25 جو لائی کو ووٹنگ کے ذریعے شروع ہونے والا انتقال اقتدار کا عمل مکمل ہو چکا۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان وزیراعظم کا حلف اٹھاچکے ہیں اور پنجاب میں جس کے بارے میں کافی سسپنس تھا بالآخر تحریک انصاف کے عثمان بزدار وزیراعلیٰ بن گئے عثمان بزدارکی اچانک نامزدگی پر تحریک انصاف کے ارکان بھی حیران و ششدر رہ گئے۔ سند ھ میں پیپلزپارٹی کے مراد علی شاہ، خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کے محمود خان اور بلوچستان میںبلوچستان عوامی پارٹی کے جام کمال وزارت اعلیٰ کے منصب سنبھال چکے ہیں۔ ویسے تو انتخابات کے بعد جیتنے والی جماعت کو اقتدار کی منتقلی معمول کی کارروائی ہوتی ہے لیکن اس مرتبہ نئی جماعت کو مرکز اور پنجاب میں اقتدار ملا ہے۔ عمران خان کی محنت شاقہ اور بائیس سالہ جدوجہد بالآخر رنگ لائی، وفاق اور پنجاب میں برسراقتدار جماعت مسلم لیگ (ن) کی کئی دہائی پرانی اجارہ داری ختم ہو گئی۔ مسلم لیگ (ن) کا بیا نیہ ہے کہ انھیں اسٹیبلشمنٹ کی ’پری انجینئرنگ‘ اور دھاندلی کے ذریعے فارغ کیا گیا۔ قومی اسمبلی میں حلف اٹھانے کے بعد پارٹی کے صدر شہباز شریف کی زیر صدارت پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں ارکان نے یہ آواز بھی اٹھائی کہ ہمیں دھاندلی کے علاوہ اپنی کوتاہیوں پر بھی غور کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی شکست کی وجوہات جاننے کے لیے پوسٹ مارٹم کرنا چاہیے۔ یہ درست ہے کہ ’پاناما لیکس‘ کے معاملے کو عمران خان نے اپنے حق میں خوب استعمال کیا۔ اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ نوازشریف کے بطور وزیراعظم فوجی قیادت کے ساتھ تعلقات کشیدہ سے کشیدہ تر ہوتے چلے گئے اور نواز شریف ادراک نہیں کر سکے کہ زمین آہستہ آہستہ ان کے پاؤں تلے سے سرکتی جا رہی ہے۔ شاید وہ یہ سمجھنے سے بھی قاصر رہے کہ محض بجلی کی فراہمی، میٹروبسوں، اورنج ٹرین اور سی پیک کی وجہ سے ہی عوام ان کو جوق در جوق ووٹ نہیں دیتے رہیں گے۔ دراصل برصغیر میں انتخابات جیتنے کا کوئی واضح فارمولہ نہیں ہے جہاں عوام حکومتوں کی کارکردگی، سیاسی وابستگیوں، ذات پات یا خاندانی تعلقات کی بنا پر ووٹنگ کرتے ہیں لیکن ہمارے عوام ایک ہی چہرہ دیکھ دیکھ کر اور ان کی گھسی پٹی باتیں سن سن کر کچھ اکتا سے جاتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف، ان سے پہلے جنرل ضیاء الحق اور جنرل ایوب خان جیسے آمروں کی بھی قریباً دس دس برس اقتدار میں رہنے کے بعد چھٹی ہو گئی۔ میاںبرادران اپنے انداز حکمرانی کی وجہ سے بھی عوام سے کٹ کر رہ گئے۔ ان کا رابطہ محض اپنے مخصوص دائرے تک محدود ہو کر رہ گیا جن میں کچھ خاندان کے افراد، قریبی رشتہ دار اور چند قریبی ساتھی شامل تھے۔ اگر اسی پیمانے پر پیپلزپارٹی کو جانچا جائے تو وہ سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی تھی لیکن حالیہ انتخابات میں اس کی سیاسی کارکردگی اتنی بھی بری نہیں تھی، حالانکہ گورننس کے معاملے میں پیپلزپارٹی کا ریکارڈ کوئی اتنا درخشاں نہیں رہا۔ غالباً پیپلز پارٹی کے ووٹروں کی تجدید نوجوان بلاول بھٹو کی آمد سے ہوئی۔ پیپلزپارٹی کو بھی اپنی بعض کلیدی سیٹوں پر شکست ہوئی یا اس کا جیتنے کا مارجن کم ہو گیا، پارٹی کی قیادت کو نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہئے کہ سندھ میں بھی تبدیلی آ رہی ہے۔ وہاں پی ٹی آئی کے دوسری بڑی جماعت کے طور پر ابھرنا اس کیلئے نیا چیلنج ہے۔ بہرحال اب بال عمران خان کے کورٹ میں ہے کہ وہ کہاں تک ڈیلیور کرتے ہیں۔ ان کا ہاتھ عوام کی نبض پر تھا، حالیہ برسوں میں پیدا ہونے والی انٹرنیٹ، سوشل میڈیا کی عادی نوجوان نسل مزید برآں میڈیا پر کھلم کھلا ڈیبیٹ کے ذریعے ووٹروں کی صف میں شامل ہونے والا نیا طبقہ تبدیلی چاہتا ہے۔ اگر یہ تبد یلی نہ آئی تو یقینا مایوسی پیدا ہو گی۔ عمران خان کو اپنی ٹیم کا انتخاب انتہائی احتیاط سے کر رہے ہیں کیونکہ وہی ان کے ایجنڈے کو آگے بڑھائے گی۔ ان کے لیے سب سے بڑا امتحان ٹیم کا انتخاب ہی ہے کیونکہ تحریک انصاف کو انتخابات جیتنے اور بعدازاں حکومت سازی کے لیے بہت سے سمجھوتے کرنا پڑے ہیں اور یہ سب لوگ تحریک انصاف کے ایجنڈے کے حامی نہیں رہے۔ بالخصوص وہ آزاد ارکان جو بعد میں شامل ہوئے یا ایسی سیاسی جماعتیں جن کو بعد میں تحریک انصاف کی نمبر گیم پوری کرنے کے لیے شامل کیا گیا۔ بہرحال انہی منتخب ارکان قومی اسمبلی سے ہی انھیں اپنی ٹیم کا انتخاب کرنا ہے۔ پنجاب میں چودھری پرویزالٰہی کو سپیکر منتخب کروا کر عمران خان نے سیا سی طور پر اچھا سٹروک کھیلا ہے کیونکہ پرویزالٰہی پہلے بھی دو مرتبہ سپیکر اور ایک باروزیراعلیٰ رہ چکے ہیں۔ وہ صوبہ پنجاب کے رموز سے شاید شہبا ز شریف سے بھی زیادہ واقف ہیں۔ پنجاب میں سپیکر کے انتخاب میں خفیہ رائے شماری میں نواز لیگ کے پندرہ ارکان کا چودھری پرویز الہٰی کو ووٹ دے دینا پنجاب پر شریفوں کی گرفت کمزور پڑنے کی غمازی کرتا ہے، یہ امر ان کیلئے ایک لمحہ فکریہ ہونا چاہئے۔ بہرحال پنجاب میں بھی جوڑتوڑ کی سیاست کے علاوہ ترقیاتی منصوبوں سے زیادہ تعلیم، صحت اور صاف پانی کے منصوبوں کو آگے بڑھانا ہو گا۔ پاکستان میں گورننس کا برا حال ہے۔ رہی سہی کسر شریف برادران نے پوری کردی۔ پولیس، انتظامیہ اور بیوروکریسی کا آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے، جسے ایک دن میں ٹھیک کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت اداروں کی خود مختاری کو بحال کرتی ہے یا نہیں؟۔ گزشتہ دہائی میں تو ان اداروں کو سیاستدانوں کا تابع مہمل بنا کر رکھ دیا گیا تھا۔ ملک کی دگرگوں سیاسی اقتصادی صورتحال کا میڈیا میں بہت ذکر ہورہا ہے اور خود متوقع وزیر خزانہ اسد عمر تسلیم کر چکے ہیںکہ ملک دیوالیہ ہے اور امکان غالب ہے کہ ہمیں آئی ایم ایف سے مدد لینی پڑے۔ یقینا مالیاتی ایمرجنسی جیسی صورتحال ہے، اس غیر معمولی صورتحال سے نبٹنے کے لیے غیرمعمولی اقدامات کرنا پڑیں گے۔ ادھر ادھر سے قرضے لے کر شایدگاڑی تو چلتی رہے لیکن معیشت کو ٹھوس بنیادوں پر استوار کرنے کے لئے کچھ بنیادی فیصلے کرنا ہونگے۔ ٹیکس کا نظام، بجلی کی ترسیل کا نظام، سبسیڈیز کا استعمال اور پرائیویٹائزیشن جیسے معاملات بہت اہم ہیں۔ علاوہ ازیں فوجی قیادت کے ساتھ ہم آہنگی کے ذریعے وطن عزیز سے دہشت گردی کو ختم کر نے کے لیے بھی بنیادی فیصلے کرنا پڑیں گے۔ خارجہ پالیسی کے محاذ پر بھی سابق حکومت کے دورمیں پاکستان تنہائی کا شکار تھا، امریکہ تو کجا ہمسایوں سے کٹ کر رہ گیا تھا۔ میاں نواز شریف کے دور میں اور اس سے پہلے بھی آہستہ آہستہ دفتر خارجہ کی کارکردگی روبہ زوال رہی ہے۔ دنیا کے اہم دارالحکومتوں میں میرٹ کے بجائے سیاسی وابستگیوں کی بنا پر سفیر، سفارتی وکمرشل افسروں کو تعینات کیا جاتا رہا۔ لہٰذا باقاعدہ وزیر خارجہ کے علاوہ دفتر خارجہ میں بھی میرٹ کے اصول پر دوبارہ فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