میرا سکول، کالج کا دور خاصا خشک، بورنگ اور کسی باقاعدہ قسم کی علمی، ادبی سرگرمی سے عاری تھا۔ یاد نہیں کہ ہائی سکول یا کالج کے زمانے میں ہمارے اداروں میںایسی کوئی ایکٹوٹی ہوئی یا ان میں حصہ لینے کا موقعہ ملا ۔سکول کا سالانہ میگزین کبھی نہیں دیکھا۔ ہمارے کالج کا میگزین تو ضرور تھا، مگر میری چار سالہ تعلیم کے دوران خیر سے وہ شائع نہیں ہوا۔پتہ نہیں بعد میں کبھی چھپاتو ہماری کوئی تحریر اس میں شامل ہوئی یانہیں، کوئی خبر نہیں۔ احمدپورشرقیہ جیسے تحصیل کی سطح کے چھوٹے شہروں کے طلبہ کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ صحافت میں آنے کے بعداپنی عمر کے کئی لوگوں کو ملاجنہیں دوران تعلیم ہی اپنے کالج یا یونیورسٹی وغیرہ کے میگزین کی ادارت کا موقعہ ملایا ان میگزینز میں تحریریں شائع ہوئیں۔ ہمارا دامن تو اس حوالے سے’’ شفاف‘‘ اور’’ بے داغ‘‘ رہا۔ کوئی چیز کہیں شائع نہیں ہوئی تھی۔ ہمارے پاس ایک ہی راستہ تھا کہ ڈائجسٹوں میں تبصرے کے خط لکھے جائیں۔ مجھے یاد ہے کہ نیارخ نامی ایک ڈائجسٹ تب کراچی سے چھپتا تھا، مشتاق احمد قریشی اس کے مدیر اعلیٰ تھے۔ وہاں میرا ایک خط شائع ہوا، جس پر شائد دو سو یا تین سو روپے کے انعام کا اعلان کیا گیا۔ وہ انعام کبھی نہیں ملا، مگر ڈائجسٹ میں چھپنے والے اس اعلان نے خوشی دی۔پھر اسی پرچے میں ایک فرضی نام سے خط لکھا ، جسے اپنی بڑی بہن سے لکھوا کر بھیجا، اس خط کو بھی منتخب انعام یافتہ خطوط میں شامل کیا گیا۔ گو انعام تب بھی نہیں ملا۔ سرگزشت نوے کے عشرے کا بہت مقبول ڈائجسٹ تھا، جس میں شائع ہونے والی آپ بیتوں اور سلسلہ وار کہانی تاوان نے تہلکہ مچار کھا تھا۔ سرگزشت کے تیسرے یا چوتھے شمارے میں میرا ایک تفصیلی ، تنقیدی خط شائع ہوا جس میں ڈائجسٹ کے بعض انٹرویوز اور دیگر متن پر سوالات اٹھائے گئے ۔ سید انور فراز تب سرگزشت کے مدیر تھے، انہوں نے وہ تنقیدی خط شائع کرکے سینکڑوں میل دور رہنے والے گریجوایشن کے اس طالب علم کو نہال کر دیا۔ خیر اگلے سال کراچی میں قانون کی تعلیم کے دوران ہی میرا پہلا کالم روزنامہ جنگ میں شائع ہوا۔تب ان کے ادارتی صفحے پر چھپنا بڑی بات سمجھی جاتی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بھیگی صبح میں بس میں بیٹھ کر اخبار کے دفتر گیا ، ریسپشن پر اپنا کالم کا لفافہ جمع کرا کر واپس آ گیا۔ اگلے ہی روز وہ کالم ادارتی صفحے پر نامور کالم نگار ارشاد احمد حقانی کے کالم کے ساتھ اپرہاف پر شائع ہوگیا۔ اللہ شعبہ ادارت کے ذمہ داران کا بھلا کرے جنہوں نے ایک گمنام طالب علم کی تحریر پڑھ کر میرٹ پر شائع کر دی۔اگر ایسا نہ ہوتا توشائد صحافت کی وادی پرخار کا رخ ہی نہ کر پاتا، وکالت کے بھاڑمیں اپنے چنے بھون رہا ہوتا۔ سکول ، کالج کے زمانے میںکوئی رہنمائی کرنے والا نہیں تھا، مگر کتابوں سے تب بھی عشق کی حد تک لگائو تھا۔