عید پر ابا جی اور بڑے بھائیوں کے نام عید کارڈ موصول ہوتے تو عید کارڈ کی چکاچوند سے ہماری آنکھیں جیسے جھپکنا ہی بھول جاتیں۔کارڈ کیا ہوتا رنگوں کا طوفان ہوتا۔ہمارے دل میں سو سو ارمان اٹھتے کہ کاش جلدی سے ہم بھی بڑے ہو جائیں اور ڈاکیا ہمارے نام کا بھی کارڈ لے کر آئے۔خدا نے شاید ہماری بات سن لی ایک دن ایک عید کارڈ ہمارے نام کا موصول ہو گیا۔اس عید کارڈ کو پہلے تو جی بھر کے دیکھا پھر اپنے بستے میں سنبھال لیا۔رات آئی تو بستے سے نکال کر اپنے سرہانے کے نیچے رکھ لیا۔ بہت بعد جا کر علم ہوا کہ یہ ہمارے ایک دوست کی شرارت تھی کسی نے کارڈ اس کو ارسال کیا تھا اس نے یہ شرارت ہمارے ساتھ کر دی۔ اس دوست کی محبت آمیز شرارت سے شہ پا کر ہم نے بھی اپنی جماعت کے سب سے پیارے دوست کو عید کارڈ بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ عید کارڈ تو خریدنے کے جیب میں پیسے نہیں تھے سو خود ہی حساب کی سفید کاپی سے ورق پھاڑا اور اس کو ہی عید کارڈ بنانے کی کوشش کی۔ایک کونے پر یا اللہ دوسرے پر یا محمد ﷺ، لکھا۔ کچھ کچے پکے رنگ گھولے اور رنگ برنگا عید کارڈ تیار ہو گیا۔ عید کارڈ پر تحریر ہونے والے جملے ہمارے اپنے ذہن کی اختراع ہوتے تھے شاید یہی ہماری شاعری کی ولادت کے دن ہوں۔چل چل لفافے کبوتر کی چال پوچھ کر آ حفیظ کا حال ،چل چل لفافے ملکوال جا اور رشید کو سلام کر کے آ۔ یہ عید کارڈ ڈاک یا ڈاکیے کے حوالے نہیں کیے جاتے تھے بس ان کی منزل ہمارا ننھا منا بستہ ہوتا تھا۔ہم شاید یہی سمجھتے تھے حفیظ اور رشید کو ہمارا ارسال کردہ عید کارڈ مل گیا ہو گا۔ عید کارڈوں کا سلسلہ ہمارے بچپن سے شروع ہوا اور جوانی بلکہ عین جوانی پر عروج پر پہنچ گیا۔ان خود ساختہ یعنی خود بنائے ہوئے لفظی معنوں پر دھیان رکھیں عید کارڈوں پر کچھ تو مشہور شعر نما جملے ہوتے تھے جو لکھ دیے جاتے تھے کچھ نئے نئے بھی گھڑ لیے جاتے تھے۔یہ سارا کام سکول میں ہی سرانجام دیا جاتا تھا اور وہ بھی ماسٹر صاحب جب کسی اور کام میں مصروف ہوں اور ان کا ڈنڈا مولا بخش کسی میز پر آرام فرما رہا ہو۔ورنہ مولا بخش اور تشریف صاحب کا فاصلہ پلک جھپکنے میں طے ہو جاتا تھا۔ماسٹر صاحب کی آواز آتی اوئے فلاں تشریف اوپر کر اوئے امیر انجم (ہمارے مانیٹر جو آج کل سڈنی میں ہوتے ہیں) پکڑانا ذرا مولا بخش۔سردیوں کے دنوں تشریف صاحب کی ٹکور ہوتی تو اگلی عید تک عید کارڈ کا سارا شوق غرق ہو جاتا۔خیالوں میں ہی تشریف کو سہلاتے رہتے اور کارڈ لکھنے کا خیال ترک کرتے رہتے۔ وہ زمانہ انٹرنیٹ کا تو تھا نہیں کہ کہیں سے عید کے میسج نقل کرتے اور لکھ لیتے بس سینہ بہ سینہ جو اشعار سنتے چلے آ رہے تھے وہی ہم اشعار ہم بھی اپنے بنائے ہوئے عید کارڈوں پر لکھ دیتے۔