مفتی صاحب کے بعد شاہ زمان خان اور کامران خان بھی اس عہدہ پر برا جمان ہوئے۔ مگر رائے ریاض جب وارد دہلی ہوئے، تو بھارت اور پاکستان کے درمیان امن مساعی بھی عروج پر تھی۔ دونوں طرف وفود کا تانتا لگا رہتا تھا۔ پاکستان سے کبھی ایم کیو ایم کے فاروق ستار صاحب وفد لیکر آپہنچے ہیں،، تو کبھی پیپلز پارٹی سے مخدو م امین فہیم، تو کبھی پاکستانی خواتین ، ججوں، کھلاڑیوں، میڈیا یا اسکول کے بچوں کا گروپ وارد ہوا ہے۔ رائے ریاض پاکستانی میڈیا کیلئے کام کرنے والے ہم چھ صحافیوں کو کسی بھی وفد کی آمد کی پیشگی اطلاع دیتے تھے اور ان کے ساتھ ملاقات کا بندوبست بھی کرواتے تھے۔ وفد چاہئے حکومتی ہو یا اپویشن وہ دونوں کے ساتھ ہماری ملاقات کرواتے تھے، اور بھارتی میڈیا کیلئے کام کرنے والے چندصحافیوں کو بھی بلاتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ بیرون ملک وہ پاکستان کے ترجمان یا پریس آفیسر ہیں، نہ کہ صرف ہائی کمیشن یا حکومت کے۔ ہاں ، جب وفد اپوزیشن کا ہوتا تھا، تو وہ خود پس منظر میں رہتے تھے۔ انڈس واٹر کمیشن کی بھی ان دنوں آئے دن میٹنگیں ہوتی رہتی تھیں۔ اس لئے میٹنگیں ختم ہونے کے بعد وہ انڈس واٹر کیشن کے سربراہ سید جماعت علی شاہ سے بھی ملاقاتیں طے کرواتے تھے۔ چونکہ جامع مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری تھا، اس لئے اس دوران پاکستان کے وفاقی سیکرٹری حضرات جو ان میں شرکت کرنے لئے آتے تھے، کے ساتھ ملاقاتوں کا اہتمام کرکے رائے ریاض کی وساطت سے خاصی بیک گراونڈ انفارمیشن حاصل ہوتی تھی ۔ تعلقات کی باریکیوں اور ایشوز کا علم جو اس زمانے میں حاصل ہوا ہے، وہ ابھی بھی وقتا فوقتاًکام آتا رہتاہے۔ نئی دہلی میں کام کرنے والے صحافی کیلئے اسی سطح کی رسائی سے اطلاعات کا حصول ناممکن تھا، جو رائے ریاض نے ممکن بنادیا۔ رائے ریاض جب دہلی آئے، تو مرحوم منور بھٹی بطور ڈپٹی ہائی کمشنر تعینات تھے۔ ان دونوں کی جوڑی مثالی تھی۔ انہوں نے پندرہ دن میں ایک بار پاکستانی میڈیا کیلئے کام کرنے والے صحافیوں کیلئے بیک گراونڈ بریفنگ کا سلسلہ شروع کرادیا۔ اس سے بھارت اور پاکستان کے درمیان معاملات اور پیش رفت سے خاصی آگاہی ملتی تھی۔ اگر پاکستان سے کوئی سفارت کار یا سیکرٹری دورہ پر ہوتا تھا، تو وہ بھی موجود ہوتا تھا۔ منور بھٹی کے جانے کے بعد رائے ریاض نے نئے ڈپٹی ہائی کمشنر افراسیاب ہاشمی کو اس بریفنگ کو جاری رکھنے پر آمادہ کروالیا تھا، مگر ان کے جانے کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوگیا اور اسی دوران میرا تعلق بھی پاکستانی میڈیا ادارے سے ختم ہو گیا تھا۔ خیر رائے ریاض کی کتاب رائے عامہ میں شہاب نامہ کی طرح کئی دلچسپ واقعات درج ہیں۔ کس طرح صدر پرویز مشرف ڈاکٹر اے کیو خان کو امریکہ کے حوالے کرنے پر بضد تھے، اور کس طرح وزیر اعظم جمالی نے اس میں ٹانگ اڑائی؟ اس کتاب کے مطابق صدر اور وزیر اعظم کے درمیان اختلافات اور وسیع تب ہوگئے، جب مشرف نے امریکہ کو خوش کرنے کیلئے عراق میں فوجیں بھیجنے کا فیصلہ کیا، جسکو جمالی نے فوراً مسترد کر دیا۔مجھے یاد آتا ہے کہ انہی دنوں دہلی میں بھی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی بھی عراق میں امریکی افواج کی معاونت کے سلسلے میں خاصے دباوٗ میں تھے۔ اسی دوران کمیونسٹ پارٹی کا ایک وفد ہرکشن سنگھ سرجیت کی سربراہی میں ان سے ملاقی ہوا اور فوجیں بھیجنے کے متوقعہ فیصلہ پر احتجاج کرکے ایک میمورنڈم واجپائی کو سونپ دیا۔ واجپائی نے مسکراتے ہوئے وفد کو بتایا کہ ’’آجکل بائیں بازو والے بھی کانگریس کی طرز پر ڈرائینگ رومز میں ہی احتجاجی بیانات داغتے ہیں۔‘‘ بس یہ اشارہ تھا۔ اگلے روز سے ہی کئی شہروں میں سڑکوں پر امریکہ کے عراق پر حملہ اور بھارتی فوج بھیجنے کے متوقعہ فیصلہ کے خلاف احتجاج شروع ہوگئے۔ واجپائی نے پارلیمنٹ میںبیان دیا کہ عوامی رائے عامہ کے پیش نظر ، بھارت کا عراق میں فوج بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ انہوں نے امریکہ سے بھی معذرت کی۔ سری لنکا میں پوسٹنگ کے دوران رائے ریاض نے پاکستان سے پھل منگوانے اور اس ملک کو پاکستانی فروٹ تاجران کیلئے کھولنے کی سعی کی۔ اس سلسلے میں کولمبو میں مینگو فیسٹیول منعقد کروایا۔ مگر کراچی سے آنے والے آم انتہائی بد مزہ، خراب اور کٹھے نکلے۔ اسی طرح پاکستان کے مہربانوں نے خربوزوں میں ہیروئن ڈال کر بھیج دی، جو ائیرپورٹ پر پکڑی گئی۔ یعنی اس مارکیٹ کے حصول سے قبل ہی یہ ہاتھ سے نکل گئی۔ میڈیا میں خبر آئی، کہ پاکستانی خربوزہ کی قیمت دس لاکھ ڈالر۔یہ اس ہیروین کی بین الاقوامی قیمت تھی۔ اسی کے ساتھ پاکستانیوں کی بغیر ویزا کے انٹری بھی بند ہوگئی۔ رائے ریاض نے دہلی میں قائد اعظم محمد علی جناح کے مکان کا ذکر کیا ہے، جو انہوں نے پاکستان جانے سے قبل ٹائمز آف انڈیاکے مالک رام کرشن ڈالمیا کو بیچا تھا۔ مگر انہوں نے لکھا ہے کہ مہاتما گاندھی بھنگیوں کے محلہ میں رہتے تھے۔ گاندھی کا دہلی میں قیام کچھ زیا دہ نہیں رہا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ دورہ کے دوران وہ کسی بھنگی محلہ میں جاتے ہونگے۔ دہلی میں 1930سے قبل وہ دریا گنج میں ڈاکٹر ایم ایم انصاری کے مکان پر ٹھہرتے تھے۔ پھر جناح ہائوس سے چند میٹر دور ی پر برلا ہاوس ا ن کی رہائش کیلئے وقف کی گئی تھی۔ جناح ہائوس میں اس وقت نیدر لینڈ کے سفیر رہتے ہیں اور برلا ہائوس میں اب گاندھی میوزیم ہے۔ اسی جگہ پر گاندھی کو ہلاک کردیا گیا تھا۔ جب ڈالمیا نے جناح ہاوس کا قبضہ لیا، تو بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے پہلے اس پورے بنگلہ کو کو گائے کے پیشاب سے دھویا اور پھر ٹینکروں میں دریائے گنگا سے پانی منگوا کر اس کو صاف کیا۔ مگر وہ پھر بھی اس مکان میں شفٹ نہیں کرپائے اور اس کو کرایہ پر اٹھادیا۔ رائے ریاض صاحب نے کتاب میں پاکستانی پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا بھی ذکر کیا ہے، جوویسے تو اکثر دہلی وارد ہو تے تھے۔ جمعیتہ العلماء ہند ان کی میزبانی کرتے تھے۔ میرا بھی ان سے واسط پہلی بار 1995میں ہی پڑا ہے۔ 4 جولائی 1995 کو کشمیر کے ضلع اننت ناگ میں پہلگام کے لدروت علاقے سے چھ مغربی سیاحوں اور ان کے دو گائیڈز کو ایک غیر معروف تنظیم الفاران نے اغوا کر لیا۔ 22 یا 23جولائی کے آس پاس حریت لیڈر مرحوم سید علی گیلانی دہلی آئے ہوئے تھے اور چانکیہ پوری میں واقع کشمیر ہاوس میں ٹھہرے تھے۔ ان کے قیام کے دوران ہی اس اغوا کے بارے میں میڈیا میں رپورٹ آئی۔ اس کارروائی کے حوالے سے وہ خاصے جزبجز تھے۔فلسطین کے برعکس کشمیر کے حوالے سے مغربی دنیا میں ایک روایتی سافٹ کارنر ہوتا تھا۔ ایک دن میری چھٹی تھی، کہ میں ان سے ملنے کشمیر ہاوس پہنچا تھا، وہ اغوا کی اس واردات کے حوالے سے تاسف کا اظہار کر رہے تھے۔ (جاری ہے)