قدرت کا نظام بڑا سادہ ہے۔کسی پر کوئی جبر یا سختی نہیں ۔ لاریب کتاب میں ارشاد ہے :بیشک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدل ڈالے ۔ ہمارے ملک میں مدارس دینیہ نعمت خدا وندی ہیں،یہ اسلامی علمی ورثے کی منتقلی کے ضامن ہیں۔تعلیم محض نقوش ،حروف ، خطوط، آواز، بولیوں اور چھوٹی بڑی کتابوں کانام نہیں ہے، بلکہ ایسی ذہنی و علمی تربیت کا نام ہے، جو انسانی فطری قوت وصلاحیت، جذبات واحساسات کو ابھار تی،سنوار تی اور منظم طریقے سے مہذب اور شائستہ بناتی ہے تاکہ نوعِ انسانی کے لیے مفید ثمرات حاصل کئے جاسکیں۔تعلیم ایک ایسا ذریعہ ہے، جس کی بدولت روحانی، اخلاقی، تمدنی اور تہذیبی ترقی ہو سکتی ہے یہی انسانی تخلیق کا مقصد ہے۔ مدارس دینیہ کا نصاب ہمیشہ زیر بحث رہا ،ہر اُس شخص نے بھی اس پر تنقید کی ،جو نصابی کتب کے ناموں سے بھی آشنا نہیں۔آخر ایسا کیوں ہے ؟درحقیقت مدارس کے طلبا جب 8 سے 11برس بعد ڈگری لیکر عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تودور حاضر کے معاشی چیلنجز ان کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔ان کی ڈگر ی محض انھیں کسی مسجد یا مدرسے میں امام و خطابت ہی دلوا سکتی ہے ۔اگر دورہ حدیث کی کلاس میں 100طالب علم ہیں،تو محض 10طالب علم خود سے عربی عبارت پڑھ سکتے ہیں، مگر ان دس میں سے صرف 2 طالب علم ہی عربی میں فی البدیہ گفتگو کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ،شروحات طلبا کی صلاحیتوں کی قاتل ،جب تک ان سے جان نہیں چھڑائی جا سکتی ،تبدیلی مشکل ہی نہیں ناممکن ۔ اب سوال یہ پید اہوتا ہے کہ ایسا کون سا طریقہ اختیار کیا جائے کہ مدارس کے طلبا روزگار بھی کما سکیں ۔اس سلسلے میں جب بھی مدارس کے مہتمم حضرات سے بات ہوئی تو جواب ملا:مسلمانوں نے ہمیشہ علم کو علم کے لیے سیکھاہے، انھوں نے علم کو کبھی اس لیے خاص نہیں کیا کہ اس کے ذریعے معاش حاصل کریں۔ مسلمانوں کے نزدیک حصول علم ایک فریضہ ہے جو دنیوی مفادکے علاوہ اخروی نجات کاذریعہ بھی ہے۔عرض کی ! اخروی نجات کا لازمی ذریعہ ہے مگر کیا رسول اللہ ﷺ نے خود تجارت نہیںکی ۔سیدنا صدیق اکبر ؓاور عثمان غنی ؓ نے صرف صفہ کے چبوترے پر ہی اکتفا کیا تھا یا اس کے ساتھ ساتھ کاروبار بھی تھا؟ حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒنے 1937ء کے دوران علی گڑھ میں مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کی پچاس سالہ تقریب میں صدارتی خطبہ کے دوران اس مسئلہ کو دینی اداروں کے لیے انتہائی اہم قرار دیا تھا۔ شکایت کی جاتی ہے کہ اچھے علماء پیدا نہیں ہوتے، مگر اچھے علماء پیدا ہونے کے اسباب و ذرائع کی طرف توجہ نہیں کی جاتی۔علماء کو احتیاج اور افلاس سے نکالا جائے۔ ان کو اس قابل بنا دیا جائے کہ وہ اپنی روزی اپنے قوت بازو سے حاصل کر سکیں تاکہ ان میں فارغ البالی اورآزادی رائے پیدا ہو سکے ۔مدارس عربیہ کی قیادت اس معاملے پر ابھی تک فیصلہ لینے پر ہچکچاہٹ کا شکار ہے ۔سوائے جامعۃ الرشید کراچی کے ۔جنہوں نے نہ صرف نصاب میں تبدیلی کی بلکہ اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرکے مدرسے کو آکسفورڈ یونیورسٹی کی طرز پرایک جدید شکل میں دنیا کے سامنے پیش کیا ۔ سرکاری سطح پر محکمہ اوقاف پنجاب نے پہلا قدم اٹھایا ہے ۔سیکرٹری اوقاف ڈاکٹر سید طاہر رضا بخاری ،ایک علمی شخصیت ہیں۔