ان میں کچھ یوں ہوتے تھے ڈبے میں ڈبہ ڈبے میں کیک میرا دوست لاکھوں میں ایک بیمار بہت ہوں روٹی توڑی نہیں جاتی آپ سب سے پیارے ہو آپ سے دوستی چھوڑی نہیں جاتی عید کا دن ہے آپ کو آنا پڑے گا دوست تم نہاتے نہیں تھے عید آ گئی ہے تمہیں نہانا پڑے گا لفافے جا اور خیر سے آ ان کاغذ پر لکھے ہوئے عید کارڈوں سے پہلے یہ کام ماسٹر صاحب چوری چھپے تختیوں پر کیا جاتا تھا۔سردی کے دنوں ہمارا اسکول انگریزوں کی بنائی ہوئی ایک خستہ سرائے میں منتقل ہو جاتا۔سرائے کی بیچ ایک کھلا سبز میدان تھا وہی میدان سکول میں تبدیل ہو جاتا۔اس کے سامنے ایک کنواں تھا اور پشت پر ایک نہری نالہ تھا۔ کنواں ایک سکھ سردار کوکا سنگھ کی ملکیت تھی اور اس کی ہندوستان ہجرت کر جانے کے بعد بھی کوکیاں دا کھوہ کہلاتا تھا۔ان دو جگہوں کے علاوہ نزدیک کہیں نلکا بھی نہیں ہوتا تھا کہ پانی میسر ہو جاتا۔نہری نالے پر تختی دھوئی جاتی تو دو گھونٹ پانی بھی پی لیا جاتا۔کنواں چل رہا ہوتا تو فبہا ورنہ خود کنوئیں کو چلایا جاتا جب ٹنڈوں سے پانی گرتا تو بھاگ کر تختیاں دھو لیں جاتیں۔کلاس میں ان گاچی لگی تختیوں پر عید کے پیغامات لکھتے۔ وہی تختی ایک دوست سے ہوتے ہوتے اس دوست تک پہنچتی جس کو پیغام بھیجا جاتا تھا۔وہ اسی تختی پر واپسی عید کا پیغام لکھتا اور اک سے دوسرے سے ہوتی ہم تک واپس پہنچ جاتی۔ عید کارڈ بھیجنا اور اس پر عید کی دعائیں لکھ کر بھیجنا ایک عہد تھا جو تقریبا دو تین عشروں تک جاری رہا۔عید کارڈ کا اور اس کی پرنٹنگ اور فروخت کا آئیڈیا بہت دل فریب تھا۔پاکستان میں اسے رائج کرنے والے کلاسیک والے آغا امیر حسین مرحوم تھے۔آغا صاحب ہمیں قریبی دوستوں میں شامل کرتے تھے مگر ہم نے زندگی بھر خود کو ان کا نیازمند ہی سمجھا۔انہوں نے بتایا کہ یہ اصل آئیڈیا ان کا بھی نہیں تھا۔مال پر الحیات بلڈنگ میں ایک بک سٹور تھا اس کے مالک نے یہ آئیڈیا دیا اور آغا صاحب نے اس کا آغاز کر دیا۔آغاز کیا ہوا ان کے بقول مال روڈ پر ان کی بک شاپ کے سامنے ایک ہجوم ہوتا جو دیوانہ وار اس آئٹم کو خریدتا۔آہستہ آہستہ یہ سلسلہ سارے ملک میں پھیل گیا۔کمپنیوں اور اداروں کی طرح عام آدمی نے بھی اپنے نام کے عید کارڈ شائع کروانا شروع کیا۔تب ہم اپنے قصبے میں ایک برانچ کے سربراہ بن چکے تھے۔ایک لوکل پریس پر ہم نے قبلہ والد صاحب کے نام کے عید کارڈ بنوائے۔منجانب کی جگہ والد صاحب کا نام لکھا۔شام کو دفتر سے گھر آ کر ان کو پیش کیے بہت خوش ہوئے اور بہت ساری دعائیں دیں۔ان سے ان کے دوستوں کے نام پوچھے اور خود محبت سے ارسال کیے۔اب شارٹ کٹ کا زمانہ آ گیا ہے عید کی صبح ایک دوسرے کو واٹس ایپ پر عید مبارک کا پیغام بھیجا جاتا اور وصول کیا جاتا ہے۔قلم کی جگہ اردو پنجابی کی بورڈ نے لے لی ہے۔ایک دوست کی طرف سے آیا ہوا میسج کسی دوسرے دوست کو فارورڈ کر دیا جاتا ہے میسج نہ ہوا عید قربان پر بھیجی جانے والی بکرے کی کلیجی ہو گئی جو آپ کی طرف سے بھیجی جاتی ہے اور پایان کار شام کو وہی کلیجی آپ کے دوست رشتہ داروں سے ہوتی ہواتی واپس آپ تک پہنچ جاتی ہے۔کسی دوست رشتہ دار کا بچہ بیل دے کر کلیجی آپ کے حوالے کر جاتا ہے۔