سال 1993ء سے اب تک طویل المدت معاہدات کے تحت 90 نجی پاورپلانٹس لگائے جا چکے ہیں۔ نوے سیٹھوں کو پاکستان اب تک 8000ارب روپے ادا کر چکا ہے۔ ان آٹھ ہزار ارب روپوں میں خریدی جانے والی بجلی کی قیمت صرف تیس فیصد ہے۔ باقی ادائیگی کارخانوں کی کل پیداواری صلاحیت (capacity payment) کی مد میں کی گئی ۔سال 2013 ء میں نواز شریف صاحب نے حکومت سنبھالی تو اندھیرے دور کرنے کی خاطر پے در پے طویل المدت معاہدوں کے نتیجے میںپیداوارمیں 18000میگاواٹس کا اضافہ کر دیا۔سردیوں میں ہماری ضرورت اوسطاََ5000 میگا واٹ رہ جاتی۔ ادائیگی ہم 35000 میگا واٹس کی کرتے رہے۔ہمارے ہاں آج 60% بجلی درآمد کردہ تیل، گیس اور کوئلے سے بنائی جاتی ہے۔ سال2015 ء میں غیر ملکی کوئلے سے چلنے والے ’پنجاب سپیڈ‘ سے لگائے گئے کارخانوں کے بعد آج ہماری کل پیداواری صلاحیت 41,551میگا واٹس ہے۔ 31000کی ہمیں زیادہ سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے ،جبکہ 22000میگا واٹس سے زیادہ ہم ترسیل اور تقسیم کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ قیمت مگر ہم کل پیداواری صلاحیت کی اداکرتے ہیں، اور امریکی ڈالروں میں کرتے ہیں۔ تیس روپے فی ڈالر کے حساب سے شروع ہونے والی ادائیگیوں کی صورتِ حال اب یہ ہے کہ2026 ارب(دو ٹریلین) روپے ہم نے نجی کمپنیوں کو صرف اس سال ادا کرنے ہیں۔2026ارب روپوں کی مالیت کا اندازہ ہم یوں لگا سکتے ہیں کہ پاکستان کا کل دفاعی بجٹ پچھلے سال 1800ارب روپے تھا۔ ابتداء میں جو تین نجی پاور پلانٹس لگائے جانے کا معاہدہ ہوا تھا، وہ غیر ملکیوں سے تھا۔ چنانچہ حکومت پاکستان نے انہیں نا صرف یہ کہ پلانٹس کے لئے زمین کی خریداری اور تنصیب میں مددبلکہ ایندھن کی فراہمی، منصوبوں کی کامیابی اور سرمائے کی واپسی کی بھی گارنٹی دی۔ ٹیکس کی مدمیں چھوٹ اور انشورنس کی ادائیگی جیسی رعائتیںبھی دی گئیں۔ غیر ملکی ہونے کی بناء پر انہیں ادائیگیاں امریکی ڈالروں میں کرنے کا وعدہ بھی کیا گیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ایندھن کی قیمت میں اضافے اور پیداواری صلاحیت کے مطابق Capacity payments کا بوجھ اٹھانے کی ذمہ داری بھی حکومت پاکستان نے اپنے سر لے لی۔بعد میں لگنے والے تمام پلانٹس کے مقامی سیٹھوں سے بھی انہی شرائط پر معاہدے کئے گئے۔ ظلم یہ ہوا کہ صرف بجلی کے کارخانے ہی نہیں ،سال 2013ء کے بعد قطر سے ایل این جی کے معاہدے کے بعداس وقت کی حکومت نے کراچی میںایل این جی کے جوٹرمینل لگانے کے معاہدے کئے، ان کی شرائط بھی لگ بھگ بجلی گھروںکے معاہدوں کی طرز پر ہی رکھی گئیں۔ ایک کے بعد ایک طویل المدت معاہدے خریداری نہیں بلکہ کل پیداواری صلاحیت کی بنیادپر ادائیگیوں) (Capacity payment کی شکل میں طے کئے گئے۔یہ نہیں کہ معاہدے جِن بھوتوں نے کئے تھے۔ سال2002,1993اور2015 میںآئی پی پی پالیسیاں کسی خلائی مخلوق کے ہاتھوں جاری نہیںہوئی تھیں۔ سب کردار ہمارے درمیان ہی موجود ہیں۔ سرکاری بیوروکریٹس بھی زندہ سلامت اور عافیت کی زندگیاں جی رہے ہیں۔مگر افسوس کہ آج کوئی سڑکوں پرلُٹا پھرتاہے تو وہ عام پاکستانی ہیں۔ڈیفالٹ کے کنارے پر کوئی کھڑا ہے تو وہ ہمارا ملک ہے۔