ماحولیاتی تبدیلیاںنا صرف انتہائی تیزی اور شدت سے رونما ہو رہی ہیں بلکہ نظام زندگی کو بھی اُسی شدت سے متاثر کر رہی ہیں ۔یہ تبدیلیاں اس قدر شدید ہیں کہ گذشتہ برس کے درجہ حرارت سے جُڑے ہوئے اعدادو شمار اسے تاریخ کا گرم ترین سال ثابت کر چکے ہیں ۔ گلوبل وارمنگ اس وقت گلوبل بوائلنگ بنتی جا رہی ہے اوریہ رجحان ایک بڑے پیمانے پر ماحولیاتی خطرات و خدشات کی جانب اشارہ کر رہا ہے ۔ چنانچہ گذشتہ دو تین دہائیوں سے دنیا بھر میں ماحول دوست اقدامات پر مناظروں، مکالموں اورمباحثوں میں نا صرف تیزی آئی ہے بلکہ دنیا بھر کی توجہ زیادہ سے زیادہ ماحول دوست عوامل اور اقدامات میں ڈھل بھی رہی ہے۔ابھی تک اس امر پر تو اتفاق ممکن نہیں ہوا کہ تاریخ کے وسیع تر پھیلائو میں ماحولیاتی تبدیلی ایک حقیقت ہے یا نہیںمگر اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ ایک پائیدار مستقبل ، ماحول دوست اقدامات کے بغیرممکن نہیںہے ۔ ماحول دوست اقدامات کی فہرست تو بے حدطویل ہے مگریہاں ہم ان اقدامات کا احاطہ اور تجزیہ فقط انتخابی عمل کے حوالے سے کر رہے ہیں۔ماحول دوست اقدامات کے حوالے سے دنیا بھر میں انتخابی طریقہ کار میں جو تبدیلیاں میںرونما ہوئی ہیں ، اُن میں الیکٹرانک طریقہ انتخاب سرِفہرست ہے ۔ الیکٹرانک انتخابی طریقہ کارکا حقیقی پھیلائو دراصل 20ویں صدی کے اوآخر اور 21ویں صدی کے اوائل میںہوا،جب متعدد ممالک کی جانب سے اسے وسیع پیمانے پر اختیار کیا گیا۔اس ضمن میں برازیل، کینیڈا اور آسٹریلیا جیسے کئی ممالک نمایاںہیں جو بڑے پیمانے پر الیکٹرانک ووٹنگ کو اپنانے میں پیش پیش تھے۔ مثال کے طور پر، برازیل نے 1996 کے میونسپل انتخابات میں اپنا پہلا الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم لاگو کیا، بعدازاں آہستہ آہستہ ملک بھر میں اس کے استعمال کو بڑھادیا گیا۔ اسی طرح، کینیڈا نے 20ویں صدی کے آخر میں بلدیاتی انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ کواپنایا، ناصرف اپنایا بلکہ اس کے دائرہ کار اور کارکردگی کو بڑھانے کے لیے ٹیلی فون اور انٹرنیٹ ووٹنگ جیسے زرائع کو بھی اختیار کیا ۔تاہم، یہ ہندوستان ہی تھا جس نے الیکٹرانک ووٹنگ کے عالمی منظر نامے پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ انڈیا کی ان کاوشوں کے عروج کا مشاہدہ 1999 میں کیاگیا جب لوک سبھا انتخابات کے دوران ای وی ایم کا استعمال محدود پیمانے پر کیا گیا۔لیکن صر ف پانچ برس کے مختصر عرصہ میں ہی ای وی ایم ملک بھر میں ووٹنگ کا بنیادی طریقہ کاربن گیا۔ہندوستان کی طرف سے ای وی ایم کواتنے وسیع پیمانے پر اپنانے نے دیگر ممالک کوبھی اس جانب راغب کیا، خاص طور پر ترقی پذیر افریقی ممالک نے انڈیا کی رہنمائی اور تعاون کی بدولت الیکٹرانک ووٹنگ کے کامیاب تجربے کئے۔ نمیبیا، بھوٹان اور نیپال تو ہندوستان کی تیار کردہ ای وی ایم ہی استعمال کررہے ہیں۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ آخر الیکٹرانک طریقہ انتخاب پر منتقلی ماحولیاتی بہتری کے لئے کس طرح سے معاون ہے ۔