تیل بڑی مقدار میں برآمد کرنے والے تین ممالک رُوس‘ ایران اور وینزویلا امریکی پابندیوں کا شکار ہیں،جس کے باعث دنیا میں اسکی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ پاکستان ایسے پیٹرولیم مصنوعات درآمد کرنے والے ممالک بہت مشکل صورتحال کا شکار ہیں۔ ان ملکوں میں نہ صرف مہنگائی بڑھ رہی ہے بلکہ یہ زرمبادلہ کی قلت کا شکار ہیں ۔ ان کے کرنٹ اکاونٹ خسارہ میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جسے پورا کرنے کو انہیں مزید بیرونی قرضے لینا پڑیں گے۔یہ ایسا منحوس چکر ہے جسکا فائدہ تیل کی ملٹی نیشنل کمپنیاں اورعالمی سود خور بینک اٹھاتے ہیں۔ غریب ملک پستے جاتے ہیں۔ پہلے کورونا وبا اور اب یوکرائن پر روس کی فوج کشی کے باعث عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں تیزی سے بڑھ گئی ہیں۔ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت نوّے ڈالر سے ایک سو پانچ ڈالر فی بیرل کے درمیان اُوپر نیچے ہورہی ہے ۔ یوکرائن کا بحران طویل ہوگیا اور روس پر امریکہ اور اسکے اتحادی ممالک کی پابندیاں برقرار رہیں تو خدشہ ہے کہ خام تیل کی قیمت ایک سو بیس ڈالر فی بیرل تک جاپہنچے گی۔ پاکستان میں لوگ پہلے ہی پیٹرول‘ ڈیزل مہنگا ہونے کی وجہ سے پریشان ہیں۔ حکومت نے ان مصنوعات پر سیلز ٹیکس ختم کردیا ہے تاکہ ان کی قیمتیں زیادہ نہ بڑھیں لیکن بین الاقوامی منڈی میں اتنی تیزی ہے کہ پیٹرول کی گرانی رُکنے کا نام نہیں لے رہی۔پیٹرول قدرے سستا ہوسکتا ہے اگر ا مریکہ کاایران کے ایٹمی پروگرام کے معاملہ پرتہران کے ساتھ کوئی سمجھوتہ ہوجائے۔ ایران پر سے پابندیاں ختم ہوجائیں۔ دنیا میں پیٹرولیم مصنوعات بیچنے والا ایک تیسرا بڑا ملک لاطینی امریکہ میں واقع وینزویلا ہے ۔ اس پر بھی واشنگٹن نے معاشی پابندیاں لگا رکھی ہیں تاکہ اسے اپنے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جائے۔ جدید تہذیب و تمدن کی بنیاد فوسل ایندھن پر ہے۔ ٹرانسپور ٹ کا نظام‘بجلی کی پیداوار پیٹرولیم کی دستیابی پر منحصر ہیں۔ متعدد صنعتوں، جیسے پلاسٹک ،کا خام مال پیٹرولیم ہے، اس کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو اسی تناسب سے قدرتی گیس اور کوئلہ کے نرخ اُوپر چلے جاتے ہیں۔ کوئلہ ‘ گیس اور فرنس آئل سے بننے والی بجلی کا ریٹ زیادہ ہوجاتا ہے۔ ہمارے ہاں ہر ماہ فیول ایڈجسٹ منٹ چارجز کی مد میں بجلی کے نرخ مقرر کیے جاتے ہیں ۔یہ اضافہ پیٹرولیم اور گیس کی بدلتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے کیا جاتا ہے۔ جُوںجُوں پیٹرول‘ ڈیزل مہنگا ہوگا ‘ بجلی کے نرخ اُوپر جائیں گے۔ لوگ تو پہلے ہی سخت پریشان ہیں۔ مزید چیخیں چلائیں گے۔ ہمارے ملک میں ظلم یہ ہوا ہے کہ گزشتہ تیس پینتیس برسوں میں زیادہ تر فوسل ایندھن کی مدد سے بجلی بنانے کے کارخانے لگائے گئے۔ پانی سے سستی بجلی بنانے کا کام بہت کم کیا گیا۔ جنرل ضیاء الحق کے گیارہ سالہ دور میںبجلی کے نظام میں ایک اضافی یونٹ بھی شامل نہیں کیا گیا۔ بے نظیر بھٹو کے دور میں غازی بروتھا تھرمل اسٹیشن لگا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں منگلا ڈیم کی اونچائی بڑھا کرکچھ اضافی پن بجلی بنائی گئی۔