علامتوں سے یوں نظر آتا ہے کہ اللہ بحیثیتِ قوم پاکستان سے بہت ناراض ہے تو فوراً ان کی ہدایت کے مطابق تحریر کر دیتا اور اجتماعی استغفار کی التجا بھی کرتا لیکن اس پندرہ سال کے عرصہ میں میرا کہا، لکھا اور التجا صورت تحریر و تقریر سب کچھ صدا بصحرا گیا۔ فقیر تو پیغام رساں تھا، اسے تو اپنا کام کرنا تھا، لیکن مایوسی نے اس قدر گھیرا کہ پیغام پہنچانے کا بھی حوصلہ نہ کر پایا۔ اللہ نے دماغ میں ڈالا کہ وہ نوجوان جو ’’حقیقت ٹی وی‘‘ چلاتا ہے، اور جسے اللہ نے دولتِ ایمان کے ایک جذب دروں سے سرفراز کیا ہے اس تک خبر پہنچائوں تاکہ وہ بات لوگوں کو بتا دے۔ اس نوجوان نے گیارہ مارچ کو اہلِ نظر کی اس وارننگ کے حوالے سے ایک ویڈیو بنائی اور عام کر دی۔ لیکن عوام کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ چند دن بعد عمران خاں صاحب کے زمان پارک میں دیگر صحافیوں کے ساتھ ملاقات میں بھی مَیں نے اس وارننگ کا تذکرہ کیا تو اس وقت تک اندازہ یہی تھا کہ اپریل کے پہلے ہفتے گندم کی فصل کٹے گی تو شاید اس وقت کی طرف اشارہ ہے، لیکن شاہ محمود قریشی صاحب نے بتایا کہ سندھ میں تو کٹائی شروع ہو چکی۔ خوف گہرا ہو گیا اور فوراً اسی شام اپنے یوٹیوب چینل سے اس حالتِ عذاب سے خبردار کر دیا۔ جس حد تک رسائی ممکن ہو سکی اربابِ اختیار کو بتانے کی کوشش کی، لیکن اگلے ہی دن کسی نے منڈی بہائوالدین سے بھیرہ تک کے علاقوں میں ہونے والی ایسی ژالہ باری کی ویڈیوز ارسال کیں کہ جیسے پوری زمین برف سے ڈھک گئی ہو۔ ایسے میں کسی فصل کا سلامت رہنا کسی معجزے سے کم نہیں ہوتا۔ اس کے بعد سے بارشوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہو چکا ہے کہ جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ اس وقت بھی جب یہ سطریں تحریر کر رہا ہوں تو باہر بارش ہو رہی ہے اور مجھ پر یہ خوف طاری ہے کہ اگر ہم نے گڑگڑا کر اللہ سے معافی نہ طلب کی تو کہیں ہم کسی بڑے عذاب میں گرفتار نہ ہو جائیں۔ ابھی تو ہم چند ماہ پہلے ہونے والی بارشوں کی تباہ کاریوں سے نہیں نکل پائے۔ پہلی دفعہ اس ملک میں ایسا ہوا کہ سیلاب آیا اور حکومت اور عوام نے متاثرہ لوگوں سے بے رُخی برتی، بے حسی کا مظاہرہ کیا۔ اللہ فرماتا ہے، ’’آپ کہئے کہ اس پر بھی وہی قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب تمہارے اوپر سے بھیج دے، یا تمہارے پائوں تلے سے یا کہ تم کو گروہوں میں بانٹ کر اور ایک دوسرے سے لڑوا کر تمہیں ایک دوسرے کی لڑائی کا مزہ چکھا دے‘‘ (الانعام: 65)۔ ہم پر یہ عذاب کیوں مسلّط ہو رہا ہے؟ قوموں کی ذِلّت و پستی مٹھی بھر لوگوں کی وجہ سے ہوتی ہے جنہیں قومیں اپنا رہنماء تسلیم کر لیتی ہیں۔ وہ ان کے پیچھے آنکھیں بند کر کے چلنے لگتی ہیں۔ انہیں ان کی بُرائیاں، خامیاں ظلم اور زیادتیاں برداشت کرنے کی عادت ہو جاتی ہے۔ لوگ ان کی محبت میں ایسے گرفتار ہو جاتے ہیں کہ ان کی ہر غلط بات پر ان کا دفاع کرتے ہیں اور ان کے خلاف اُٹھنے والی حق کی آوازوں کے مقابل آ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اللہ نے جہاں بھی بستیوں پر اپنے عذاب کا ذکر کیا ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہی مٹھی بھر لوگ قرار دیئے ہیں جو زندگی کے ہر شعبے میں اس قوم کی قیادت کر رہے ہوتے ہیں اور وہ قوم بلا چون و چراں ان کی ہر بات مان رہی ہوتی ہے۔ بلکہ اللہ نے ایک جگہ تو ان مٹھی بھر لوگوں کی تعداد بھی بتا دی ہے۔ یہ قوم ِ ثمود تھی، جن پر حضرت صالح علیہ السلام مبعوث کئے گئے۔ اللہ فرماتا ہے، ’’اور شہر میں نو (9) شخص ایسے تھے جو ملک میں فساد کیا کرتے تھے اور اصلاح سے کام نہیں لیتے تھے‘‘ (النمل:48)۔ یہ آج سے تقریباً چار ہزار سال پہلے کا ذکر ہے۔ آج پاکستان میں آپ کو ہر بستی میں ایسے نو افراد ضرور مل جائیں گے جن کا کسی بستی پر کنٹرول ہوتا ہے۔ جو فساد پھیلاتے ہیں اور اصلاح سے کام نہیں لیتے۔ پانچ ہزار کی آبادی کے گائوں میں پانچ چھ ایسے زور آور لوگ ضرور موجود ہوتے ہیں جن کی دھونس اس گائوں پر مسلّط ہوتی ہے۔ یہ خاندانی طور پر وڈیرے، جاگیردار بھی ہو سکتے ہیں، یا پھر قتل و غارت کرنے، منشیات کا اڈا چلانے والے یا جرائم پیشہ افراد بھی، جن کے خوف سے پورے کا پورا گائوں تھرتھر کانپ رہا ہوتا ہے۔ پوری بستی ان کے ہاتھوں میں یرغمال بنی ہوتی ہے۔ پانچ ہزار لوگوں کی بستی میں سے اگر کوئی ایک بھی ان مٹھی بھر لوگوں کے خلاف اُٹھ کھڑا ہو تو اسے عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ہے اور باقی ساری کی ساری بستی خوف سے سہم جاتی ہے۔ یہ خوف آخر کار ان لوگوں کے اندر ان چند لوگوں کے ساتھ وفاداری کا جذبہ پیدا کرتا ہے اور پھر ایک دن اس پانچ ہزار لوگوں کی بستی اور چند مٹھی بھر لوگوں کے مفاد مشترک ہو جاتے ہیں۔ نہ کوئی بُرائی سے روکتا ہے اور نہ ہی اچھائی کا حکم دیتا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب اللہ کا اٹل فیصلہ آ جاتا ہے۔ عذاب مسلّط کرنے کا فیصلہ۔ ہمیں بار بار مہلت ملی، ہم سے بار بار مصیبت اور پریشانی، عذاب اور ابتلا ٹالے گئے۔ دوبارہ زندگی گزارنے اور اس سے لطف اندوز ہونے کی مہلت بھی دی گئی۔ وہ اہلِ نظر جن کو سچے خوابوں سے اور مبشرات کے ذریعے اللہ مسلسل اپنی ناراضگی سے آگاہ کرتا رہتا ہے، وہی صاحبانِ نظر گذشتہ کئی سالوں سے اس قوم کو حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کی طرح اجتماعی استغفار کی استدعا کرتے رہے، لیکن ان کا تمسخر اُڑایا جاتا رہا۔ عذاب گہرا ہوتا چلا گیا۔ اللہ اپنے عذاب کی ایک شکل ’’معیشت ضنکا‘‘ بھی بتاتا ہے۔ اللہ فرماتا ہے، ’’جو میرے ذکر سے اعراض کرے گا اس کے لئے دُنیا میں تنگ زندگی کر دوں گا۔‘‘ (طہٰ: 124)۔ یعنی میں تمہاری گزران مشکل کر دوں گا۔ ہمارے سروں سے بارشوں کا عذاب، ہماری فصلوں کی بربادی اور ہماری گزران کا مشکل ہونا کیا یہ سب کچھ ہمیں نظر نہیں آ رہا۔ لیکن ہم مست ہیں، دولت و قوت میں مست، اقتدار میں مست، ہم سمجھتے ہیں ہم فیصلہ کرنے کی قوت میں ہیں، جسے چاہیں اُٹھا لیں، جسے چاہیں بے آبرو کر دیں، جس کی زندگی چاہے عذاب بنا دیں اور جو کوئی ہمارے خلاف بولے اسے عبرت کا نشان بنا دیں۔ بس یہی ہے تمہارا اختیار جس کے مزے لوٹو مگر یاد رکھو اللہ کا دستور یہی ہے کہ وہ کسی بدمست قوم کو اس وقت پکڑتا ہے جب وہ اپنی طاقت میں مست پڑی ہوتی ہے اور اسے عذاب کا یقین بھی نہیں ہوتا۔