ملک کی سیاست میں کوئی نیا ہیجان بپا ہوتا ہے اسکے بپا ہونے میں چند ساعتیں لگتی ہیں تاہم اسکے نقصانات کے ازالے میں طویل وقت گزر جاتا ہے اسکے نتیجے میں اب یہ روایت بنتی جارہی ہے کہ جہاں کسی سیاسی قوت کے مفادات کو ٹھیس پہنچتی ہے وہ سیاسی قیادت یا قوت اپنی سیاسی انا کی تسکین کیلئے ریاست اور عوام کے مفادات کو نقصان پہنچانا شروع کردیتی ہے چندبرسوں سے پاکستان تحریک انصاف اور اسکی قیادت حکومت کے خاتمے کا غصہ نکالنے کیلئے کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی اس جماعت نے دو ہزار چودہ سے جھوٹ پر مبنی بیانیوں کی تشکیل کا آغاز کیا جسکے نتیجے میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار بھی ان پر فریفتہ ہوئے اور پی ٹی آئی کے چئیرمین کو ایک مقدمے میں صادق اور امین کا ٹائٹل بھی دیدیا اس جماعت اور لیڈر کی اندھی تقلید میں نوخیز دماغوں نے اس جھوٹ اور فریب پر مبنی بیانیئے کو ہاتھوں ہاتھ لیا جب ملک کے نوجوان اس سیاسی قیادت اور جماعت کے بیانیوں کی اثیر ہوئی تو اسکے اثرات ان نوجوانوں سے انکے بزرگوں اور خاص کر خواتین میں بھی نظر آئے جسکے نتیجے میں دو ہزار اٹھارہ میں مخالف سیاسی قوتوں کو ہاتھ پیر باندھ کر اس جماعت کے مقابلے کیلئے میدان میں اتار دیا گیا۔ اس جماعت نے جو بیانئے نوجوانوں کو دیئے ان بیانیوں میں تبدیلی کا نعرہ دو نہیں ایک پاکستان کرپشن سے پاک قیادت جیسے دلفریب نعرے تھے بیانئے گھڑنے کی ماہر اس جماعت نے ایک طرف ایسے بیانیئے بنائے دوسری طرف اسکے عمل اور اسکی حقیقت اسکے بر عکس تھی دو غلی اور دو رخی سیاست میں ساڑھے تین سال میں بہت کچھ ثابت ہوا جسکے نتیجے میں مقتدرہ نے اپنی حمایت واپس لی اور سہاروں اور جھوٹے بیانیوں پر کھڑی پی ٹی آئی کی حکومت زمین بوس ہوگئی۔اس جماعت کے بیانیوں کا عمل سے موازنہ ناگزیر ہے اس جماعت نے جنوبی پنجاب سے ایک گوہر نایاب عثمان بزدار کی شکل میں تلاش کرکے یہ بیانیہ بنایا کہ پنجاب کے کم ترقی یافتہ علاقے یعنی جنوبی پنجاب کی قسمت بدلنے کی نیت رکھتی ہے اور پی ٹی آئی کے لیڈر نے اس عثمان بزدار کو وسیم اکرم پلس کا درجہ دیدیا ۔جنوبی پنجاب میں ترقی ہوئی یا نہیں ہوئی تاہم اب یہ حقیقت آشکار ہوچکی ہے کہ عثمان بزدار کی تلاش میں سابق خاتون اول اور فرح گوگی کا کردار اہم تھا اور پنجاب میں جو اصل کھیل کھیلا گیا اسکی حقیقت اب آشکار ہوچکی ہے جہاں کھلنے والے کھاتے بتا رہے ہیں کہ اس ٹرائکا نے پنجاب جہاں ترقی کا سفر باقی صوبوں سے کچھ بہتر تھا وہاں کیسی تباہی پھیری او ر خیبر پختونخواہ میں بلین ٹری سونامی سے لیکر بی آر ٹی پشاور کی کہانی بھی پنجاب سے مختلف نہیں جسکے نتیجے میں اب کے پی کے اوور ڈرافٹ تلے دبا ہوا ہے۔ بلوچستان میں چئیرمین پی ٹی آئی نے قاسم سوری اور چئیرمین سینیٹ کی مشاورت سے باپ کی حکومت گرانے میں اہم کردار ادا کیا اسکے نتیجے میں کچھ بہتر ہوتا بلوچستا ن رو بہ زوال ہونے لگا جہاں ترقی کی ایک سمت کا تعین ہوتے ہوتے سب کچھ عدم استحکام سے دوچار ہوا سندھ میں بہر حال پی ٹی آئی چئرمین کا چاہتے ہوئے بھی کوئی ماڈل نہیں چلا کیونکہ وہاں مفاہمت کے بادشاہ کی گرفت مضبوط تھی۔ اسلام آباد کی سینیٹ کی نشست پر شکست پہلا گھاؤ تھا تاہم اس پر بھی پی ٹی آئی کی قیادت نہیں سنبھلی نہ رویئے بدلے اور پھر اپریل دو ہزار بائیس میں ایک آئینی طریقے سے جب پی ٹی آئی کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو پہلے ایک غیر آئینی اقدام کے تحت اسمبلیاں توڑی گئیں جب اس سے مقصد حاصل نہ ہوا تو غیر سیاسی سوچ کا مظاہرہ کرتے ہوئے پی ٹی آئی نے پہلے قومی اسمبلیوں سے استعفیٰ دیئے پھر خیبر پختونخواہ اور پنجاب کی اسمبلیاں تحلیل کردیں ۔ مقصد انتخابات کا حصول بتایا گیا جو کہ ایک دوسرا جھوٹا اور غلط بیانیہ تھا سیاسی بیانیئے میں انتخابات مانگنے والی اس جماعت جسکا مقصد انتخابات کا حصول نہیں بلکہ اپنی لیڈر شپ کی انا کی تسکین تھا اچانک چند روز قبل لاہور ہائی کورٹ پہنچی جہاں انکی پٹیشن آتے ہی لارجر بنچ بھی بن گیا ۔ حیران کن طور پریہ جماعت پی ٹی آئی اور اسکی قیادت بیانیہ بناتی ہے الیکشن کے انعقاد ناگزیر ہے اور عملی طور پر الیکشن کے التواء کیلئے پیش قدمی کرتی ہے جسکے بعد الیکشن کمیشن نے انتخابی عمل کو روکنے کا فیصلہ کیا جسکے نتیجے میں سپریم کورٹ کو مداخلت کرنی پڑی اور سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کا حکم معطل کیا اور الیکشن کمیشن کو فوری الیکشن شیڈول جاری کرنے کی ہدایت کی جسکے نتیجے میں اب آٹھ فروری کو انتخابات یقینی ہیں اسکا سہرا سپریم کورٹ کے سر جاتا ہے، تاہم جس طرح اس جماعت کے چاہنے والوں کا احتساب دیگر محکموں میں ہوا ہے عدلیہ اور وکلائمیں بھی انکی ایک بڑی تعداد موجود ہے اب سپریم کورٹ کی ذمے داری ہے کہ توہین عدالت کے نوٹس میں اس بات کا تعین کرے کہ لاہور ہائی کورٹ کی پٹیشن کا مقصد کیا تھا اس پٹیشن کو لانے والے کلائ￿íٹیشنرز کے رشتے اور تانے بانے کہاں سے ملتے ہیں۔ اسکا تعین کرنا ضروری ہے کہ چونکہ اس پٹیشن کے نتیجے میں انتخابات کو التواء میں ڈال کر پی ٹی آئی نے ایک بار پھر ریاستی اداروں عدلیہ الیکشن کمیشن اور اسٹیبلشمنٹ کو مورد الزام ٹہرانا تھا، اس جماعت کے بیانیوں کا جواب دینے میں دیگر سیاسی جماعتیں تو ناکام ہیں لیکن ریاست کے معاملات میں نؤ مئی سے لیکر انتخابات کے التوائ￿ تک کی پیش قدمی کے حقائق عوام کے سامنے لانا ریاستی اداروں کی ذمے داری ہے کیونکہ لیول پلئینگ فیلڈ کے نام پر اب بھی یہ سیاسی جماعت بیانیہ بنانے اور مظلوم کارڈ کھیل کر اب وکلاء کی مدد سے اب ایک نیا کھیل کھیلنا چاہ رہی ہے جسکی ابتداء وکلاء رہنماؤں کی شمولیت سے ہو رہا ہے۔ ان وکلاء کی مدد الیکشن جیتے جائیں یا نہ جیتے جائیں۔ ایک اور ایسی تحریک ضرور شروع کی جائیگی جسکا ہدف آئینی انتظامی اور سیکیورٹی ادارے ہونگے جسکے نتیجے میں ملک میں نگراں حکومت فوج اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر کی کوششوں سے جوتھوڑا معاشی استحکام آیا ہے جسے انتخابات کے بعد سیاسی استحکام کیساتھ ساتھ جاری رہنا ہے اسے نقصان ضرور پہنچے گا۔