وفاقی دارالحکومت میں الخدمت الفلاح سکالر شپ کی سلور جوبلی کی تقریب جاری تھی جس میں میاں عبد الشکور الخدمت الفلاح سکالر شپ بارے کچھ ایسی باتیں بتا رہے تھے کہ دل ان پر یقین کرنے کیلئے تیار نہ تھا بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک سابق ائیر مارشل اپنی بائیسکل پر ایک یتیم بچے کو ہر روز باقاعدگی کے ساتھ ٹیویشن پڑھانے جاتا ہو اور اس کی اس کے اہل خانہ کو بھی خبر نہ ہو ،مسلح افواج کے کمیشنڈ آفیسر کا ذکر آتے ہی ایک منظم اور پروٹوکول والی زندگی کا ''مانسیپٹ'' ذہن میں ابھرتا ہے اور یہ تذکرہ کسی کمیشنڈ آفیسر کا نہیں ہو رہا تھا بلکہ فضائیہ کے سابق سربراہ کی بات ہو رہی تھی میاں عبد الشکور کی باتیں کسی قسم کے تصنع اور بناوٹ سے بالکل پاک تھیں کیونکہ ان کے سامعین میں ان کا کوئی ڈونر تھا اور نہ ہی کوئی حکومتی نمائندہ بلکہ ان کے سامعین میں الخدمت الفلاح سکالر شپ کے وہ شائنگ سٹار تھے جو عملی زندگی میں کامیابی کے ساتھ قدم رکھ چکے ہیں یا وہ تھے جنہیں ابھی عملی زندگی میں قدم رکھنے کیلئے کچھ منازل طے کرنا ہیں اور ان کا تعلیمی سفر الخدمت الفلاح سکالر شپ کے ذریعہ رواں دواں ہے میاں عبد الشکور پیرانہ سالی کے باوجود جواں جذبوں کے امیں ہیں 70کی دہائی میں پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے صدر منتخب ہوئے ان کا شمارنابغہ روزگار شخصیت کنور سعید اللہ جان کے ہونہار شاگردوں میں ہوتا ہے کنور سعید اللہ جان مرحوم گورنمنٹ ملت ہائی سکول چنن تحصیل کھاریاں ضلع گجرات میں طویل عرصہ تک صدر مدرس رہے، کمال کے بے نیاز اور قناعت پسند انسان تھے۔ موضع چنن میاں عبدالشکور کا آبائی علاقہ ہے جہاں کنور سعید اللہ جان نے بے لوث خدمات سرانجام دیں لیکن وہاں اپنا ایک مکان تک تعمیر نہ کیا اور نہ ہی کوئی اور جائیداد بنائی وہ اسلاف کی عملی اور جیتی جاگتی تصویر تھے۔علاقے کے اکابرین ، جوان ، بزرگ ، خواتین اور بچے سب ان کا دل سے احترام کیا کرتے تھے علم باٹنا گویا ان کی گھٹی میں پڑا تھا ان کی تدریس صرف درسگاہ تک محدود نہیں ہوا کرتی تھی بلکہ وہ ہر وقت ہر جگہ مدرس کے فرائض سر انجام دے رہے ہوتے تھے میاں عبد الشکور کنور سعید اللہ جان ایسے اساتذہ سے فیض یاب ہوئے جس نے یہ سکھایا کہ تعلیم و تدریس ایک تجارت نہیں بلکہ ایک عبادت ہے، علم کے چراغ روشن کرنا کسی پر احسان نہیں بلکہ ہماری قومی ذمہ داری ہے۔ میاں صاحب یورپ اور امریکہ میں طویل عرصہ گزارنے کے بعد اپنی مٹی کا قرض چکانے میں مصروف ہیں، وطن واپسی پر اپنے گائوں میں وزڈم انسٹی ٹیوٹ فار گرلز کی بنیاد رکھی جو آج ملک کا ایک مثالی ادارہ بن چکا ہے متعدد قومی و عالمی شخصیات اس ادارے کی خدمات کا اعتراف کر چکی ہیں دراصل الفلاح سکالر شپ کا آغاز بھی اس ادارہ سے ہی ہوا جس کا نیٹ ورک بعد میں پورے ملک میں پھیل گیا ۔ تقریب میںاپنی زندگی کا اہم واقعہ سناتے ہوئے میاں عبد الشکور نے سب کو حیران کردیا۔ ان کی گفتگو میں سادگی کی جھلک نمایاں تھی وہ الفاظ کی مالا پرونے کی بجائے حقائق بیان کر رہے تھے انھوں نے بتایا کہ میں ایک روز کچھ نیکیاں سمیٹنے کیلئے گھر سے نکلا ا س روز مجھے ایک سابق ائیرمارشل سے ملاقات کرنا تھی میرے ذہن میں فضائیہ کے سابق سربراہ کی شخصیت کا مکمل نقشہ تھا وقت مقررہ پر ان کے گھر پہنچا ،ہماری ملاقات کا وقت پہلے سے طے تھا، اہل خانہ نے میرابڑے ہی پر تبا ک طریقہ سے استقبال کیا اور مجھے گھر کے لان میں بیٹھا دیا گیا مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ ائیر مارشل صاحب گھر پر موجود نہیں ہیں حالانکہ بڑے لوگ ہمیشہ وقت کا بڑا خیال رکھتے ہیں۔انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں ائیرمارشل صاحب تھوڑی دیر میں اپنے گھر کے مین دروازہ سے اپنی بائیسکل پر نمودار ہوئے اپنی تاخیر سے آنے پر معذرت کی میں نے استفسار کیا ائیر مارشل صاحب آخر کہاں آپ اور کہاں بائیسکل ، یہ ماجرا کیا ہے ؟ میرے چہرے کے تاثرات دیکھ کر انھوں نے مجھے حقیقت بتا ہی دی انھوں نے کہا کہ میں یہ راز افشاں نہیں کرنا چاہتا تھا چونکہ آپ مہمان ہیں کہیں آپ کچھ اور نہ سمجھیں دراصل میں قریب ہی ایک آبادی میں ایک یتیم بچے کے گھر میں ٹیویشن پڑھانے جاتا ہوں ۔میرے گھر میں کسی کو معلوم نہیں کہ بائیسکل پر کہاں جاتا ہوں میں نے جو وقت آپ کو دیا تھا میں اس وقت تک گھر واپس لوٹ آتا ہوں لیکن آج میرے ہونہار طالب علم نے مجھے بتا یا کہ اس کا کل ایک ٹیسٹ ہے جس کی اسے تیاری بھی کرنا ہے بس اس اضافی اسائنمنٹ کی وجہ سے تاخیر ہوئی میں دراصل اسے ٹیسٹ کی تیاری کرا رہا تھا میاں عبد الشکور نے بتایا کہ علم کسی کی جاگیر نہیں بعض لوگ ائیرمارشل فاروق حبیب کی طرح تعمیر انسانیت کا کام بڑی خاموشی سے اور خالصتا اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کیلئے سرانجام دے رہے ہیں، انھوں نے بتایا کہ سابق آئی جی پنجاب پولیس سردار خان کے والد مالی تھے بچپن میں سردار خان اپنے والد کے ہمراہ اس نیک سیرت انسان کے گھر گئے جس نے سردار خان کو دیکھتے اس جوہر قابل کو پہچان لیا اور فوری اسے سکول داخل کرانے اور اس کے تمام تعلیمی اخراجات اٹھانے کا ذمہ لے لیا سردار خان کے تعلیمی اخراجات اٹھانے والے خاموش مجاہد نے اس شرط پر سردار خان کے تعلیمی اخراجات اٹھانے کا ذمہ لیا تھا کہ وہ کسی جگہ بھی اس کا نام نہیں لیں گے کیونکہ وہ یہ کام صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کیلئے کر ر ہے ہیں ۔سردار خان نے پولیس کی ملازمت سے فراغت کے بعد ایک تعلیمی ٹرسٹ بنایا جس کے ذریعہ آج وہ علم کی شمعیں روشن کرنے میں مصروف ہیں ، تقریب کے اختتام پر شرکاء کا عمومی تعارف کرایا گیا معلوم ہو ا کہ الخدمت الفلاح سکالر شپ سے ہر علاقہ کے ذہین طلباء بغیر کسی رنگ و نسل اور مذہب کی تمیز کے مستفید ہو رہے ہیں اور ہر شعبہ زندگی میں کامیابی کے جھنڈے لہرا رہے ہیں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ الخدمت الفلاح سکالر شپ میں وسعت دے اور کامیابی اور کامرانی سے نوازے (امین) کیونکہ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی ۔