جنرل مشرف آرمی چیف بنے توہم جیسے اکثر نوجوان افسر اُن کے نام تک سے واقف نہیں تھے۔خود اُن کا اپنا خیال بھی یہی تھا کہ انہیں آرمی چیف بنائے جانے کی بڑی وجہ اُن کا اردو سپیکنگ ہونے کی بناء پر کسی طاقتور لسانی یا قبائلی پشت پناہی سے محروم ہونا تھا۔ جنرل مشرف نے عہدہ سنبھالا تو بتایا جاتا ہے کہ وہ وزیرِ اعظم کے لئے کچھ کرنے کو بے چین رہتے۔ جنرل مشرف کے دور میں فوج نے نہروںمیں بھل صفائی کا کام کیا۔ مہینوں مردم شماری کی منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد میں صرف کئے۔ گھوسٹ سکولوں کو ڈھونڈا۔ واپڈا کے لئے میٹر ریڈنگ کی۔ سندھ کے شہری علاقوں میںمنظم متشددگروہوں کے خلاف جنگ لڑنے کے ساتھ ساتھ خطرناک دہشت گردوں کو سزائیں سنانے میں عدلیہ کی ناکامی کے پیش ِ نظر اُن کے خلاف مقدمات چلانے کی ذمہ داری بھی فوج نے خود اپنے سر لے لی۔ جنرل مشرف نے تو یہ تک دعویٰ کیا کہ سری لنکا سے پاکستان پرواز کے دوران بھی وہ ان معاملات کی فہرست بناتے رہے کہ جن میں وہ حکومتِ وقت کا ہاتھ بٹا سکتے ہوں۔ تعاون پر آمادہ آرمی چیف ہونے کے باوجودجنرل مشرف نے مگر خفیہ سفارت کاری کے نتیجے میں بھارتی وزیرِ اعظم کی لاہور آمد پر استقبالیہ قطار میں کھڑے ہونے کی بجائے گورنر ہائوس میں ہی اُن کے ساتھ ملاقات کو ترجیح دی۔سول ملٹری تعلقات میں تنائو کا سبب اگرچہ کارگل ہی بنا۔کارگل کا آغاز کیسے ہوا ؟ سرحدی پوسٹوں پر معمول کی ایڈجسٹمنٹ پھیلتے پھیلتے کیسے وہاں کے مقامی فارمیشن کمانڈر کے خام تزویراتی عزائم میں بدل گئی، کیسے سردیوں میں خالی کی جانے والی چو ٹیوں پر قبضہ جمانے کا فیصلہ ہوا، کیسے ابتداء میں ’فاتح کشمیر‘ بننے کے خواب دیکھے گئے، اور جب ہاتھ پائوں پھولے توکیسے معاملات سے لاعلمی کا اعلان کیا گیا؟ اِن اور اِن جیسے کئی معاملات پر اب تک بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔کارگل جنگ کے اسباب اور نتائج کے باب میں اب بہت کم ابہام پایا جاتا ہے۔ متضاد دعوے بہرحال کئے جاتے رہیں گے۔ جنرل مشرف ، جنرل آصف نواز کی طرح اُن سپہ سالاروں میں شامل تھے، بطور ’لیڈر‘ اپنے ماتحتوں بالخصوص نوجوان افسروں کو جو انسپائر کرتے تھے۔ دونوں سے متعلق اسپرٹ ڈی کور کے مصالحے سے لبریز کہانیاں ہم نوجوان افسروں میں لوک داستانوں کی طرح گردش کرتیں۔ دونوں کو ایک خاندان کی طرف سے خریدنے کی کوششوں میں بھی مماثلت دیکھی گئی۔ دونوں اپنے دو ٹوک طرز تکلم کے ساتھ ساتھ ماتحتوں ،بالخصوص نوجوان افسروں کے ساتھ بے تکلفانہ طرز عمل کے لئے بھی جانے جاتے تھے۔کارگل میں جنگ بندی کے فوراََ بعد جب آرمی چیف مختلف چھائونیوں کے دورے کر رہے تھے تو سیالکوٹ بھی آئے۔ خطاب اور سوالات و جوابات کے سیشن کے بعد لان میں چائے پر وہ کافی دیر تک ہم نوجوان افسروں سے گفتگو اور ہمارے سولات کے بے تکلفانہ جوابات دیتے رہے۔بھارتی میڈیا کی جانب سے پاک فوج کے خلاف عالمی سطح پر منظم مہم کے مقابلے میں حکومت ِ پاکستان اور سرکاری ٹی وی کے معذرت خواہانہ طرزِ عمل کی نشاندہی کی گئی تو پاکستان میں پرائیویٹ ٹی وی چینلزکے قیام کی اہمیت پر پہلی بار ہم نے وہیں ان کے منہ سے سنا۔آج دائیں بائیں کی ہانکتے، ’بے باک صحافی‘کبھی کہتے تھے کہ میڈیا کی آزادی انہوں نے فوجی آمر سے چھین کر لی تھی۔ جنرل مشرف نے اقتدار سنبھالا تو چند ہی ماہ میں انکی مقبولیت بامِ عروج کو چھونے لگی۔