جنوبی پنجاب کا دور افتادہ ضلع ڈیرہ غازی خان جو چاروں صوبوں کے سنگم میں واقع ہونے کی وجہ سے ملک گیر شہرت کا حامل ہے ۔ اس کی بنیاد نواب حاجی خان دودائی (میرانی ) نے اپنے اکلوتے بیٹے غازی خان کے نام پر 1476 ء میں رکھی تھی۔ بعد میں ہر نئے آنے والے اِس ضلع پر حکومت کرنے والے کو غازی خان کا نام ہی دیا جاتا اور یوں آخری غازی خان کو سندھ کے کلہوڑوں نے 1789ء میں شکست دے کر اپنے ساتھ سندھ لے گئے۔ کلہوڑوں کا سردار غلام النبی کلہوڑہ تھا جس نے بعد میں غازی خان ہفتم(ساتویں) کے وزیر محمود خان گجر کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے اُسے ضلع ڈیرہ غازی خان کا کار دار بنا دیا جسے بعد میں ابدالی کے لشکر نے شکست دے کر قدیم ڈیرہ غازی خان پر قبضہ کر لیا تھا اور کچھ عرصہ تک ڈیرہ غازی خان پر افغانستان کے پٹھانوں کی بھی حکومت رہی اور بعد میں احمد شاہ ابدالی کی وفات کے بعد پٹھانوں نے کمزور ہونا شروع کیا تھا تو سکھوں نے نواب مظفر خان سدوزئی کو شکست دے کر ملتان اور ڈیرا جات کے علاقوں پر قبضہ کر لیا پھر بعد میں انگریزوں نے 1849ء میں ملتان فتح کرنے کے بعد ڈیرہ غازی خان کے تمن داروں اور بلوچ سرداروں کو اپنے ساتھ ملا کر ڈیرہ غازی خان پر بھی قبضہ کر لیا ۔انگریزوں ہی کے دور میں اگست 1909ء میں قدیم ڈیرہ غازی خان کو دریائے سندھ نے ہمیشہ کے لیے تباہ کر کے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا اور یوں 1910ء میں موجودہ ڈیرہ غازی خان آباد ہوا ۔اِس وقت ڈیرہ غازی خان کی شہرت بلوچستان کے بارڈر سے آنے والا لاکھوں لیٹر ایرانی تیل ہے جو گذشتہ سات ماہ سے ڈیرہ غازی خان کے قبائلی علاقہ فورٹ منرو ،بواٹہ اور پھر پنجاب پولیس کے کنٹرول میں درہ سخی سرور کراس کر کے پورے جنوبی پنجاب میں ایرانی تیل سپلائی ہورہا ہے ۔سابق ڈی پی او حسن افضل کا اِس وجہ سے گذشتہ دنوں سے تبادلہ کر کے اُنہیں آئی جی پنجاب عثمان انور نے او ایس ڈی بنا دیا اور اُن کے خلاف تحقیقات بھی شروع ہو چکی ہیں ڈیرہ غازی خان افسران اعلیٰ کے لیے سونے کی چڑیا ہے ۔انگریزوں کے زمانے سے مشہور چلا آرہا ہے کہ کوئی بھی نیا تعینات ہونے والا افسر ڈیرہ غازی خان کی دور درازی کی وجہ سے روتا ہوا آتا ہے لیکن جب وہ یہاں پر بے انتہا اختیارات اور دیگر ذرائع سے دولت کے انبار دیکھتا ہے تو پھر وہ یہاں سے جانانہیں چاہتا ۔سابق ڈی پی او یہاں پر تین ماہ سے زائد عرصہ تعینات رہے لیکن اپنے پیچھے بے شمار سوالیہ نشان چھوڑ کر گئے یہاں کی ایک روایت ہے کہ جو بھی پولیس آفیسر یہاں سے تبدیل ہوتا ہے تو دوسرے دن اُس کے اعزاز میں ایک شاندار الوادعی تقریب منعقد کی جاتی ہے لیکن سابق ڈی پی او ررات کی تاریکی میں یہاں سے لاہور روانہ ہوگئے ان کے بارے میں یہاں پر کئی قسم کی افواہیں چل رہی ہیں ۔ ایرانی تیل کی سمگلنگ کو روکنے کے لیے کمشنر ڈاکٹر ناصر محمود اور ڈی سی شاہد زمان لک نے سخت انتظامات کیے ہوئے ہیں لیکن ایرانی تیل کو روکنے میں بلوچستان سے آنے والی سبزیاں اور فروٹ کے ٹرکوں کو بھی روکا جا رہا ہے جو کسی صورت صحیح نہیں ہے اس بارے میں انتظامیہ کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہیے تا کہ سبزیوں اور پھلوں کے ٹرکوں کو نہ روکا جائے اور نہ ہی تنگ کیا جائے۔ اصل میں اگر ایرانی تیل کے ٹرکوں کو بارڈر پر ہی روک لیا جائے تو آگے یہ سلسلہ خود بخود رُک جائے گا۔ ڈیرہ غازی خان میں دوسرے جرائم بھی روز بروز بڑھ رہے ہیں سابق ڈی پی او کے دور سے لے کر ابتک موٹر سائیکل چوری اور ڈکیتوں کی وارداتوں میں زبردست اضافہ ہو چکا ہے۔ جبکہ گذشتہ روز پولیس سیکورٹی کی ناقص کارکردگی کیو جہ سے صبح 10 بجے ڈسٹرکٹ کورٹ کے احاطہ میں سیشن جج کے کمرہ عدالت کے سامنے پرانی دشمنی کے تنازعہ پر ایک 17 سالہ لڑکے نے دو افراد کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا اور پولیس کچھ بھی نہ کر سکی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یونس نامی قاتل پستول لے کر کیسے ڈسٹرکٹ کورٹ کے احاطہ میں داخل ہوا اور پھر پولیس کے سامنے فائرنگ کر کے دو نوجوانوں جلال اور رشید کو قتل کیا ، پولیس خاموشی تماشائی بنی رہی۔ یہاں تک کے قاتل نے پوری تسلی کے ساتھ قتل کرنے کے بعد سامنے کھڑے پولیس والوں کو اپناپستول پیش کر کے خودگرفتار ی دے دی۔ اس طرح کے تین واقعات پہلے بھی گزشتہ تین سالوں میں ڈسٹرکٹ کورٹ میں رونما ہو چکے ہیں۔ مرکزی گیٹ پر کھڑی پولیس کھڑی رہتی ہے اور قاتل ہر بار ڈسٹرکٹ کورٹ میں داخل ہو کر اپنے دشمنوں کو قتل کر دیتا ہے۔ ابھی تک نئے ڈی پی او ڈیرہ غازی خان تعینات نہیں ہو سکے، لہٰذا آر پی او سجاد حسن خان فوری متحرک ہو کر اپنے نا اہل پولیس اہلکاروں کے خلاف سخت ایکشن لیں اور ڈسڑکٹ کورٹ کے مرکزی گیٹ پر تعینات سیکورٹی اہلکاروں کو معطل کر کے تحقیقات کریں کہ آخر ایک 17 سالہ لڑکا کس طرح سے اسلحہ لے کر سیشن جج کی عدالت کے احاطہ میں داخل ہوا اور پھر سر عام فائرنگ کرتا رہا ۔پولیس نے اُسے کیوں نہ روکا ۔ اگر پولیس کے جوان ہمت کر کے لڑکے کو پکڑ لیتے یا پھر مرکزی گیٹ پر تلاشی لیتے تو یہ نا خوشگوار واقعہ پیش نہ آتا۔ ڈیرہ غازی خان میں اِس وقت جرائم بہت بڑھ چکے ہیں ہر دوسرے روز موٹر سائیکل چوری اور ڈکیتی کی وارداتیں ہو رہی ہیں اور پولیس افسران کو پرواہ تک نہیں ایک طرف حکومت روزانہ غریب عوام پر تیل بم ما ر رہی ہے اور دوسری طرف ڈاکو عوام کو لوٹ رہے ہیں۔ آئی جی پنجاب عثمان انور جو آئے روز سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے جوانوں کا حوصلہ بڑھاتے رہتے ہیں ذرا ڈیرہ غازی خان کی بھی خبر لیں اور یہاں کاخفیہ دورہ کریں کہ یہاں کے تھانوں میں کتنی زیادہ کرپشن بڑھ چکی ہے اور عوام کس طرح سے پولیس کے ہاتھوں ذلیل ہو رہے ہیں ۔