وزیر اعلیٰ سید محسن نقوی نے گزشتہ روز ملتان آکر کارڈیالوجی توسیعی منصوبے کا افتتاح کیا، یہ منصوبہ سالہا سال سے زیر التوا تھا، کارڈیالوجی توسیعی منصوبے کے افتتاح کا وسیب میں خیر مقدم کیا جا رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ کی آمد کے دوسرے دن عظیم روحانی پیشوا حضرت شاہ رکن عالم ؒ ملتانی کا710واں سالانہ تین روزہ عرس بھی شروع ہو گیا ہے، سندھ سمیت ملک بھر سے زائرین کی شریک ہو رہے ہیں ۔ وزیر اعلیٰ کی آمد اس موقع پر ہوتی اور ان کے ہاتھوں محکمہ اوقاف کی طرف سے عرس کی تقریبات کا آغاز ہوتا تو بہتر تھا۔ امسال عرس سادگی سے ہو رہا ہے کہ سجادہ نشین مخدوم شاہ محمود قریشی جیل میں قید ہیں، البتہ ان کے صاحبزادے زین قریشی نے مزار کو غسل دے کر عرس کی تقریبات کا آغاز کیا ہے۔ اگر حکومت مخدوم شاہ محمود قریشی کو پیرول پر رہائی دے کر عرس کی تقریبات میں شرکت کی اجازت دے تو یہ عمل افہام و تفہیم کی سیاست کے فروغ میں اہم کردار ادا کر سکتاہے۔ عرس کے موقع پر زائرین کی مشکلات بارے حکام بالا کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں ،سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ زائرین کے لیے رہائش اور ٹائلٹ کا کوئی انتظام نہیں ، جونہی عرس شروع ہوتا ہے تو گھنٹہ گھر اور دولت گیٹ کے آس پاس موجود تمام تعلیمی ادارے بند کرا دیئے جاتے ہیں اور وہاں زائرین کو بھیج دیا جاتا ہے۔ داتا دربار کی طرح زکریا کمپلیکس تعمیر کرنے اور قدیم لائبریری کو دوبارہ بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ عرس کے موقع پر ہم صاحب مزار کے حالات زندگی پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ قطب الاقطاب حضرت شاہ رکن الدین والعالم ملتانی ؒ نے ابتدائی تعلیم اپنے دادا معروف روحانی پیشوا حضرت بہاؤ الدین زکریا ؒملتانی کے مدرسہ بہائیہ میں حاصل کی جو کہ ایک بہت بڑی اقامتی یونیورسٹی کی حیثیت رکھتا تھا ۔ آپ شیخ صدر الدین عارف اور بی بی راستی المعروف بی بی پاک دامن ؒ کے فرزند تھے۔ آپ کی ولادت 1251ء جمعہ کے روز ہوئی، آپ کے فیوض و برکات کا تذکرہ تاریخی کتب میں موجود ہے۔ مدرسہ بہائیہ جو کہ بہت بڑی درس گاہ تھی ، یہاں پورے ہندوستان کے طلبہ کے علاوہ بنگال ، آسام ، انڈونیشیا، تاجکستان ، غزنی ، فارس، روس ، برما ، ترکی اور عرب سے طلبہ پڑھنے آتے تھے اور یہاں سرائیکی زبان کے علاوہ دنیا کی مختلف زبانوں کی تعلیم دی جاتی تھی ، ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مدرسے کو بحال کیا جائے اور حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی کے مزار سے ملحق جو قدیم پرہلاد مندر اور مدرسہ تھا کو بھی بحال ہونا چاہئے کہ پنجاب میں سابقہ حکومت نے لاہور اور آس پاس بہت سے قدیم گرد واروں کو بحال کیا ۔ اس لحاظ سے اسلام کے آنے سے پہلے ایک توحید پرست پرہلاد کی قدیم یادگار ہے کو بحال کرنے کا یہ فائدہ ہو گا کہ پوری دنیا سے لوگ اسے دیکھنے آئیں گے ۔ یہ مطالبہ بھی قطعی طور پر غلط نہیں ہے کہ قدیم قلعہ کہنہ قاسم باغ جو کہ اس خطے کا ورثہ ہے پر ناجائز تجاوزات ختم ہونی چاہئیں اور اس پر رکھی گئی ملتان کو قتل کرنے والی توپ اور دوسرے تجاوزات ختم کرنے کے ساتھ اس بات پر بھی غور ہونا چاہئے کہ قلعہ کہنہ قاسم باغ پر حملہ آور انگریزوں کی بڑی قبریں تو موجود ہیں مگر ان حملہ آوروں کا دھرتی کے جن لوگوں نے مقابلہ کیا ان کی قبروں کا کوئی نشان نہیں ۔ اس کا ایک نقصان یہ بھی ہو رہا ہے کہ کچھ ان پڑھ زائرین ان حملہ آور انگریز سامراج کی قبروں کے بوسے لے رہے ہوتے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے وطن کیلئے قربانی دینے والے مجاہدین کی یادگاریں تعمیر کی جائیں ۔ انگریزوں کی آمد سے پہلے کے نقشے میں نواب مظفر خان شہید کا مزارموجود ہے ، حملہ آور انگریزوں نے شدید بمباری کر کے نواب مظفر خان شہید کے مقبرے کو بھی مسمار کر دیا ، نواب مظفر خان شہید سرائیکی دھرتی کا ہیرو ہے ، ضرورت اس بات کی ہے کہ گھنٹہ گھر کی طرف سے آنے والے راستے پر دروازے کو تعمیر کیا جائے اور دولت گیٹ کی طرف سے بھی دروازہ تعمیر کیا جائے۔ سیاسی اور مالی اختلاف کو بالائے طاق رکھ کر بزرگان دین کے پیغام کو عام کرنے کیلئے اتحاد و اتفاق اور یکجہتی کا مظاہرہ ضروری ہے ۔ عرس پر آنے والے زائرین کے بہت سے مسائل اور مشکلات ہیں ، ان مشکلات کے حل کیلئے حکومت کو توجہ دینے کی ضرورت ہے ، محکمہ اوقاف نذرانے وصول کرتا ہے اور دربار کے سرکاری ملازم عقیدت مندوں پر دم کرتے ہیں مگر غریب ، بے وسیلہ اور محروم عقیدت مندوں کو دعا کے ساتھ ساتھ دوا کی بھی ضرورت ہے۔ ان کے دکھ ، تکلیف اور مشکلات کے ازالے کیلئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہمارے عمائدین جو ملک کی بہت بڑی سیاسی جماعتوں کے اہم عہدوں پر فائز ہیں ، وہ غربت کے خاتمے کیلئے کوئی نظریہ یا منشور دینے کی بجائے غریبوں کو صرف دلاسے دیتے رہے تو مسئلے کس طرح حل ہوں گے؟ ۔ وسیب کے لوگوں کو خطے کی شناخت صوبے اور حقوق کی ضرورت ہے۔ پیران عظام باہر نکل کر اپنے وطن وسیب کی بہتری کیلئے کام کریں تاکہ غریبوں کو تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع حاصل ہو سکیں اور ان کی صدیوں کی محرومی کا خاتمہ ہو سکے۔ آج عرس کے موقع پر وسیب سے تعلق رکھنے والے حکومتی اکابرین سے کہتا ہوں کہ ملتان کی عظمت رفتہ کو ایک بار پھر سے بحال کرنے کی ضرورت ہے۔یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ملتان کو مدینۃ الاولیاء ہونے کا شرف حاصل ہے ، ملتان آج سے نہیں بلکہ ہزار ہا سال سے تہذیب و تمدن کا گہوارا چلا آ رہا ہے ۔ ملتان سے صوفیاء کرام نے ہمیشہ محبت و انسان دوستی کے زمزمے جاری کئے اور ہمیشہ قائدانہ کردار ادا کیا۔ ہمارے بزرگانِ دین نے اپنی دھرتی ، اپنی مٹی اور اپنے وسیب سے محبت کے ساتھ ساتھ خودداری کا درس بھی دیا۔ انہوں نے ہمیشہ محبت و اخوت اور انسان دوستی کا پیغام دیا ۔ آج نفسانفسی ، انتہا پسندی اور عدم برداشت کے دور میں صوفیاء کی فکر اور پیغام کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