رات کے پچھلے پہرکی اُداس تاریکی۔ حبس کا موسم۔جما ل دین یادوں کی راہداریوں میں بھٹک رہاتھا۔ برسوں پہلے ایک مشنری سکول کی خاتون وائس پرنسپل نے افسردگی کے عالم میں اُسے گھر بار بیچ کرسات سمندرپار منتقل ہونے کا بتایا تھا۔کہنے کو مشنری سکول تھا، تدریسی اور انتظامی سٹاف سارا مسیحی ،مگرطلباء کی اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ امتحانات میں جو ’بوٹیاں‘ سکول کے باتھ رومز میں کھولتے ، وہیں گرا آتے۔ اسلامیات کا پرچہ جس روز ہوتا،سکول کا سٹاف ہیجانی کیفیت میں باتھ روموں کے چکر کاٹتا ۔ کئی برسوں پہلے، جمال دین خانیوال میںتعینات ہوا تھا۔ اس کی یونٹ تنہاشہر کے مضافات میں تھی۔شہر کے الیٹ کلب کا جمال دین ممبر تھا۔اسی کلب کے لان میں ٹینس کھیلتا تھا ۔اکثر وقفے کے دوران ،کورٹس کے کنارے دھری کرسیوں پر بیٹھ کر سامنے بچھی سر سبز گھاس کو تکتا تو اسے شہر کا ڈپٹی کمشنر ٹینس کھیلتے ہوئے دکھائی دیتا۔ پھر جیسے کچھ سائے اچانک کہیں سے نمودار ہوئے اور گھاس پر پھیلتے چلے گئے ہوں۔ دائیں بائیں والے بھاگ گئے۔ کچھ جہاں کھڑے تھے وہیں پتھر ہو کر تماشہ دیکھتے رہے۔ صرف ڈپٹی کمشنر صاحب ’یا علی مدد ، یا علی مدد‘ پکارتے سرسبز گھاس پر ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔ نئے ڈپٹی کمشنرصاحب چارج لے چکے تھے۔ جمال دین انہی کے دفتر میں بیٹھا تھا۔ دیکھا کہ سائل آتے ہیں۔ عرضیاں گزارتے ہیں۔ کچھ تو دفتر میں ہی سمٹے، گھبرائے احکامات کے گھنٹوں منتظررہتے۔عوامی شکایات کا دن تھا، خلقِ خدا دفتر کے باہر امڈی پڑی تھے۔دفتر کے اندر مگر رعب دار خاموشی چھائی تھی۔ایک دم دفتر کا دروازہ دھڑام سے کھلتا ہے۔ چند باریش نوجوان اندرداخل ہوتے ہیں۔سروں پرچترالی ٹوپیاں، شلواریں ٹخنوں سے اوپر۔ موزوں کے ساتھ جوگرز ۔ اور فوجی طرز کی جیکٹیں۔صاحب کے سامنے کچھ کاغذ رکھتے ہیں۔ صاحب دستخط ثبت کرتے ہیں۔ نوجوان جس طمطراق سے آئے تھے ، ویسے ہی دفتر سے نکل جاتے ہیں ۔ جمال دین کی آنکھوں کے سامنے فروری 1997 ء کا پریم نگر ناچنے لگا۔پریم نگر ہزاروں مسیحیوں پر مشتمل خانیوال شہر کی ایک نواحی بستی تھی۔17جنوری 1997ء والے دن پولیس نے بستی کے ایک گھر پر قماربازی کے شبے میں چھاپہ مارا۔ پکڑ دھکڑ کے دوران طاقچے میں رکھی انجیل نیچے گر پڑی اور روندی گئی۔شام کے وقت بستی کے معتبر افراد گرفتار ملزمان سے ملنے مقامی تھانے پہنچے توان کے ساتھ اور بھی برا سلوک ہوا۔مسیحیوںنے پولیس کے ایک سپاہی کے خلاف 295c کا پرچہ دے دیا۔ کلیم گِل نامی شخص بے حرمتی کا عینی شاہد اور مقدمے کا مدعی بنا۔واقعے کے کچھ روز بعد ایک شب، عشاء کی نماز کے لئے کچھ نمازی پریم نگر سے ایک میل دور واقع مسجد میں نماز پڑھنے پہنچے تو انہیں چند مقدس اوراق جلے ہوئے ملے۔ ایسے ہی ایک سوختہ ورق پر نا صرف مقدس ہستیوں کے بارے میں نازیبا کلمات لکھے ہوئے تھے بلکہ جلانے والے کا پورا نام اور مکمل پتا بھی درج تھا۔ 295c کے تحت مقدمہ درج ہو گیا ۔اگلے روز جب مسجدوں سے اعلانات کا آغاز ہوا تو گھبرائے ہوئے مسیحی شہر میں ڈپٹی کمشنر صاحب کو ڈھونڈنے لگے۔6 فروری1997ء کا دن بستی والوں پر بہت بھاری گزرا۔ شا م تک پریم نگرکے درودیوارسوختہ اور کھیت کھلیان سلگ رہے تھے۔ وزیرِ اعلیٰ کا ہیلی کاپٹرآئے روز پریم نگراُترنے لگا۔اعلان ہوا کہ ملک کے خلاف اغیار کی سازشیںنا قابلِ قبول ہیں۔بتایاگیا کہ اسلام سلامتی کا دین ہے۔ رات کے پچھلے پہر کی تاریک خاموشی اور گھٹن کا موسم۔