آئی پی پیز کا کردارا ور رویہ دیکھ کر بے اختیار ایسٹ انڈیا کمپنی اور اس کے مقامی گماشتوں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ سال 2020ء میں پی ٹی آئی کی حکومت میںتوانائی کے موجودہ نگران وزیرصاحب نے آئی پی پیز کے معاملات پر ایک رپورٹ میں شدید بدعنوانیوں کی نشاندہی کی۔ افسوس کہ اس وقت کے وزیرِ اعظم نے بیک وقت ایک سے زیادہ محاذ کھول رکھے تھے۔ سب طاقتوروںکے چھتوں کے ساتھ چھیڑ خانی کرنے کا نتیجہ نکلا کہ ایک وقت ایسا آیا کہ خود اپنی حکومت کے لالے پڑ گئے۔آج یکطرفہ شرائط پر طے کئے گئے ظالمانہ معاہدوں کا ڈھول پاکستان کے گلے میں لٹک رہاہے۔ اس ڈھول کو ہر آنے والا حکمران بجاتا ہے اور پچھلوں کو کوستے ہوئے اگلوں کے گلے میں ڈال کر اپنی راہ لیتا ہے۔ اب اس لٹکتے ڈھول کی رسی ہمارے گلے کا پھندا بن چکی ہے۔ حال ہی میںنگران وزیرِ خزانہ نے عوام کونصیحت کی ہے کہ وہ اپنی توقعات پر قابو پا کر جینا سیکھیں۔ پچھلی حکومت کی آئی ایم ایف ڈیل کے نتیجے میں بجلی ، گیس اور پٹرول کے نرخوں میں اضافہ تو جولائی کے مہینے میں ہی ہو گیا تھا۔تاہم اگست کے مہینے میںبقایا جات کے ساتھ بجلی کے بل آئے تو ملک کے کونے کونے میں پاکستانی بلبلا اٹھے۔ کیا پاکستانی بلا وجہ چیخ رہے ہیں؟ بجلی کے بلوں کا جائزہ لیا جائے تو انسان بے اختیار سر پیٹ لیتا ہے۔ اس سے بڑھ کر ظلم ، نا انصافی اور جبر پر استوار وصولیوں کا نظام کیا کوئی ہو سکتا ہے کہ جہاںریاست اپنی عشروں پر محیط نا عاقبت اندیشی، مجرمانہ غفلت ،نااہلی اور سرکاری و غیر سرکاری کارندوں کی بد عنوانیوں ، چوریوں اور ڈاکہ زنی کا بوجھ عام شہریوں کے سر ڈال کر بے گناہوں کا جینا محال کر دے؟ عام شہری کو موصول ہونے والے بجلی کے بلوں میں صرف تیس فیصدرقم استعمال کی جانے والی بجلی کی قیمت ہوتی ہے۔جبکہ بقیہ ستر فیصد بل capacity payment کے علاوہ ایندھن کے نرخوں میں اضافے، مفت فراہمی، چوری اورلائن لاسز کی مد میں ضائع ہونے والی بجلی کا ہوتا ہے۔حتی کہ اسی بل میں حکومت اپنی نااہلی کی بناء پر سرکولر ڈیٹ کی عدم ادائیگی کی صورت میں بینکوں کو جو سود بھرتی ہے وہ بھی شامل ہوتا ہے۔ عام صارف ہی تقسیم کار سرکاری کمپنیوںکے افسروں اور دیگر ملازمین کے واجبات کا بوجھ بھی اٹھاتا ہے۔ اور اس سب کے اوپر 17% جی ایس ٹی اور انکم ٹیکس کی صورت میںدہرے، تہرے ٹیکسز بھی لاگو ہوتے ہیں۔ ستم بالائے ستم کہ سال 2015ء میں ’رینیو ایبل انرجی‘ کے فروغ کے لئے جاری ہونے والی حکومتی پالیسی کی ہی نفی کرتے ہوئے سولر انرجی کی نیٹ میڑنگ کی پالیسی کا بھی از سرِ نو جائزہ لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے کہ جس کا بنیادی محرک بھی سیٹھوں کو capacity paymentکی مد میں ادائیگیوں کو بتایا جا رہا ہے۔کیا ’آئینی جمہوریت‘کہلائی جانے والی ریاستیں اپنے شہریوں کے ساتھ اسی طرح پیش آتی ہیں؟ ہم جانتے ہیں کہ نگران حکومت کے ذمہ داران اس وقت معیشت کی بحالی کے لئے سر جوڑے بیٹھے ہیں۔ کیا نجی پاور پلانٹس کی شکل میں ہمارے کندھوں پر مسلط پیران تسمہ پا سے نجات اورعشروں سے باہم مشترک مفادات کی لڑی میں پروئے سیٹھوں،سیاستدانوں اور ان کے کاسہ لیس بیورو کریٹس کے احتساب کے علاوہ بھی کوئی ایسا راستہ موجود ہے کہ جس پر چل کر حکمران سمجھتے ہوں کہ وہ ایک دن خدا کو منہ دکھانے کے قابل ہوں گے؟دورِ حاضر کی ایسٹ انڈیا کمپنیوں اور ان کے سہولت کاروں نے کچھ اور نہیں، ملکی سلامتی وبقاء کو خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