نیلم جہلم پراجیکٹ شروع کیا گیا۔ لیکن زیادہ تر بجلی مہنگے ترین تھرمل پاور اسٹیشنوں سے حاصل کی گئی۔ موجودہ حکومت نے بھاشا‘ داسو ‘ مہمند وغیرہ ایسے مختلف ڈیمز پر کام شروع کیا ہے لیکن انہیں مکمل ہونے میں تین سال سے آٹھ برس لگیں گے۔اگلے سات‘ آٹھ سال تک قوم کو مہنگی بجلی سے سمجھوتہ کرنا پڑے گا۔ اگر پچیس تیس سال پہلے پن بجلی کے لیے ڈیم بنانے کا کام شروع کردیا جاتا تو ہم آج اتنی مصیبت کا شکار نہ ہوتے۔بڑا ڈیم یا پن بجلی کا منصوبہ مکمل ہونے میں سات آٹھ برس لگتے ہیں۔ سیاسی حکومتوں کی مجبوری ہوتی ہے کہ ایساکام کیا جائے جو دو تین سال میں مکمل ہوجائے تاکہ اسے دکھا کر عوام سے ووٹ لیے جاسکیں۔ پاکستان ایسے ترقی پذیرملک کیلیے یہ حکمت عملی تباہ کن ہے۔ اس پالیسی پر عمل جاری رکھا جائے تو قومی مفاد کے کام کرناممکن نہیں۔ وزیراعظم عمران خان کو کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے وقتی فائدہ کو مدنظر نہیں رکھا اور قومی اہمیت کے متعددپن بجلی کے منصوبوں پر کام شروع کیا اور ان کی رفتار تیز کی۔ تیل اور گیس پر ہم ایک سال میں تقریبا ًاٹھارہ ارب ڈالر سے زیادہ خرچ کررہے ہیں۔ اتنا زرمبادلہ ہمارے پاس نہیں ہے۔ بیرونی ممالک اور عالمی بینکوں سے سود پر اُدھار لینا پڑتا ہے۔ ہر حکومت گزشتہ حکومت کو الزام دیتی ہے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ تمام حکومتیں بیرونی قرض لینے پر مجبور ہیں ورنہ پیٹرولیم اور قدرتی گیس کی فراہمی ممکن نہیں ہوگی۔ دنیا نے شمسی توانائی میں ترقی کرکے تیل اور گیس پر انحصار کم کیا ہے۔جرمنی‘ انڈیا اور چین نے شمسی توانائی کے میدان میں تیزی سے ترقی کی ہے۔ پاکستان نے اس شعبہ میں کام شروع کیا ہے لیکن چیونٹی کی رفتار سے۔ پاکستان کے چھبیس فیصد علاقے ایسے ہیں جہاں بجلی سرے سے دستیاب نہیں۔ زیادہ تر بلوچستان کے دُور دراز علاقے تاریکی میں ڈوبے ہوئے ہیں کیونکہ وہاںنیشنل گرڈ سے بجلی فراہم کرنا بہت مہنگا سودا ہے۔بلوچستان‘ سندھ اور جنوبی پنجاب ریگستانی علاقے ہیں جہاں سارا سال سورج چمکتا ہے۔ یہاں پر شمسی توانائی کے چھوٹے چھوٹے علاقائی گرڈ بنا کر ان علاقوں کو روشن کیا جاسکتا ہے۔ سندھ حکومت ایسے ایک منصوبہ پر عالمی بینک کے تعاون سے کام کررہی ہے۔اس منصوبہ کے تحت دس اضلاع میں سولر سسٹم رعایتی نرخوں پر فراہم کیے جارہے ہیں۔ اس منصوبہ سے حاصل ہونے والے نتائج کو سامنے رکھ کر اسے پورے پاکستان میں وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ مہنگی بجلی سے نجات حاصل کرنے اور تیل و گیس پر خرچ ہونے والے زرمبادلہ سے جان چھڑوانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم وقتی مشکل برداشت کرلیں ۔پن بجلی اور شمسی توانائی میں بھاری سرمایہ کاری کریں۔اسی طرح ٹرانسپورٹ کے شعبہ میں ریل کے نظام کو ترقی دیںکیونکہ یہ روڈ ٹرانسپورٹ کی نسبت تین گنا کم ایندھن استعمال کرتا ہے۔پیٹرول سے چلنے والی گاڑیوں کی جگہ برقی گاڑیوں کو فروغ دیں ۔ پیٹرول کی بھی بچت ہوگی اور ماحول بھی صاف ستھرا ہوگا۔ہماری صحت کے لیے لازمی ہوگیا ہے کہ فوسل ایندھن کا استعمال کم سے کم کیا جائے۔تیل کے استعمال نے ہمارا تیل نکال دیا ہے۔