تو اس کا واضح جواب یہ ہے کہ روائتی طریقہ انتخاب میں رائے کا اظہار بیلٹ پیپرز کے زریعے کیا جاتا ہے جبکہ بیلٹ پیپرز کی تیاری کے لئے درکار خام مال درختوںسے حاصل کیا جاتا ہے ۔ مختلف تحقیقات کے نتائج اس بات پر مہر تصدیق ثابت کر چکے ہیں کہ ایک ٹن کاغذ کی تیاری کے لئے ایسے 24درخت درکار ہوتے ہیں جن کا قطر 6سے 8انچ جبکہ قد یا لمبائی 40فُٹ ہو ۔ چنانچہ بیلٹ پیپرز کی تیاری کے لئے بڑے پیمانے پر درخت درکار ہوتے ہیں ۔جس کا واضح مطلب ہے کہ ملکی سطح پر انتخابی عمل کئی ایک جنگلوں کی کٹائی کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوتا ہے ۔ درخت کئی ایک طرح کے ماحولیاتی فوائد بھی فراہم کر رہے ہو تے ہیں چنانچہ اتنے وسیع پیمانے پر درختوں کی کٹائی سے جنم لینے والے ماحولیاتی نقصانات ناصرف فوری طور پر محسوس کئے جاتے ہیں بلکہ ان کا دورانیہ کئی ایک برسوں پر محیط ہوتا ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو ہم آج بھی روایتی بیلٹ پیپر پر مبنی انتخابات پر انحصار کررہے ہیں۔الیکٹرانک طریقہ انتخاب پر منتقلی کے حوالے سے گذشتہ برسوں میں کافی تگ و دو دیکھنے میں آئی جو حقیقت کا روپ نہ دھار سکی ۔ دراصل پاکستان میںروایتی بیلٹ پیپر سے الیکٹرانک طریقہ انتخاب میں منتقلی کے حوالے سے پیش کئے جانیوالے بیانیے کی تمام تر توجہ اس طریقہ کی سہولت اور کارکردگی کے گرد گھومتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس ضمن میں جو پہلو مکمل طور پر نظر انداز ہوتا ہے ، وہ اس روایتی طریقہ کار سے جنم لینے والے ماحولیاتی اثرات وخدشات ہیں ۔ یہاں روایتی طریقہ کار کی وجہ سے پیدا ہونے والے ماحولیاتی نقصانات کا معاشی تخمینہ پیش کرنے جا رہے ہیں تاکہ اس غفلت کے مجموعی بوجھ کا اندازہ لگا یا جا سکے۔ رواں بر س فروری میں ہونیوالے عام انتخابات میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 12کروڑ 85لاکھ سے زائد تھی چنانچہ قومی اور صوبائی سطح پر ہونیوالے انتخابات کے لئے مجموعی طور پر 26کروڑ بیلٹ پیپرز تیارکئے گئے ۔ الیکشن کمیشن کے مطابق ان بیلٹ پیپر کی تیاری میں 2170ٹن کاغذ استعمال کیا گیا۔ اب اگرایک ٹن کاغذ کی تیاری کے لئے 24درخت درکار ہیں تو 2170ٹن کاغذ کی تیاری کے لئے درکار درختوں کی تعداد 52080بنتی ہے ۔ اور اگر ان درختوں کا قطر یا قدطے شدہ معیارسے کم ہے تو یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے ۔ پریشان کن امر یہ ہے کہ گذشتہ الیکشن (2018)کے مقابلہ میںموجودہ الیکشن کے لئے درکار کاغذمیں تقریباََ 171فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔گذشتہ الیکشن کیلئے 22کروڑ بیلٹ پیپر تیار کئے گئے تھے ،جس پر800ٹن کاغذ استعمال ہوا۔ بیلٹ پیپرز کی تعداد میں اضافہ تقریباََ 18 فیصد ہے ۔لیکن درکار کاغذ کے ضمن اتنا ہوشربا اضافہ دراصل موجودہ الیکشن کی دوڑ میں شریک اٹھارہ ہزار کے قریب نمائندوں کی وجہ سے ہے۔ چنانچہ ماحولیاتی مضمرات میں بھی اتناہی اضافہ دیکھنے میں آیا ۔ گذشتہ الیکشن کے لئے درکار کاغذ کیلئے 19200 درخت چاہیے تھے جن کی تعداد موجودہ الیکشن میں 52080 تک پہنچ گئی۔ (جاری ہے)