انھوں نے سرکاری دینی مدارس کو عصری اورفنی تعلیم سے آراستہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے ،اس سے نہ صرف علماء کرام کوروزگار ملے گا بلکہ ان میں خوداری پیدا ہو گی ۔ وزیر اوقاف سیّد اظفر علی ناصر،سیکرٹری اوقاف ڈاکٹر طاہر رضا بخاری اور سیکرٹری صنعت و تجارت احسان بھٹہ نے پائلٹ پراجیکٹ کا آغاز ماڈل مدرسہ جامعہ ہجویریہ سے کیا، دینی مدارس میں فنی تعلیم اور کورسز کا آغاز،موجودہ حکومت کا ایک اہم قدم ہے، جس کا بلاشبہ کریڈٹ،وزیر اوقاف ،سیکرٹری اوقاف اورسیکرٹری صنعت و تجارت کے سَر ہے۔ راقم کی ڈاکٹر سید طاہر رضا بخاری سے گزارش ہے کہ اس پراجیکٹ میں جدت پیدا کرنے کیلئے اپنی ٹیم کے ہمراہ جامعۃ الرشید کراچی کا دورہ کریں ۔ وہاں پر مستطیع و غیر مستطیع طالب علم کیلئے جدید تعلیم مفت جس کا نتیجہ یہ ہے کہ جدید تعلیم صرف دولت مندوں کے ساتھ مخصوص نہیں رہی بلکہ غریب سے غریب شخص بھی جدید علم سے آراستہ ہو سکتا ہے۔ رنگ ونسل اورامیر وغریب کے مابین کوئی امتیاز روا نہیں رکھا گیا۔ زمانہ ٹیکنیکل تعلیم میں ترقی کرکے ثریا پر پہنچ گیا ہے، زمین کا سینہ چاک کرکے خزانے نکال رہا، لیکن تعلیم اپنے اصل مقصد، بلند اخلاقی اور جوہر انسانیت کے ساتھ آراستگی سے آج تک محروم ہے،لہذاجامعہ ہجویریہ کا نصاب اس طرح مرتب کیاجائے کہ اس میں تعلیم کی پختگی کے ساتھ اخلاق کی بلندی اور اعمال و کردار کی پاکیزگی کی طرف یکساں توجہ ہو۔ نصاب تعلیم میں اس بات کا خاص لحاظ رکھا جائے کہ اس کے ذریعے طالب علم اسلام کی روحانی اور اخلاقی قدروں کے ساتھ ساتھ اسلامی علوم وفنون پر بھی دسترس اور مہارت حاصل کرسکے، تاکہ یہاں سے نکلنے کے بعد ملت کی مخلصانہ قیادت کی ذمہ داریاں سنبھالنے کا اہل ہوجائے اور اسلامی دعوت وتبلیغ کی جد وجہد میں اہم کردار اداکرسکے۔ جامعہ ہجویریہ تعلیمی نظام کی وسعت، اتباع سنت میں پختگی اور علوم وفنون میں کامل رسوخ کی بنا پر برصغیر میں منفرد تعلیم گاہ کی حیثیت رکھتا ہے، خصوصاً حدیث نبوی کی تعلیم میں ایک منفرد اسلوب کا حامل ہے۔اس اسلوب کو برقرار رکھنے کے لیے صرف نصاب تعلیم کی جدید خطوط پر استواری حل نہیں بلکہ اس کے لیے ایسے اساتذہ درکار ہیں، جو طے شدہ خاکوں میں رنگ بھرسکیں۔ ان اساتذہ کی الگ سے خصوصی تربیت بھی کی جائے۔ بحرحال ڈائریکٹر جنرل مذہبی امور آصف علی فرخ، خطیب داتا دربار مفتی محمد رمضان سیالوی، وائس پرنسپل جامعہ ہجویریہ مولانا ریاض احمد چشتی،برادر ِعزیز حافظ جاوید شوکت ،استاد محترم مولانا زوار حسین مجدی نعیمی اورمحکمہ صنعت و تجارت کے سینئر افسران مبارک باد کے مستحق ہیں ۔ 2007ء میں سند فراغت حاصل کرنے کے بعد وہ دوست مستقبل کے بارے میں زیادہ پریشان نظر آئے ،جن کے پاس ہنر نہ تھا ۔برادرم جمیل چترالی سب سے پہلے دوبئی میں اس بنا پر منتقل ہو گئے کہ وہ کمپیوٹر کے ماہر تھے۔عثمان صدیقی عصری علوم کے باعث ایک نجی یونی ورسٹی سے منسلک ہو گئے ۔عطا المنان وارثی گھاٹ گھاٹ کا پانی پی چکا۔ سلمان عابدکی وکالت مکمل ہو چکی تھی ،آج وہ اپنے ہم عصر وکلا میں زیادہ خوشحال ہے۔عزیزم ابو بکر شیرازی نے بھی کئی تجربات کیے۔عبد اللہ ساقی ابھی تک کسی آشیانہ کی تلاش میں ۔ان سب نے اگر شروع سے ہی ٹیکنیکل تعلیم حاصل کی ہوتی تو پریشانی سے بچا جا سکتا تھا ۔ کیونکہ ٹیکنیکل ایجوکیشن کسی بھی معاشرے کے تعلیمی اور نتیجتاً معاشی استحکام کی ضامن ہوتی ہے مگر بدقسمتی سے پاکستان میں فنی تعلیم پر توجہ عمومی تعلیم سے کم ہے،مدارس میں تو سرے سے ہی نہیں۔