صوبائی وزیر توانائی ‘ ترقیات و منصوبہ بندی سید ناصر حسین شاہ کی زیر صدارت سندھ کول اتھارٹی کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں تھر کے کوئلے سے لیکوئڈ گیس اور کھاد بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ توانائی کی درآمد پر پاکستان اربوں ڈالر سالانہ خرچ کر رہا ہے ۔تھر میں 175ارب ٹن کوئلے کے ذخائر سے اگر حکومت موثر منصوبہ بندی کے تحت استفادہ کرے تو ملک کو توانائی ہی نہیں معاشی بحران سے بھی نجات مل سکتی ہے۔ یہ درست ہے کہ حکومت کو تھر کے کوئلے کی افادیت کا احساس ہے اور مناسب منصوبہ بندی بھی کی جا رہی ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومتی منصوبے بلا جواز تاخیرکا شکار ہو جاتے ہیں۔ تھر کول سے بجلی بنانے کا منصوبہ اس کی مثال ہے جو 2014ء میں شروع ہوا مگر مختلف وجوہ کی بنا پر تاخیر کا شکار اور متنازعہ ہوتا گیا ۔یہاں تک کہ 2023ء میں حکومت نے ایک بار منصوبے پر رفتار تیز کرنے کا فیصلہ کیا۔ اب سندھ حکومت تھر کے کوئلے سے گیس اور کھاد بنانے کا منصوبہ بنا رہی ہے جو یقیناً خوش آئند ہے مگر صرف منصوبے بنانے سے نہیں بلکہ ان پر ٹائم فریم کے مطابق عمل کر کے ہی ترقی ممکن ہو سکتی ہے۔ بہتر ہو گا حکومت تھر کے کوئلے سے بجلی اور گیس ،کھاد اور تیل بنانے کے اعلانات سے بڑھ کر عملی اقدامات کرے تاکہ تیل کھاد اور گیس کی درآمد پر خرچ ہونے والے اربوں ڈالر کی بچت ہو سکے۔