روزہ رکھ کے بھوکا رہنے کا،اس رب نے آخر کیوں حکم دیا، مخلوق کی بھوک کو قیامت کے دن جو اپنی بھوک قرار دے دے گا؟ پروردگار کی اپنی شان ہے ۔ قیامت کے دن وہ مگرفرمائے گا ،اے میرے بندے! میں بیمارپڑا تھا ، تجھے میری عیادت کی توفیق کیوں نہ ہوسکی؟ پروردگار پوچھے گا، میں بھوکا رہا، تو نے مجھے کھانا کیوں نہ دیا ؟ دریافت کیاجائے گا ، میرے بندے میں پیاسا تھا ، تو نے میر ی پیاس کیوں نہ بجھائی ؟ مارے حیرت کے جانے آدمی کا تب کیا حال ہو گا؎ سودا جو ترا حال ہے اتنا تو نہیں وہ کیا جانیے تو نے اسے کس آن میں دیکھا حیرت سے سکڑا سمٹا بندہ عرض کرے گا، بھلا ایک پروردگار بھوکا اور پیاساکیسے ہو سکتا ہے ؟ اور ایک رب بھلا کیسے بیمار ہو سکتا ہے ، ساری مخلوق کے رزق اور شفاکا جو ذمے دار ہو؟ پروردگار فرمائے گا ، میرے فلاں فلاں بندوں کی اگر تم یہ ضروریات پوری کر دیتے تو گویا تم اللہ کے ساتھ معاملہ کرتے ۔یہاں سوال اٹھتا ہے ، یہ جو ایسا پروردگار ہے۔ بندوں کی حاجتوں پر ایسا بلیغ بیان اور دھیان دینے والا، ان کی ضروریات پر توجہ اور ترغیب دلانے میں ایسی انوکھی تشبیہات برتنے والا۔وہی رب آخرروزہ رکھوا کے بھوکا رہنے کا مخلوق کو حکم کیوں دیتا ہے۔ سوال ذہن میں ابھرا اور ابھرتا چلاگیا۔ پھرقرآن یاد آیا۔وہی آیت روزے کا جس میںمسلمانوں کو حکم دیا گیا۔ روزے کا حکم بھی دیا گیا، روزے سے رخصت کا ذکر بھی کیا گیا، مثلاً مریض اور مثلاًمسافرکا ذکر ۔ پھر ساتھ ہی یہ بھی فرمایا گیا،روزہ رکھنا ہی تمھارے لیے بہترہے، اگر تم جان لو۔ آدمی سوچتا ہے ، روزے میں آخر ایسی کیاافادیت ہے۔ ہاں یہ اللہ کا حکم ہے ، اس پر اجر و ثواب کے کبھی نہ تولے جانے والے اور کبھی نہ گنے جانے والے خزانوں کا وعدہ ہے۔روزہ دار کے لیے جنت کے آٹھ میں سے ایک مستقل دروازہ مختص ہے ۔ اس دروازے کے نا م میںبھی بڑی معنویت ہے ۔ ریان اس دروازے کا نام ہے ۔ ریان کا معنی ٰ ہے سیرابی۔ یعنی پندرہ گھنٹے کی، روزے دار کی تشنگی اور بھوک کا خدا کو احساس بہت ہے ۔ ایسا کہ سبھی اہلِ جنت کو جنت کی نعمتیں جنت میں داخلے کے بعد نصیب ہوں گی۔ روزے داروں کے لیے مخصوص دروازے کے نام سے مگر یہ آشکا ر کہ جنت میں جانے سے قبل ہی ، دروازے سے گزرتے ہی سیرابی ان کو نہال کر دے گی۔ یہ بھی اہتمام کہ ریان نامی یہ دروازہ کسی اور کے لیے ہر گز نہ کھلے گا، صرف روزے داروں ہی کو اس خصوصی دروازے سے داخلے کی اجازت ہو گی۔آخری روزے دار کے گزرتے ہی یہ دروازہ بند کر دیا جائے گا۔ ہاں یہ بھی ہے کہ روزے کو خدا نے عبادات میں بھی بڑی خاص اہمیت دی ہے۔مطالعہ سے چیزیں آشکار ہو جاتی ہیں۔ مثلاً روزے کے علاوہ ہر نیکی کا اجر و ثواب طے کیا جا چکا، ہر نیکی کا اجر فرشتوں کو بتا دیا گیا۔ روزہ البتہ اللہ اور بندے کے درمیاں ایک مخفی راز ہے۔ اس بات کو بھی ذرا سا سمجھنا چاہئے۔ مثلاً سپر سٹور سے ہم سامان خریدتے ہیں۔ادھر ادھر سے چیزیں اٹھاکے ٹرالی بھرتے جاتے ہیں۔سیر ہو جاتے ہیں تو یہ ٹرالی دھکیل کے کاؤنٹر پہ لے آتے ہیں۔ کاؤنٹر والا ایک ایک چیز اٹھاکے چیزوں کاکوڈ سکین کرتا جاتاہے ۔ جس چیز کا کوڈ سکین ہوجاتاہے ،کمپیوٹر میں درج اس کی قیمت سکرین پر نمودار ہو جاتی ہے ،یہ قیمت بل میں جمع ہوتی جاتی ہے ہم دیکھتے ہیں، بعض دفعہ ایسی آئٹم بھی آجاتی ہے ، کمپیوٹر میں جس کی قیمت مندرج نہیں ہوتی ۔ کاؤنٹر والا اس کی قیمت خود سے دیکھ کے لکھ لیتا ہے ۔ ایسا ہی کچھ معاملہ شاید نیکیوں کے اجر کا بھی ہے ، ہر نیکی کے اجر کا گویا خدا نے فرشتوں کو کوڈ دے رکھا ہے ۔یا اجر بتا رکھا ہے۔ رمضان آفر کے تحت کس نیکی میں کتنے گنا اضافہ کر د یا گیا ہے ، اس ہدایت پر مبنی سرکلر بھی فرشتوں کو فراہم کر دیا جاتاہے۔ آدمی اپنا اور فرشتے اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔ اس سارے معاملے سے روزے کو مگر الگ رکھ دیا جاتاہے۔ فرشتوں سے کہہ دیا جاتاہے کہ روزے کا نہ تمھیں کوڈ دیا جاتا ہے اور نہ تمھیں اپنی طرف سے اس کا کوئی اندازہ لگانے کی اجازت ہے ۔ اندازہ تو خیر انھوں نے لگانا بھی کیا ہے ۔ بہرحال حکم ہوتا ہے ۔ روزے کی نیکی کو بس خوبصورت پیکنگ میں ڈال کے تم خصوصی گوشے میں رکھتے جاؤ۔ یہ پروردگار اور ا س کے بندے کا خاص اورذرا سا ذاتی معاملہ ہے ۔ بندے کے اس عمل کا پروردگار نے جو بھی انعام دینا ہے ، اسے تم سرپرائز رہنے دو، خود اور پوری کائنات کو تجسس میں رہنے دو۔ عین موقعے پر ہی یہ راز کھلنا چاہیے کہ اس ایک عمل کے اجر میںجہانوں کے پروردگار نے آخر کیا چھپا کے رکھا ہے۔خیال آتاہے ، اس قدر خفیہ اہتمام سے چھپا کر رکھا یہ اجر و انعام آخر کیا ہو سکتاہے؟ ظاہر ہے اس کی تہہ تک پہنچا نہیں جا سکتا،بس ذرا سا غور کیا جا سکتا ہے۔ حکایت ہے کہ بادشاہ کے دربار میںکسی قصیدہ خواں شاعرنے قصیدہ پیش کیا۔بادشاہ کی تعریف کے لیے لفظ یوں اس نے مودب اور معطر کر دئیے کہ بادشاہ جھوم اٹھا، جیسا کہ ستائش کے عادی بادشاہوں کی عادت ہوتی ہے ، شاعر سے وہ کہنے لگا، تم نے ہمیں خوش کر دیا، اب تمھیں خوش کرنے کی باری ہماری ہے۔ مانگو، تمہاری ہر تشنہ آرزو آسودہ کر دی جائے گی۔ شاعر سے بڑھ کر زبان و بیان پر دسترس رکھنے والا بھی بھلا کون ہو سکتا ہے، یہی ایک فن تو خدا نے انھیں زندگی کرنے کو دیا ہوتا ہے ۔ کہنے لگا ؎ قلیل منک یکفینی ولکن قلیلک لا یقال قلیل ’’ فقیرسے توبادشاہ کی ادنیٰ عطا بھی سنبھالی نہیں جاتی ،یہ بات بھی البتہ مسلم کہ بادشاہوں کا تھوڑا بھی مگر تھوڑا کب کہلاتا ہے۔‘‘ حسنِ طلب اورحسنِ تعبیرکے اس پیرائے پر بادشاہ بارِ دگر جھوم اٹھا، شاعر کے قصیدے کی قدرو قیمت کے برابر نہیں ،بادشاہ نے اب ایک بادشاہ کی عظمتِ عطا کے شایانِ شان شاعر کودان کیا۔اچھا سوچیے، یہ تو ایک دنیا وی بادشاہ کی بات تھی ۔ سوچنا یہ چاہیے کہ ایک محدود سلطنت کے حامل بادشاہ سے مخلوق کو اگر اتنی امیدِ عطا ہو سکتی ہے اور ایک زوال نصیب سلطنت کے بادشاہ کو اگر اپنی ساکھ کا ایسا خیال ہو سکتا ہے تویہ معاملہ تو اس ذاتِ رفیع الشان کے دربار میں پیش آناہے ، زمین کے سارے تیوروں کا جو شہنشاہ ہے۔ جس کے خزانے میں کوئی کمی ہے اور نہ جس کے دستِ عطا میں کوئی کوتاہی ہے،کیوں پھر وہ فقیر وں کو نہال نہ کر دے گا؟ لیجیے، ورق تمام ہوا، بات اگرچہ کچھ اور بھی تھی۔جواب ڈھونڈنا تھا کہ بھوک کے ماروں کی خستہ حالی کی قدر کرنے والا رب آخر انسانوں کو روزے کے ذریعے سے بھوک کیوں دیتاہے۔ادھر قرآن میں اس کا ارشاد جگمگاتاہے ،روزہ رکھنا ہی تمھارے لیے بہتر ہے ، اگر تم جان لو۔ اچھا تو میڈیکل سائنس نے اس حوالے سے کیا کچھ جان لیا ہے؟ خد ا توفیق دے تو اگلے کالم میں اسی پر کچھ بات کرتے ہیں۔