یہ بات باعث اطمینان ہے کہ جوہر ٹائون دھماکے میں ملوث مجرموں کو تقریباً چوبیس گھنٹے میں گرفتار کرلیا گیا ہے۔ اس کے لیے ہماری ایجنسیاں تحسین کی مستحق ہیں۔ اس واقعہ میں بھارت کی ایجنسی را کی فنڈنگ کے ثبوت بھی ملے ہیں جو باعث تشویش ہے۔ بعض مبصرین کے مطابق اس دھماکے میں اور بڑی طاقتیں بھی ملوث ہو سکتی ہیں۔ امریکہ کو فوجی اڈے دینے سے انکار کرنا اس قدر آسان نہیں ہے‘ اسی لیے بلاول بھٹو زرداری تو وزیراعظم کی بات پر یقین کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ امریکہ کی تابعداری کرنے والے سیاسی لیڈر یہ تصور ہی نہیں کرسکتے کہ پاکستان کا کوئی حکمران یہ جرأت کر سکے کہ امریکہ کے سامنے انکار کرے۔ پاکستان میں بیشتر سیاسی رہنما اقتدار کے حصول کے لیے امریکہ کی طرف دیکھتے ہیں۔ وکی لیکس نے تو بڑے بڑے پارسائی کے دعوے داروں کے راز بھی کھول دیئے تھے۔ حسین حقانی کی ریشہ دوانیوں کا قصہ بھی اتنا پرانا نہیں کہ لوگ بھول جائیں۔اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی کارروائی کے بعد جس سرعت سے آصف علی زرداری کا مضمون امریکی اخبار کی زینت بنا تھا کافی اندرونی کہانیاں بیان کرتا ہے۔ زرداری صاحب کے نامزد کردہ پاکستانی سفیر آج بھی امریکہ میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے حرف انکار کے بعد یہ نہایت ضروری ہے کہ یہ تمام safe guards لیے جائیں اور ہر طرح کے ردعمل کی توقع رکھی جائے۔ وزیراعظم کی ذاتی سکیورٹی بڑھانے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ سکیورٹی کے اداروں اور ایجنسیوں کی ذمہ داری بہت بڑھ گئی ہے۔ دشمن کے سلیپنگ سیلز کا پتہ چلانا اور ان کا قلع قمع کرنا نہایت ضروری ہے۔ دہشت گردی کی نئی لہر کو روکنے کے لیے ہمیں غیر معمولی اقدامات کرنے ہوں گے۔ بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر میں کافی زیادہ دبائو میں ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی سیاسی جماعتوں (اگرچہ بیشتر جماعتیں کٹھ پتلی ہیں) کو دعوت دینا ہی مودی حکومت کی پالیسی میں لچک کی نشان دہی کرتا ہے۔ اس وقت بھارتی حکومت پر سفارتی دبائو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اگر لاہور دھماکے میں بھارتی ایجنسی کی فنڈنگ کے ثبوت مل جائیں تو ہمیں ہر بین الاقوامی فورم پر بھارت کو بے نقاب کرنا چاہیے اور مودی حکومت کی اصل شکل دنیا کو دکھانی چاہیے۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ مسلمانوں کی تاریخ میر جعفر اور میر صادق جیسے کرداروں سے بھری پڑی ہے۔ اقتدار اور دولت ہمیشہ سے ہماری کمزوری رہی ہے۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں اور اہم اداروں کی ازسرنو سکریننگ کی ضرورت ہے اور کسی بھی شخصیت کے خلاف غیر ملکی ایجنسیوں سے تعلقات اور لین دین کے واضح ثبوت ملیں تو اسے کسی صورت نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ عزیر بلوچ جیسے مجرم اور غیر ملکی ایجنٹ جس طرح ایک ایک کر کے تمام کیسوں میں باعزت بری ہو جاتے ہیں ،پوری قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ ہماری حکومت اور عدلیہ کے عالی دماغوں کو سر جوڑ کے بیٹھنے کی ضرورت ہے کہ انصاف کو کس طرح بہتر کیا جائے کہ کوئی بھی مجرم پاکستان میں نظام عدل کو دھوکہ نہ دے سکے۔ عدلیہ کی آزادی بڑی اہمیت کی حامل ہے لیکن حکومت اور عدلیہ میں مجرموں کے خلاف ایک اشتراک عمل کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر ان مجرموں کے خلاف جو ملک دشمن قوتوں کی ایما پر پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے ہیں۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ عدلیہ کو سکیورٹی اور تمام اسباب مہیا کرے کہ ہماری عدلیہ مجرموں کے خلاف بلاخوف و خطر فیصلے دے سکے۔ عدلیہ کو صرف حکومت سے آزادی درکار نہیں ہے بلکہ مجرموں کے خوف سے بھی آزادی درکار ہے۔اگر عدلیہ کا ادارہ شفاف ہو گا تو ہمارے دوسرے اداروں کو قانون کے دائرے میں لانا آسان ہو جائے گا۔ ہماری عدلیہ کا دنیا کے 128 ممالک میں 120 ویں نمبر پر ہونا، ہمارے لیے باعث تشویش ہونا چاہیے۔ ہمارے چیف جسٹس صاحبان کو اس پر خصوصی توجہ دینی چاہیے اور جج صاحبان کی سلیکشن‘ تعلیم و تربیت اور کردار سازی کے لیے جو بھی اقدامات ممکن ہوں وہ اٹھانے چاہئیں۔ حکومت کو چیف جسٹس صاحبان کو بھرپور تعاون دینا چاہیے۔ عدلیہ نے 120 احتساب عدالتیں بنانے کا حکم دیا لیکن حکومت آج تک اس حکم پر عمل نہیں کرسکی حالانکہ اس حکومت کا نعرہ ہی احتساب تھا۔ احتساب کے عمل کو تیز اور یقینی بنانے کے لیے احتساب عدالتوں کی تعداد بڑھانا خود حکومت کے لیے اہم ہے لیکن افسوس کہ سرخ فیتہ اس میں حائل ہے اور حکومت بے بس لگتی ہے۔ بدقسمتی سے حکومت کوئی بھی ہائی پروفائل کیس نتیجہ خیز نہیں بنا سکی۔ پتہ نہیں حکومت کیوں سینکڑوں گواہوں کا نام دے دیتی ہے کہ حکومت کی مدت پوری ہو جائے لیکن گواہوں کی گواہی پوری نہ ہو سکے۔ نجانے حکومت کو کیوں سمجھ نہیں آتی کہ چند ٹھوس ثبوت اور گواہ ہی کیس کو منطقی انجام تک پہنچا سکتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مجرم دندناتے پھرتے ہیں اور میڈیا کے سامنے دعویٰ کرتے ہیں کہ حکومت ان کے جرم کو ثابت نہیں کرسکی۔ لیاری گینگ کے سرغنہ عزیر بلوچ کا اقبالی بیان اخباروں میں شائع ہوا ہے اور اسی نے بڑے بڑے لوگوں کے راز افشا کئے ہیں۔ عزیر بلوچ نے بتایا ہے کہ اس نے سرکاری محکموں سے کروڑوں روپے بھتہ وصول کیا ہے۔ محکمہ فشریز سے عزیر بلوچ کو ماہانہ 20 لاکھ روپے بھتہ ملتا تھا اور فریال تالپور ایک کروڑ روپے ماہانہ وصول کرتی تھیں۔ اس محکمے کے ڈائریکٹر سعید بلوچ اور نثار مورائی کی تعیناتی بھی عزیر بلوچ کی مرہون منت تھی۔ سینیٹر شہادت اعوان‘ ایس ایس پی فاروق اعوان اور سی سی پی او وسیم احمد اس کے خاص دوستوں میں شامل تھے۔ فاروق اعوان بھی لاکھوں روپے ماہانہ بھتہ وصول کرتے تھے۔ زمنیوں پر قبضہ کرنے میں بھی عزیر بلوچ نے ان پولیس افسروں کی معاونت کی۔ جب مجرموں اور پولیس میں ایسا گٹھ جوڑ ہوگا اور سیاستدان ان کے پشت پناہ ہوں گے تو عام آدمی کی آواز نقار خانے میں کون سنے گا۔ ایسے خطرناک مجرموں کا درجنوں کیسوں سے باعزت بری ہونا اب سمجھ میں آتا ہے۔ خدا کرے کہ ہماری حکومت عدلیہ اور مقتدر ادارے ایسے مجرموں کا نوٹس اور انہیں اپنے سہولت کاروں سمیت اپنے منطقی انجام تک پہنچائیں۔ ابھی تک تو یہاں سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد۔ ٭٭٭٭٭