اقوام ِ متحدہ مخصوص دنوں، ہفتوں، مہینوں، سالوں اور دہائیوں کو خاص واقعات اور موضوعات کو تازہ رکھنے یا فروغ دینے کے لیے، مختلف عنوانات اور تھیم کے ساتھ،انکو بین الاقوامی سطح پر منانے کا شیڈول جاری کرتا ہے، جس کا مقصد اس حوالے سے لوگوں میں بیداری بڑھانے اور عامۃ الناس کو متوجہ کرنا ہوتا ہے۔ اسی تسلسل میں، گزشتہ دنوں عربی زبان کا عالمی دن بھی منایا گیا، جس میں عربی زبان و ادب کی اہمیت و افادیت کا اظہار اور اس بابت عالمی سطح پر آگہی مطلوب تھی۔ ہمارے ہاں اس سلسلے میں کوئی خاص سرگرمی دیکھنے اور سننے کو میسر نہ آئی ماسوائے ڈاکٹر سیدمظہر معین کے، جو پنجاب یونیورسٹی شعبہ عربی کے صدر نشین اور یونیورسٹی اورینٹئل کالج کے پرنسپل کے طور پر گراں قدر خدمات کے حامل اور ان دنوں ادارہ ثقافت اسلامیہ کے سربراہ ہیں، ڈاکٹر صاحب موصوف اس حوالے سے مضبوط اور جامع ایجنڈا کے حامل اور ایک مشنری جذبے کے ساتھ ہمیشہ سرگرمِ عمل رہے۔ ہمارے اس عہد میں استاد ِکبیر ڈاکٹر ظہوراحمد اظہر کی حیثیت عرب دنیا میں بھی مسلمہ رہی، جبکہ ڈاکٹر خورشید رضوی بھی معتبر نام و مقام رکھتے ہیں۔ انسانی زندگی میں اتفاقات کو بڑادخل ہے،اور بعض حادثات وواقعات، حیات کے دھارے کا رخ تبدیل کردیتے ہیں، کالم نگار ابتدائی طور پر عربی زبان و ادب کا طالب علم نہ تھا اور نہ ہی دینی درسیات کی تحصیل کا باقاعدہ اعزاز پاسکا۔ پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے اسلامک سٹڈیز کے فائنل امتحان سے جولائی 1988ء میں فراغت پاکر، یونیورسٹی کے طویل مطالعاتی و سیاحتی ٹور پر شمالی علاقہ جات میں سرگرم ِسفر تھا، کہ یونیورسٹی کے سپورٹس ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے ایک اور ماسٹر پروگرام میں داخلے کی نوید یونیورسٹی ہاکی ٹیم کے سینئر ممبر کے طور پر میسر ہوئی۔ طالب علمی کے اس دور میں یونیورسٹی سے منسلک رہنے کا یہ موقع کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہ تھا، اس لیے کہ یہاں تو داخلے کاا ستحقاق صرف فریش گرایجوایٹس کو ہی میسر آتا ہے۔ چنانچہ نیوکیمپس میں قیام اور یونیورسٹی اورینٹئل کالج میں تدریس کے اہتمام کے دوران استادِ کبیر ڈاکٹر ظہور احمد اظہر کی مصاحبت اور ڈاکٹر خالقداد ملک اور ڈاکٹر سید قمر علی زیدی کی رفاقت میسر آئی۔ جو ازاں بعد، ڈاکٹریٹ پروگرام کی بنیاد بنی۔ چنانچہ انہی ایام میں پی ایچ ڈی کے لیے موضوعات اور تحقیقی وتفحص کے لیے مختلف عنوانات کاجائزہ شروع ہوگیا اور بطور ریسرچ سکالر یونیورسٹی نیوکیمپس میں قیام کے پھیلاؤ کا لطف میسر رہا اور یوں دسمبر1996ء میں اپنا پی ایچ ڈی تھیسز، شعبہ امتحانات میں جمع کرواکے،1997ء میں نیوکیمپس کے دلکش و دلافروز ماحول کو خیرباد کہا۔ راقم کو یہ بھی اعزاز میسر ہوا کہ پنجاب یونیورسٹی کے کانووکیشن منعقدہ جنوری 1999ء ، جس میں وزیر اعظم پاکستان اور گورنر پنجاب تشریف فرما ہوئے، سے اپنے بعض اساتذہ کے ساتھ اپنی پی ایچ ڈی کی ڈگری وصول کی، اور یہ اعزاز پانے والا ایک کم عمر ترین طالبعلم تھا۔ بہرحال------- قارئین کو اس پر تشویش ہوگی کہ عربی کا اوّلیں حوالہ تو ہماری اسلامی اور دینی زبان کا ہے، تو اقوامِ متحدہ کو اس طرف اتنی توجہ کی کیا ضرورت پیش آگئی۔ تو اس پر زیادہ حیر ت زدہ ہونے کی ضرورت نہیں، مستشرقین کے ایک نمائندہ گروہ نے اسلامی علوم و معارف پر طبع آزمائی کرنے کے لیے، ابتداً عر بی زبان میں خوب مہارت حاصل کی۔ بلکہ ہمارے ہاں نصف صدی قبل جب طالعلم عربی آنرز کرتے تو عربی ادب پر سب سے زیادہ جامع، معتبر اور متداول کتاب آر۔اے۔ نکلس کی انگریزی تصنیف "A Litrary History of the Arabs" جانی جاتی تھی، جس میں، انہوں نے یقینا اختصار کو مد نظر رکھا۔ اسی طرح ایچ آر گب"Arabic Litrature, An Introduction" جس کا ترجمہ "مقدمہ تاریخ ادبیات عربی" کے نام سے میسر ہے۔ جس کا آغاز مصنف نے ان الفاظ کے ساتھ کیا: "Arabic litrature is the enduring monoment of a civilization not of a peaple. Its contributors were men of the most varied ethnic organis.." یہ الفاظ عربی اور عربی ادب کے غیر معمولی پھیلاؤ اور وسعت پر ایک اور ینٹئلسٹ کا بلیغ اور جامع تبصرہ ہے۔ جدید محققین نے دنیا بھر کی قوموں اور زبانوں کو جن مختلف زمروں میں تقسیم کیا ہے، ان میں عرب قوم کو " اقوامِ سامیہ " ( (The semite ." اور عربی زبان کو "السنہ سامیہ"(Semitic Languages) میں شمار کیا ہے۔ یہ اصطلاح بنیادی طور پر حضرت نوح ؑ کے تین بیٹوں سا م، حام اور یافث، جو طوفانِ نو ح کے بعد تمام اقوامِ عالم کے مورثِ اعلیٰ قرار پائے،سے نسبت کی حامل ھے۔ اقوامِ سامیہ، سام کی نسل سے معروف ہوئیں، جن میں عرب بطور خاص معتبر ہوئے۔ اس ضمن میں اشوری، بابلی، آرامی، عبرانی، فینیقی اورحبشی بھی شامل جا نے جاتے ھیں، گویا عرب قوم سامی اقوام کی اور عربی زبان سامی زبانوں کی بہترین نمائندہ ہے۔ اس کا ایک سبب تویہ ہے کہ عرب کے جغرافیائی ماحول میں یک رنگی کی کیفیت پائی جاتی ہے، جس میں تغیرو تبدل کی رفتار ازحد سست اور نسلی خصائص کا زیادہ دیر تک خالص حالت میں باقی رہنا زیادہ ممکن تھا اور دوسرے اس پہلو سے کہ اسلام کی بدولت عرب اپنی روایات کو دور دور تک پھیلاسکے اور دنیا کے ایک بڑے حصے پر ان کی ثقافت کی مہر ثبت ہوسکے۔ یہ سعادت کسی اور سامی قوم کے حصے میں نہ آسکی۔ دوسری سامی اقوام کا چھوڑا ہوا وِرثہ قلیل اور مبہم ہے۔ جس سے ان اقوام کے بارے میں کوئی جیتا جاگتا تصور قائم کرنا دشوار اور قدرے مشکل ہے۔ گویا سامی زبانو ن میں، اگر صحیح معنوں میں کسی زبان کا چلن تسلسل کے ساتھ باقی رہا تو وہ صرف اور صرف عربی ہی ہے۔ حبشی (Ethiopian)صرف حبشہ کی کلیسائی زبان کے طور پر زندہ ہے۔ آرامی (Aramaeen) کے چند بچے کھچے لہجے دمشق وغیرہ کے بعض دیہات میں تازہ ہیں۔ عبرانی (Hebrew)ایک خفتہ زبان کی حیثیت سے یہودیوں کے مذہبی وعلمی حلقوں میں نسلاً بعد نسلٍ منتقل ہوتی چلی گئی، حتی کہ دورِ جد ید میں اسے ازسر نو زندہ کرنے کا اہتمام کیا گیا۔ الغرض عربی زبان کے دامن میں جس قدر عظیم الشان مذہبی، علمی، ادبی اور تہذہبی ذخیرہ موجود ہے اور جتنی دور دور کی سرزمینوں میں، جس وسیع پیمانے پر اس کا چلن آج تک باقی ہے کسی اور سامی زبان کو اسکا عشرِ عشیر بھی نصیب نہ ہوسکا۔ عربی زبان کا اصل مسکن جزیرہ نمائے عرب، جس میں سعودی عرب کے علاوہ یمن،عمان،قطر، بحرین، کویت اور متحدہ عرب امارات ہیں۔"عرب"کانام لیتے ہی شدت کی گرمی اور تصور ذہن میں آتا ہے، جو کہ غلط بھی نہ ہے، بلاشبہ عرب کے صحرا دنیا کے گرم ترین مقامات میں سے ہیں۔چنانچہ دھوپ کی شدت سے بچنے کے لیے عرب کے بدو اور ان کے کاررواں رات کا انتخاب کرتے۔ صحرا کی گرم لْو، جسے "سَموْم" کہا جاتا، ایسی قاتل ہوتی کہ اس کے سامنے ٹھہرنا ممکن نہ ہوتا، بحراحمراور خلیج فارس کے ساحلی علاقوں مثلاً جدہ اور مسقط وغیرہ میں گرمی اور حبس کی صورتحال ازحد پریشان کن ہوتی، گوکہ عرب کے بعض علاقوں جن میں مکہ مکرمہ بھی شامل ہے، میں آب و ہوا گرم مگر طائف سمیت بعض علاقوں میں آب وہوا سال بھر صحت بخش اور خوشگوار رہتی۔ سردیوں میں شمالی نجد میں کْہر اور دْھند عام ہوتی، صحرا کی زمستانی راتیں سخت یخ بستہ --- اور ریت جتنی جلدی گرم اتنی تیزی سے ٹھنڈی اور شمال کی طرف سے آ نے والی ہوا حد درجہ سرد ہوتی۔ سرزمین عرب قدیم ترین زمانوں سے ایک اہم تجارتی ریگزار بھی ہے۔ پہلے پہل جب یہاں اہل یمن عروج پر تھے تو وہ عنان ِ تجارت پر قابض تھے، ازاں بعد جب ان پر زوال آیا تو تجارت اہلِ حجاز کے حصے میں آگئی۔ مکہ یمن سے شام کو جانے والی تجارتی شاہراہ کے تقریباً وسط میں واقع تھا اور چاہِ زمزم کے سبب یہ ایک اہم تجارتی پڑاؤبن گیا۔