اپنی اپنی انا کو بھلایا جا سکتا تھا شاید سارا شہر بچایا جا سکتا تھا دھوپ میں جلنے والو آئو بیٹھ کے سوچیں اس رستے میں پیڑ لگایا جا سکتا تھا کیا کریں ہمارا المیہ بھی یہی ہے کہ ’دکھ تو یہ ہے اس نے ہی لوٹا ہے ہم کو۔ جس کے لئے گھر بار لٹایا جا سکتا تھا ‘اور ایک مزے کی بات اور یہ کہ سارے سفر میں ہم نے رہبری ہی کی مانی۔ورنہ سیدھی راہ پہ آیا جا سکتا تھا۔ ہمیں رہبرہی ایسے ملے کہ خود گمراہ تھے جو ملک کو فرانس بناتے رہے یا ایشین ٹائیگر اور اس کوشش میں انہوں نے برطانیہ اور فرانس میں اپنے محل تو ضرور بنا لئے مگر اس قوم کو کچھ نہیں دیا اور اسے اساسی اور اہم ضرورت تعلیم کو پس پشت ڈال دیا۔ کسی بھی قوم کے لئے تعلیم اور صحت سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ اب اپنے موضوع پر آتا ہوں کہ مجھے ملک کی سب سے بڑی فلاحی تنظیم الخدمت کے ایک شاندار پروگرام کے لئے جناب شعیب ہاشمی نے مدعو کیا۔ میرے لئے یہ کوئی پہلا موقع نہیں تھا کہ میں اس بے مثال تنظیم کے کام سے متاثر ہونے جا رہا تھا میری اس تنظیم سے غیر مشروط محبت ہے کہ خدمت خدا کے قریب کرتی ہے۔ میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا۔ اصل میں الخدمت فائونڈیشن اپنے باہمت یتامیٰ بچوں کے لئے اعزاز رکھتی ہے یہ ان یتیم بچوں کے اعزازات و انعامات تھے جنہوں نے 80 فیصدی سے 90 فیصدی تک نمبر لئے تھے یعنی میٹرک امتحانات میں۔ آپ جانتے ہیں کہ الخدمت یتیم بچوں کی کفالت میں ہمیشہ پیش پیش رہی ہے یہ پروگرام وسطی پنجاب کے لئے تھا۔ یعنی الخدمت کا پھیلائو تو ہر جگہ ہے۔ وہی بقول امجد اسلام امجد یہ سب محبت کا پھیلائو تھا۔ امجد مرحوم بھی بہت یاد آئے کہ وہ بھی الخدمت کی فنڈ ریزنگ میں بہت متحرک تھے ۔ایسے ہی جیسے ہمارے منو بھائی سندس فائونڈیشن کے لئے ادیبوں اور شاعروں کا یہ عملی پہلو مجھے بہت بھاتا ہے۔ وہاں آئے زاہد فخری نے بھی یہی کہا کہ ہم الخدمت کے ادنیٰ کارکن ہیں وہاں اس نے شعر بھی پڑھا تھا: دھوپ میں ہوئی بارش اور میں نے یہ جانا ہنستے ہنستے رونے میں دیر کتنی لگتی ہے بچوں کو انعامات تو دیے گئے مگر وہاں تعلیم کے حوالے سے بہت مفید باتیں بھی ہوئیں طلبا و طالبات کے لئے یہ بھی تو کیا کم تھا کہ سجاد میر جیسے لوگوں کے ہاتوں سے انعام پائیں۔ سلمان غنی بھی تھے ۔ پھر الخدمت فائونڈیشن کے صدر ڈاکٹر حفیظ الرحمن پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر خالد محمود اور جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل امیر العظیم صاحب بھی تشریف فرما تھے ۔ ان کی بامقصد تحریکی تقریر سب بچوں کے لئے ایک انگیخت لگانے کے مترادف تھی ۔ ڈاکٹر خالد محمود صاحب کی باتوں نے مجھے بہت متاثر کیا کہ وہ اس تنظیم کے ساتھ منسلک بھی ہیں اور تعلیم کے حوالے سے کئی کارہائے نمایاں سرانجام دے چکے ہیں مہاتیر جبپاکستان آئے تھے تو انہوں نے کہا تھاکہ دو کاموں پر فوکس کریں وہ ہیں تعلیم اور صحت۔ باقی سب کام عوام خود کریں گے۔اس کے بعد انہوں نے یہ دونوں کام کر کے بھی دکھائے اور وہ ملائشیا کو ترقی کی معراج تک لے گئے۔ انہوں نے اس حوالے سے ایک یوتھ پروگرام کا تذکرہ کیا اور بتایا کہ اس کے صدر نے لمبی چوڑی تقریر نہیں کی بلکہ سٹیج پر آ کر صرف اتنا کہا تھا کہ یعنی آپ نوجوانوں پر اعتماد کریں اور نوجوان آپ کو حیران کریں گے۔ ہائے ہائے میں نے سوچا تو دل تھام کر بیٹھ گیا کہ ہمارے ہاں تعلیم اور صحت کو تو جیسے پامال کر دیا گیا ہم نے یوتھ کے ساتھ کیا کیا۔ ان کا نعرہ لگایا اور انھیں بے روزگار کر دیا۔ سرکاری ہسپتالوں اور سرکاری سکولوں کا حال ناگفتہ بہ ہے یہ بھی ڈاکٹر خالد محمود نے بتایا کہ یہاں دو تین فیصد تعلیم پر خرچ ہوتا ہے پھر اس کی تفصیل بتائی کہ اس میں سے بھی استعمال کتنا ہوتا ہے اور چوری کتنا ہوتا ہے۔باقی تو ایک فیصد بھی نہیں بچتا ہوں۔ کیسی افسوناک صورتحال ہے ہمیں تو یہ پتہ ہے کہ لوٹنا کیسے ہے ۔اداروں کو اپنے بندے لگا کر قبضہ کیسے کرنا ہے ۔ بہرحال میرا یہ موضوع ہی نہیں : اپنا تو اصل زر سے بھی نقصان بڑھ گیا سچ مچ کا عشق مر گیا اک دل لگی کے ساتھ بس دیکھنے کی بات تو یہ ہے کہ الخدمت فائونڈیشن ہمارے ملک کے لئے نعمت سے کم نہیں سجاد میر صاحب نے بتایا کہ وہ تو اس وقت بھی نعمت اللہ صاحب لوگوں کے ساتھ تھے جب یہ تنظیم بن رہی تھی اور انہوں نے سلوگن دیا تھا کہ عبادت کی قضا ہے خدمت کی نہیں۔سجاد میر صاحب نے اسے دین کی سب سے بڑی فلاحی تنظیم قرار دیا اور واقعتاً ایسے ہی ہے۔ میں ان کے مرکز میں بھی کئی بار گیا اور ان کا کام دیکھ کر ششدر رہ گیا اس تقریب میں کئی شخصیات تھیں ہماری بہن ڈاکٹر سمیعہ راحیل قاضی اور ان کے ساتھ کئی مائیں اور بچے شریک تھے۔ پنجاب کے امیر جاوید احمد قصوری وسطی پنجاب کے صدر اکرام الحق سبحانی لاہور کے صدر انجینئر احمد حماد رشید اور ڈاکٹر حسین پراچہ شامل تھے۔منتظمین میں شعیب ہاشمی کے ساتھ احمد نبیل تھے پتہ چلا کہ اس وقت ستائیس ہزار بچے الخدمت کے زیر کفالت ہیں اور میرا خیال ہے کہ شاید یہ صرف وسطی پنجاب کا تذکرہ کیا گیا ایسے دور میں یہ لوگ بے حد تحسین کے قابل ہیں کہ اپنا وقت اور اپنا پیسہ خلق خدا کی بہتری کے لئے لگا رہے اور خاص طور پر یتیم بچوں کے سر پر ہاتھ رکھ کر انہیں زندگی سے ہمکنار کرتے ہیں۔ دوسری طرف حاکموں کو دیکھیں منی لانڈرنگ اور کیا کیا کچھ گھروں سے سے اربوں روپے پکڑے جاتے ہیں ایک شعر کے ساتھ اجازت: کہنے کو اک الف تھا مگر اب کھلا کہ وہ پہلا مکالمہ تھا مرا زندگی کے ساتھ