جمال دین یادوں کی گہری وادی میں گھوم رہا تھا ۔نیند کے غلبے سے بوجھل اس کی نیم وا آنکھیں سامنے کھڑکی کے باہر اندھیرے میں کسی ایک نکتے پرجمی تھیں۔پھر جیسے کھڑکی کے شیشوں کو چیرتا ہوا، ہَواکا ایک جھونکا کمرے میں داخل ہوا ۔ جمال دین نے ہڑبڑا کرآنکھیں کھولیں، کلیم گل سامنے میز کے دوسری طرف کرسی پر بیٹھا تھا۔جمال دین کی کنپٹیوں میں خون دھڑکنے لگا۔’دیکھ لیں ایک بار پھر وہی ہو ا،ساب جی۔ آپ تو 1997ء میںوہیں تھے نا؟کل ایک بار پھرہمارے گھر جلا دیئے گئے، ساب جی۔ ہمارے قبرستان تک کو اکھاڑ دیا گیا ۔پولیس کھڑی تماشا دیکھتی رہی۔‘ جمال دین خاموشی سے کلیم گل کو تکتا رہا۔ ’ 26 چرچ جل کر راکھ ہوگئے ہیں ہمارے ، ساب جی۔‘جمال دین کا دماغ جیسے مائوف ہو گیا ہو ۔اُس نے کچھ بولنے کی ناکام کوشش کی۔ کیا جمال دین’ سلیپ پیریلسز‘ میں تھا؟ کیا وہ کوئی ڈرائوناخواب دیکھ رہا تھا؟اسی اثناء میںکمرے کے پہلو میں چھوٹا سا دروازہ کھلا۔ مشنری سکول کی خاتون وائس پرنسپل پائوں پٹختے اندر داخل ہوئیں۔چھوٹتے ہی بولیں۔ ’ شہر کے چوک میں عین اس جگہ جہاں دو مسیحی بھائیوں کا گھر تھا، مقدس اوراق جلے ہوئے ملے ہیں ۔ایک مقدس ورق پر عظیم ہستیوں کے بارے میں نازیبا کلمات لکھے تھے۔ ساتھ ہی نام اور مکمل پتا بھی لکھ رکھا تھا‘۔ خاتون غصے سے بولتی رہیں۔’آپ تو جانتے ہیں کئی سال پہلے میں نے ملک کیوں چھوڑا تھا؟ اب تو آپ جانتے ہیں نا کہ میں نے اپناملک کیوں چھوڑا تھا؟‘ جمال دین نے بمشکل لب کھولے اور سامنے میز پر نظریں گاڑے ، کلیم گل اور جذبات میں لبریزخاتون کو بیک وقت مخاطب کرتے ہوئے بولا ۔’آپ لوگ فکر نہ کریں۔ پتاچل چکا ہے کہ حکومت کے خلاف جلائو گھیرائو کی ایک بار پھر بڑی سازش ہوئی ہے۔آپ لوگ بالکل فکر نہ کریں،اس سازش میں ملوث افراد کے ساتھ بھی آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائیگا۔جیو فینسنگ میں سب کچھ سامنے آ جائے گا۔ کسی کومعاف نہیں کیا جائے گا۔ آپ بس شانت ہو جائیں، سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘کمرے کی بغل میں چھوٹا سا دروازہ ایک بار پھر کھلا۔ چند باریش نوجوان اندردھمک آئے۔ کلیم گل کو کرسی سے اٹھنے اور خاتون وائس پرنسپل کے ساتھ کمرے سے باہر جانے کا حکم دیتے ہوئے ، نوجوان کرسیاں گھسیٹ کر جمال دین کے سامنے بیٹھے گئے۔ جمال دین نے نوٹس کیا کہ باریش نوجوانوں کی فوجی جیکٹیں اُتر چکی تھیں۔ موسم یقیناََ بدل چکا تھا۔ اگرچہ حبس پہلے سے کہیں زیادہ تھی۔ ایک نوجوان جو لیڈر دکھائی دے رہا تھا ، بولا۔ ’ہمارے مطالبے پر عیسائی اسسٹنٹ کمشنر کو او ایس ڈی بنا دیا گیا ہے۔بدلے میںہم نے بھی کہہ دیا ہے کہ اب معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کیا جائے گا۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘جمال دین نے دروازے کے پاس سمٹے سہمے کھڑے کلیم گل اور خاتون وائس پرنسپل پر ایک نگاہ ڈالی اور سامنے بیٹھے باریش نوجوانوں کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا،’جی جی،سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘ اسی دوران حبس سے بھری رات کی تاریک خاموشی میںباہرکوئی شخص لان کی سر سبز گھاس پرایک دائرے میںبھاگتے ہوئے مسلسل منادی دینے لگا،’ ظلم ظلم ہی ہوتا ہے۔کسی کی جان ہی کیوں نہ لی جائے،مال ہی کیوں نہ لوٹا جائے۔ بہتان ہی کیوں نہ ہو۔جھوٹی گواہی ہی کیوں نہ ہو۔ سرد خاموشی ہی کیوں نہ ہو۔ظلم ،ظلم ہی ہوتا ہے۔یا علی مدد، یا علی مدد۔‘