حکومتی دعووں اور اقدامات کے باوجود ہرگذرتے دن کیساتھ مہنگائی کا نیا ریکارڈ بن رہا ہے۔ وزیراعظم کی جانب سے جیسے ہی عوام کو ریلیف فراہم کرنے کا کوئی بیان جاری ہوتا ہے تو کسی نہ کسی ادارے کی جانب سے مہنگائی کا نیابم گرا کر حکومت کی تسلیوں پر راکھ ڈال دی جاتی ہے۔آئی ایم ایف کے سامنے سرنڈر کرنے کے باعث وزرات خزانہ ہر عوام دوست اقدام کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کردیتی ہے۔ وزارت خزانہ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے میں مگن ہے تو وزارت توانائی غفلت کی لمبی چادرتان کر سوئی ہے جس کا خمیازہ حکومت اور عوام دونوں بھگت رہے ہیں۔15فروری کی شب وزیراعظم کا بیان جاری ہوا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں 12روپے فی لیٹراضافہ کرناممکن نہیں کیونکہ مہنگائی کی چکی میں پستے عوام یہ بوجھ اْٹھانے سے پہلے ہی قاصر ہیں۔ وزارت خزانہ نے 16فروری سے پیٹرولیم مصنوعات اوگرا کی تجویز سے بھی زیادہ مہنگی کردیں۔ وزارت خزانہ نے آئی ایم ایف شرائط کے باعث ’’مقصد عظیم ‘‘کے حصول کیلئے پٹرول پر4روپے فی لیٹر پیٹرولیم لیوی کا اضافہ کرتے ہوئے لیوی بڑھاکر 17 روپے 92 پیسے فی لیٹر کردی۔ اس قبل پیٹرول پر فی لیٹر لیوی 13 روپے 92 پیسے فی لیٹر عائد تھی۔ اسی طرح ہائی سپیڈ ڈیزل پر پیٹرولیم لیوی 4روپے فی لیٹر اضافے کرتے ہوئے 13روپے 30پیسے فی لیٹر مقرر کردی۔پیٹرولیم لیوی بڑھانے سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت نے ملکی تاریخ میں ایک اور ریکارڈ قائم کردیا ہے جو آئندہ چند دنوں میں خوفناک مہنگائی کا باعث بنے گا۔ وفاقی حکومت پیٹرول پر پیٹرولیم لیوی کے علاوہ کسٹم ڈیوٹی کی مد میں 11روپے 51پیسے جبکہ ہائی سپیڈ ڈیزل پر 11روپے 65پیسے فی لیٹر وصول کررہی ہے لہذا پیٹرولیم لیوی میں کمی سے پیٹرول اور ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت برقرار رکھنا بالکل ممکن تھا۔ حکومت صرف کسٹم ڈیوٹی کی مد میں آئندہ 15دنوں میں 25ارب روپے ریونیو عوام سے اکٹھاکرے گی۔ یوکرائن اور روس کے مابین میں کشیدگی کم ہونے کے باعث سرکاری ماہرین سمیت دنیا بھرکونظرآرہا تھا کہ آنے والے دنوں میں خام تیل کی قیمت کم ہوجائے گی لہذا حکومت یکم مارچ تک قیمتیں برقرار رکھ عوام دوست اقدام کرسکتی تھی مگرشاید عوام کے نصیب اچھے نہیں یا پھر حکومت عوام میں اپنی بچی کھچی ساکھ کا بھی جنازہ نکالنے کے درپے ہے۔ ایک جانب عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمت بڑھنے کا عذر پیش کرکے عوام کو جینا محال کردیا گیا ہے تو دوسری جانب آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کوکھلی چھوٹ دے کر بھاری منافع کمانے کی راہ ہموار کردی گئی ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی طرف سے جاری کردہ ایس آر او کے ذریعے نظرثانی شدہ چائنا پاکستان فری ٹریڈ ایگریمنٹ شرائط کو نافذ ہوئے اب دو سال ہو چکے ہیں جس نے 6ہزار786 اشیا ء پر لاگو کم ڈیوٹی کو فعال کر دیا ہے جس کے باعث چین سے پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد پر 10فیصد کسٹم ڈیوٹی کی چھوٹ 2021ء سے نافذ ہوچکی ہے۔