اس کے پیچھے بنیادی طور پر معیشت کی بحالی اور کرپش کی بیخ کنی جیسے ان کے وعدے تھے۔ جنرل مشرف کی خارجہ پالیسی پر دو سے زیادہ آراء پائی جاتی ہیں۔امریکی جنگ میں شمولیت کے ان کے فیصلے پر بہت تنقید کی جاتی ہے۔ تاہم یہ بتانا مشکل ہے کہ ان کی جگہ پر کوئی اور ہوتا تو وہ کیا لائحہ عمل اختیار کرتا۔تاہم اقتدار کو طول دیئے جانے اور معیشت کی بحالی کی خاطر امریکہ پراُن کا کلی انحصار ہی بالآخر ان کے زوال کا سبب بنا۔ کرپٹ ٹولے کے ساتھ بیرونی یا اندرونی دبائو کی بناء پر معاملہ آرائی (Deals)واُن کی وہ بھیانک غلطیاں کہا جا سکتا ہے کہ جس کے نتائج ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ جنرل مشرف کی قیادت میں افواجِ پاکستان نے یکسو ہو کر ایک بے چہرہ دشمن کے خلاف بے جگری کے ساتھ جنگ لڑی۔بے حساب امریکی پشت پناہی کے باوجود جنگ میں پانسہ مگر صرف اسی وقت پلٹنا شروع ہواجب عام پاکستانی اپنی افواج کی پشت پر کھڑے ہونے لگے۔ سال 2013ء میں نئی حکومت قائم ہوئی تو ادارے کو تضحیک کے ذریعے دبائو میں لانے کے لئے متعدد ہتھکنڈوں کے ساتھ ساتھ جنرل مشرف پر بغاوت کا مقدمہ چلانے کا شوشا بھی چھوڑا گیا۔ ادارے کے اندر اور باہر ، اس حکومتی طرزِ عمل پر شدید بے چینی پیدا ہوئی۔ ادارے کو بالآخر اندرونی دبائو کے تحت اپنا کردار ادا کرنا پڑا۔ اس دور میں کہ جب عالمی اسٹیبلشمنٹ کے مقامی کارندوں کی ادارے کے خلاف کارروائیاں عروج پر تھیں، ایک غیر متوازن عدالتی فیصلے کے ذریعے بیرون ملک مقیم جنرل مشرف کوایک وحشیانہ سزا سنادی گئی۔ادارے کے اندر اور باہر رد عمل ایک بار پھر فطری طور پر شدید تھا۔ اس معاملے پر مزید کارروائی جب کہ سرد خانے میں رہی،جنرل مشرف دنیائے رنگ وبو سے بے نیاز ہو گئے۔ حالیہ دنوں میں جہاں دیگر کئی اہم معاملات پر درخواستیں شنوائی کی منتظر پڑی ہیں،تاثر ابھر رہا ہے کہ بھٹو کیس ، فیض آباد دھرنا کیس اور جسٹس شوکت عزیز سمیت جنرل مشرف کی سزا پر اپیلوں جیسے ایک خاص نوعیت کے مقدمات پر ترجیحاََکارروائی ہو رہی ہے۔ براہِ راست نشریات کے نتیجے میں جولاتعداد ویڈیو کلپس سوشل میڈیا پر زیرِ گردش ہیں، ان کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ جنرل مشرف مرحوم کے لواحقین کا بار بار یاد دہانیوں کے باوجود کاروائی کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ درست ہی تھا۔ جنرل مشرف کو سزائے موت کا حقدار قرار دے کر بظاہر جو ایک مثال قائم کی گئی ہے،چند نام نہاد’ جمہوریت پسندوں ‘کی جانب سے اُس کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔ تاہم حیران کن طور پر جنرل مشرف کے اپنے قبیلے کی طرف سے اس بار فیصلے پر کوئی ردعمل دیکھنے کو نہیں ملا۔سیاسی جماعتوں نے بھی بوجہ کسی خاص گرم جوشی کا اظہار نہیں کیا۔تاہم پیپلز پارٹی کے ایک سابقہ سینٹرصاحب کا خیال ہے کہ فیصلہ اُن دلوں میں دہشت طاری کرنے کے لئے کافی ہے کہ جن میں کبھی سیاسی مہم جوئی کا خیال بھی آسکتا ہو۔ فیصلے کو تاریخی اور جمہوری قوتوں کی فتح قرار دینے والے نام نہاد’جمہوریت پسندوں‘سے یہاںبلا وجہ اختلاف ممکن نہیں۔ تاہم کچھ بہروپیوں سے یہ تو پوچھاجا سکتا ہے کہ دورِ حاضر کی جمہوریت آج کہاں کھڑی ہے؟ کیا جنرل پرویز مشرف کے دورِ آمریت کے مقابلے میں اس کی حالت اب بہتر ہے یا کہ پہلے سے بھی ابتر ہے ؟