پاکستان کی زمین ہر لحاظ سے خوش قسمت ہے۔ زمین کے اوپر سونا اگلنے والی زرخیز مٹی ہے جو ہر موسم کی فصل اگانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ پاکستان میں دنیا کا بہترین نہری نظام موجود تھا جو ایک عرصے تک اس زرخیز مٹی کے ساتھ مل کر اس ملک کی معیشت کو سنبھالتا رہا ۔ زمین کے اندر بھی قدرت نے کوئی کمی نہیں کی۔ اس زمین کی کوکھ قدرتی وسائل اور معدنی ذخائر سے مالامال ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ قدرتی خزانوں سے لدی پھندی یہ سرزمین،قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔ایسے ملک میں جہاں تیل اور گیس سے لے کر یورینیم تک موجود ہو اس کا یہ حال کس نے کیا اور وہ کون لوگ تھے جو اس کی لوٹ مار میں حصے دار بنتے رہے اس کی چھوٹی سی جھلک آپ کو صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع کرک میں نظر آئے گی ۔یہ ارباب اختیاراور کارپوریٹ کمپنیوں کی پاکستان کے وسائل کی لوٹ مار کی سنگین داستان ہے۔گو یہ نہ نئی ہے نہ انوکھی۔ ضلع کرک جو جپسم، نمک، یورینیم اور مکوڑی، گرگری لاچی اور نوشپا کے مقا م پہ تیل و گیس کے ذخائر سے مالامال ضلع ہے حیرت انگیز طور پہ ارباب اختیار کی توجہ سے اسی طرح محروم رہا ہے جس طرح جنوبی پنجاب حکمرانوں کی نظر کرم سے محروم رہا۔نمک تو خیر انگریزوں کے زمانے سے نکالا اور پورے برٹش انڈیا میں استعمال ہوتا رہا لیکن تیل و گیس اور یورینیم کے ذخائر حال ہی میں دریافت ہوئے اور یہ دریافت حسب معمول اس علاقے کی قسمت تو نہ بدل سکی البتہ ارباب اختیار اور کارپوریٹ کمپنیوں نے اس بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے۔ گیس کی پچیس سو کیوبک فٹ اور تیل کے سات ہزار بیرل روزانہ پیداوار کے باوجود جو ملکی تاریخ میں ایک ریکارڈہے، علاقے کی صورتحال اس سے عیاں ہے جو مجھ سے تحریک انصاف کرک کے ایک مقامی رہنما نے بیان کی۔اس کا کہنا تھا کہ انڈس ہائی وے جو کراچی کو پشاور سے ملاتی ہے جس مقام سے ناقابل گزران نظر آئے، سمجھ لینا وہاں سے کرک شروع ہوتا ہے۔علاقے میں بنیادی سہولیات عنقا ہیں۔صحت اور تعلیم تو ایک طرف رہی، سب سے بڑا مسئلہ پانی ہے حالانکہ تحریک انصاف کی حکومت نے کئی بارانی ڈیم بنا رکھے ہیں اور علاقے میں بارش بھی خوب ہوتی ہے لیکن شنیدہے کہ ان ڈیموں سے نیچے علاقے میں پانی کی سپلائی کا کوئی انتظام نہیں ہے۔اس سلسلے میں ایک دلچسپ روایت یہ سنائی جاتی ہے کہ جب انگریزوں نے اس علاقے سے جہاں ایک ہی قبیلہ خٹک صدیوں سے آباد ہے، دوسری جنگ عظیم میں سپاہیوں کی بھرتی کے لئے مقامی حکام سے رابطہ کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ جس قوم کے پاس پینے کو پانی نہیں،وہ تمہارے لئے جنگ کرے گی؟اس پہ انگریز سرکار کو حیا آئی اور اس نے اوپر سے آنے والے چشمے پہ بند لگا کر نیچے پانی سپلائی کیااور تالاب بنانے کا سلسلہ بھی شروع کیا اور کہا کہ اب لڑو۔ اس وقت پانی اتنا کافی ہوتا تھا کہ آگے وزیرستان کو بھی مہیا کیا جاتا تھا۔ اسی کرک کے ایک سربرآوردہ شخص نے اپنی کاروباری ضرورت کے لئے اسی بند کے نیچے شگاف کرکے پانی کو محدود کرلیا اور باقی علاقے کو مکینوں کے لئے کربلا بنا دیا۔ تحریک انصاف کے دو ایم پی اے اور ایک ایم این اے اس سلسلے میں کیا کرتے رہے اس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ آج خود تحریک انصاف کے ایم این اے کے گھر پانی نہیں ہے۔ پرویز خٹک نے اپنے دور وزارت اعلی میں شاید ہی کبھی اس علاقے کا دورہ کیا ہو جہاں سے نکالی جانے والی گیس چودہ سو میل دور دراز علاقوں تک سپلائی ہوتی ہے لیکن علاقہ مکین اس سہولت سے محروم ہیں جبکہ آئین کے مطابق کسی بھی قدرتی وسیلے پہ پانچ کلومیٹر تک اس علاقے کے عوام کا حق ہوتا ہے ۔ نہ صرف یہ کہ ایسا نہیں ہورہا بلکہ تمام بنیادی سہولیات سے محروم عوام پہ سترہ ارب روپے کی گیس چوری کے مضحکہ خیز الزامات بھی لگائے گئے ہیں۔اگر ایسا ہے تو یقینا علاقے میں کوئی ایسا پلانٹ لگایا گیا ہے جو باقی پاکستان کی نظر سے اوجھل ہے۔ اس گیس چوری کی حقیقت بس یہ ہے کہ لوگوں نے ناجائز کنکشن لے رکھے ہیں اور ڈیرہ اسماعیل خان کو جانے والی پائپ لائن توڑ کر کنکشن بنالئے ہیں۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہے یہ حکمرانوں سے بہتر کون جانتا ہے۔اس بات حکومت نے معاملے کی سنگینی کا احساس کیا ہے اور کرک کے اڑتیس میں سے نو دیہاتوں کو گیس کی فراہمی کا اعلان کیا ہے جبکہ ان کے مطابق انتیس دیہاتوں میں گیس فراہم کی جاچکی ہے۔ اس منصوبے کے لئے حکومت نے تقریبا نو سو ملین روپے مختص کئے تھے اس کی ضرورت کیوں پڑی جبکہ صوبے کو تیل اور گیس کی رائلٹی مل رہی تھی جو قانون کے مطابق بارہ فیصد تھی جس میں دو فیصد وزیر اعلی کا تھا جبکہ دس فیصد متعلقہ ضلع کا حصہ تھا۔تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ رائلٹی سپریم کورٹ کے حکم پہ روکی جاچکی ہے جس کی وجہ کرک سے خام تیل کی چوری کا وہ میگا اسکینڈل ہے جس کی خبر میڈیا کو کانوں کان نہ ہوسکی کیونکہ اس میں مقامی حکام، خود تیل نکالنے والی کمپنی ، ایک قومی ادارہ جس پہ ہاتھ ڈالتے ہوئے پر جلتے ہیں اور کچھ مقامی مشاہیر شامل تھے۔ جب ضلعی ناظم کی کوششوں سے یہ خبر میڈیا میں آئی تو حکومت کو اسٹینڈنگ کمیٹی بنانی پڑی ۔ اس کمیٹی نے پارلیمنٹ کے سامنے جو تفصیلات بیان کیںاس کے مطابق اس وقت تک 142 ارب روپے کا تیل چوری ہوچکا تھا لیکن نہ ایف آئی اے کو اس کی خبر تھی نہ وزارت پٹرولیم اس سے واقف تھی۔معصومیت کی اس سے بہتر مثال اور کیا ہوگی ۔اس لوٹ مار میں ایک قومی ادارہ ہی نہیں مول کمپنی بھی شریک تھی جسے کرک میں تیل نکالنے کا ٹھیکہ ملا ہوا تھا۔ ان کا طریقہ واردات سادہ سا تھا یعنی مین ٹرانسمیشن لائن میں شگاف بنا کر راتوں رات تیل سے بھرے ٹینکر نامعلوم مقامات پہ بھیج دئے جاتے۔گنجائش سے زیادہ مقدار والے ٹینکر بھی استعمال کئے جاتے جن کی تعداد وہی رہتی لیکن ان میں بھرا تیل مقررہ مقدار سے زیادہ ہوتا جو کاغذات پہ لکھا ہوتا۔مول کمپنی سے جب مقامی طور پہ شکایت کی گئی توا س نے عارضی طور پہ چند ٹینکر بند کردیے اور ڈرائیوروں کو فارغ کردیا ۔ پولیس نے اس سلسلے میں کاٹی گئی سو سے زائد ایف آئی آر کی کھچڑی بنادی اور گرفتاریاں ٹینکر ڈرائیوروں اور کلینروں تک محدود رہیں۔ ایف آئی اے نے اپنی رپورٹ میں این ایل سی کو اس غبن کا ذمہ دار ٹہرایا جس سے وہ صاف انکاری ہوگئی۔ ساتھ ہی مول کمپنی نے بھی تحقیقات میں تعاون سے انکار کردیا۔ میرا سوال یہ ہے کہ ملکی معیشت جو اس وقت وینٹی لیٹر پہ ہے اور جسے اس وقت ایک ایک پائی کی ضرورت ہے اور عمران خان بچت کے نت نئے طریقے اختیار کررہے ہیں ، قیمتی تیل کی اس ہوشربا چوری کے سلسلے میں کوئی قدم اٹھایا جائے گا یا نہیں؟کیونکہ اسٹینڈنگ کمیٹی تو دو سال قبل ہی یہ رپورٹ دے کر بری الذمہ ہوچکی تھی۔ اب اس سلسلے میں ضلع کو تیل و گیس کی رائلٹی روک کر سزادی جائے گی یا ذمہ داروں سے بھی سوال کیا جائے گا؟