پیٹرولیم مصنوعات پر ڈیوٹی میں کمی کا پاکستان میں پرائیویٹ آئل کمپنیوں نے خوب فائدہ اْٹھایا ہے مگراس فائدے کو ایک منظم منصوبے کے تحت عوام تک پہنچنے سے روکا گیا ہے۔ مثال کے طور پر 2021ء میںپیٹرول کی مجموعی درآمد کا 16فیصد چین سے درآمد کیا گیا۔چائنا پاکستان فری ٹریڈ ایگریمنٹ کے نافذ ہونے سے پہلے کے سالوں میں یہ تناسب صفر تھا۔ درحقیقت 2021 ء چین سے ایندھن کی درآمدات کا پہلا پورا سال تھا۔ نو ماہ کی مدت میں شیل‘اٹک پیٹرولیم کئی آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے سستا پٹرول درآمد کرکے اربوں روپے کا منافع کمایا مگر عوام کو سستے پیٹرول کا فائدہ نہیں مل سکا۔ وزارت توانائی اگر بہتر حکمت عملی اختیار کرتی تو یقینا پیٹرول آج 160روپے فی لیٹر تک نہ پہنچتا۔تاہم جو چیز دیکھنا مشکل نہیں وہ یہ ہے کہ آئل مارکیٹنگ کے شعبے میں ڈیوٹی سے استثنیٰ کے فوائد عوام تک نہیں پہنچتے اور نہ ہی حکومت جس کو کسٹم ڈیوٹی کی وصولی میں خاطر خواہ رقم چھوڑنی پڑتی ہے۔ ایف ٹی اے بنیادی طور پر اس لیے لاگو کیا گیا تھا تاکہ پاکستانی عوام کو سستی پیٹرولیم مصنوعات’کمپنیوں کو بہتر مارجن جبکہ ان کے شیئر ہولڈرزکو زیادہ منافع ملے لیکن حکومتی عدم توجہ اور اوگرا کی چشم پوشی کے باعث صرف آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے اربوں روپے کا منافع سمیٹ لیا ہے۔ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا فیصلہ پی ایس اور امپوررٹ پرائس کی بنیاد پر کیا جاتا ہے مگر پی ایس او کی جانب سے چین سے سستی پیٹرولیم مصنوعات درآمد نہ کرنے کے باعث دیگر آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو ڈیوٹی چھوٹ کا بھرپور فائدہ اْٹھانے کا موقع مل گیا۔ اگر پی ایس او ایف ٹی اے کے تحت کارگو درآمد کرتا ہے تو قیمتوں میں کمی کا فائدہ خود بخود صارفین تک پہنچ جائے گا۔ پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد میں اضافے کے باعث روپے پر دبائوبڑھ گیا ہے کیونکہ زیادہ زرمبادلہ ملک سے باہر جا رہا ہے۔ موجود وزارت توانائی اور اوگرا ملکی آئل ریفائینریوں کو پوری صلاحیت پر چلانے کیلئے تیار نہیں۔ پڑوسی ملک میں آئل ریفائنریاں سوفیصد صلاحیت پر مصنوعات تیار کرکے زرمبادلہ کی خطیر بچت کررہی ہیں جبکہ پاکستان میں آئل ریفائنریاں 60فیصد صلاحیت پر چل رہی ہیں۔ نئی آئل ریفائنری پالیسی چھ ماہ سے اجلاسوں کی نذر ہوچکی ہے۔ وفاقی وزراء ایک نجی سیکٹر کی ریفائنری کیلئے نئی پالیسی کی کچھ شقوں کا نفاذ روکنے کے درپے ہیں۔ معاون خصوصی سی پیک اتھارٹی خالد منصور نے نئی آئل ریفائنری پالیسی میں بے مداخلت کرکے سارے عمل پر کئی سوالات کھڑے کردئیے ہیں۔نئی آئل ریفائنری پالیسی کے ذریعے پاکستان میں عالمی معیار کے مطابق پیٹرول اور ڈیزل کی پیداوار میں ریکارڈ اضافہ ہوگاجو براہ راست زرمبادلہ کے قیمتی ذخائر کی بچت اور مہنگائی کی شرح کو لگام ڈالنے میںمعاون ثابت ہوگا۔یہی نہیں بلکہ 2030ء تک پاکستان پیٹرولیم مصنوعات دآمد کرنے کی بجائے بر آمدکرنے کے قابل ہوجائے گا۔ اس ساری دھینگا مشتی میں زرمبادلہ کے ذخائر کا ضیا ع جبکہ عوام مہنگائی کی دلدل میں دھنستے جارہے ہیں۔وزیراعظم صاحب! خدارا سوچئے عوام اور معیشت دشمن اقدامات میں آخر ملوث کون ہے؟