لکھنے کا شوق تھامگر کوئی پلیٹ فارم موجود تھا اور نہ ہی گائیڈ کرنے والا۔ اپنے طور پر جو سمجھ میں آتا، پڑھ ڈالتے۔جس موضوع پرکتاب ہاتھ لگتی، چاٹ جاتے۔ کرائے کے لائبریریوں سے ناول ، ڈائجسٹ ، رسالے پڑھا کرتے ۔اس کا ایک فائدہ بعد میںہوا کہ مطالعہ متنوع ہوگیا اور بیک وقت کئی موضوعات میں لکھنے کے لئے درکار بیک گرائونڈ نالج کسی نہ کسی حد تک وجود میں آنے لگا۔ میں خواہشات کی لمبی چوڑی فہرست بنانے کا عادی نہیں رہا، وش بکٹ لسٹ کے بارے میں تب آئیڈیا ہی نہیں تھا۔ماضی کے ان دنوں پر نظر ڈالوں تو دل کے نہاں خانوںمیں مچلتی ایک خواہش البتہ نظر آتی ہے۔ وہ کتابوں کے ساتھ زندگی گزارنے کا خواب تھا۔ لکھنے پڑھنے کو اپنا پیشہ بنانے کی تمنا تھی۔ قدرت مہربان تھی، حالات اور وقت کا دھارا اسی طرف لے گیا۔ اگر براہ راست کسی اخبار میں ملازمت مل جاتی تو شائد اگلی پوری زندگی کا پیٹرن ہی کچھ اور ہوتا۔ آغاز ایک ماہانہ جریدے سے ہوا ، جہاں ہر قسم کے مضامین، کہانیاں ، فیچر وغیرہ چھپتے اور جس ادارے کی اپنی اچھی خاصی بڑی لائبریری تھی۔زبان وادب کا جہاں بہت خیال رکھا جاتا اور ہر موضوع پر تحریر کو دلچسپ اور رواں بنانے کی تلقین کی جاتی۔ وہاں تین سال کام کے دوران بہت کچھ سیکھا۔ لفظوں سے آشنائی ہوئی اور جاناکہ قاری کوعام فہم انداز میں کس طرح مواد فراہم کرنا ہے۔ اس کے بعد روزنامہ اخبارات میں کام کرنے کا موقعہ ملا۔بائیس تیئس سال اسی میں گزر گئے ۔ جن میں کالم نگاری کا اٹھارہ سالہ عرصہ بھی شامل ہے۔ تیس سال پہلے جب میں احمدپورشرقیہ میں مقیم تھا ، روز عدالت جایا کرتا اور وکیل بننے کی عملی تربیت لے رہا تھا۔تب اگر کوئی مجھے یہ بتاتا کہ مجھے ملک کے بڑے قومی اخبارات میں سینکڑوں، ہزاروں کالم لکھنے کا موقعہ ملے گا، بڑے اشاعتی اداروں سے میری کتابیں شائع ہوں گی اور انہیں قارئین میں پزیرائی بھی ملے گی، تو شائد یقین نہ آتا۔ میں نے تب سوچا نہیں تھا کہ میری چار کتابیں شائع ہوجائیں گی۔ تعریف بے پناہ مہربان اور رحیم رب کی جس نے اس ناچیز کے یہ خواب پورے کئے ۔ اسی ہفتے میری چوتھی کتاب ’’خیال سرائے ‘‘شائع ہوئی ہے۔ میری پہلی کتاب’’ زنگار‘‘چھ سال قبل 2017میں شائع ہوئی، پھر دو سال بعد قاسم علی شاہ فائونڈیشن سے دوسری کتاب’’ زنگارنامہ‘‘ چھپی ۔ اس کتاب کے دو ماہ بعد ہی کورونا کے تلخ ایام آ گئے ۔ کورونا کے بعد میری پہلی کتاب زنگار کا نیا ایڈیشن بک کارنر جہلم نے شائع کیا۔ یہ بہت ہی خوبصورت آرٹ پیپر پر چھپا کیونکہ تب ڈالر مہنگا نہیں ہوا تھا اور کاغذ کی قیمت کنٹرول میں تھی۔2023 کے آغاز میں تیسری کتاب ’’وازوان ‘‘بک کارنر جہلم ہی نے چھاپی۔ اب سال کا آخری مہینہ چل رہا ہے کہ بک کارنر ہی نے چوتھی کتاب’’ خیال سرائے‘‘ چھاپ دی ہے ۔ تین سو صفحات کی یہ کتاب میری منتخب مطبوعہ اور غیر مطبوعہ تحریروں پر مشتمل ہے۔ ان چاروں کتابوں میں ایک بات کا خاص خیال رکھا کہ صرف مستقل اہمیت والی دلچسپ، مفید ، معلومات افزا اور سدابہار قسم کی تحریریں ہی شامل کیں۔ سیاست یا کرنٹ افیئرز پر مواد شامل نہیں کیا، اس لئے کہ ہر چند ماہ بعد بہت کچھ بدل جاتا ہے اور پھر کتاب ہی غیر متعلق اور غیر اہم ہوجاتی ہے۔ خیال سرائے کوجنوری 2024میں چھاپنے کا ارادہ تھا، مگر کراچی بک ایکسپو کی وجہ سے اسے جلد شائع کرنا پڑا۔ کراچی میں آج سے پانچ روزہ بک ایکسپو (کتاب میلہ)شروع ہورہا ہے۔ ایکسپوسنٹر کراچی میں چودہ سے اٹھارہ دسمبر تک صبح دس سے رات نو بجے تک کتابوں کی ایک رنگین، طلسماتی دنیا آبادرہے گی۔ کراچی بک ایکسپو کے بارے میں سنا ہے کہ یہ لاہور کتاب میلہ سے خاصا بڑا ہوتا ہے اور بہت زیادہ کتابیں فروخت ہوا کرتی ہیں۔کراچی بک ایکسپو ہی کے لئے بک کارنر کے گگن شاہد، امر شاہد نے میری کتاب خیال سرائے بڑے ہنگامی انداز میں بروقت چھاپ دی ، ایکسپو سنٹر میں یہ میری دیگر کتابوں کے ساتھ دستیاب ہوگی ۔ بک کارنر نے میری تینوں کتابوں کے لئے چالیس فیصد خصوصی ڈسکائونٹ آفر کررکھا ہے۔کاغذ بہت مہنگا ہوگیاہے، اس کے باوجود کتابوں کو کسی نہ کسی طرح کم قیمت پر ہی فروخت کرنا چاہیے تاکہ نوجوانوں کی رسائی میں رہے۔ کراچی بک ایکسپو میں کبھی شریک نہیں ہوا۔ اس بار البتہ جا رہا ہوں۔ ان شااللہ پندرہ ، سولہ، سترہ دسمبر کو بک ایکسپو میں ہوں گا۔ ارادہ ہے کہ کسی سے ملاقات یا وزٹ وغیرہ کے لئے صبح کا وقت استعمال کر کے شام کو چار پانچ سے آٹھ نو بجے تک کا وقت بک ایکسپو کو دوں گا۔ بہت سے دوستوں سے ملنا ہے جن سے تحریر کا رشتہ اور تعلق ہے۔ لاہور کے کتاب میلہ میں کراچی کے پبلشرز نہیں آتے تو وہاں چھپنے والی بہت سی کتابوں سے محروم رہ جاتے ہیں ۔ اس بار فیس بک پر تحقیق کر کے اپنی خریداری کے لئے طویل فہرست بنا رکھی ہے۔دیکھیں کس حد تک کامیابی ملتی ہے؟ فرانسیسی ادیب اور دانشور آسکر وائلڈنے لکھا ہے،’’چند غیر مہذب اقوام کو چھوڑ کر دنیا پر کتابوں ہی نے ہمیشہ حکومت کی ہے۔ ‘‘بات اپنی جگہ درست ہے ۔ممکن ہے ڈیجیٹل میڈیا یا سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے کتاب اور مطالعہ کے رجحان کو نقصان پہنچا ہو، اس کے باوجود آج بھی کتاب ہی آپ کی شخصیت کو تبدیل کرتی ہے۔ وہ لوگ دوسروں سے یقینا مختلف ہوتے ہیں جو کتابیں پڑھتے، انہیںخود میں جذب کرتے اور اندر کے انسان کو سنوارتے ہیں۔ ان خوش نصیب لوگوں میں آپ بھی شامل ہوجائیں جو کتابیں خریدتے اور پڑھتے ہیں۔ کتابوں سے تعلق جوڑیں۔ کتاب میلے اس کا بہترین موقعہ فراہم کرتے ہیں۔ اپنی نئی نسل کو کتابوں کی جادوئی دنیا میں لے جائیں۔ انہیں پسند کی کتابیں لے دیں اور اپنے لئے بھی کچھ نہ کچھ ضرور پسند کریں۔ سال ختم ہونے والا ہے، نئے سال کے لئے بہت لوگ نیو ائیر ریزولیوشن یعنی اگلے سال کا عہد بناتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ رواں سال کا اختتام کسی خواب یا وعدے پر نہیں بلکہ عملی قدم اٹھا کر کیا جائے۔