غم جو دل تک اتار سکتا ہے وقت ہنس کر گزار سکتا ہے سات رنگوں سے کھیلنے والا اک نیا رنگ ابھار سکتا ہے اساں مرن تو پہلاں مر گئے‘ باہو‘ تاں اس راز نوں پایا ہو۔ ہر کوئی رمز آشنا تھوڑی ہوتا ہے ۔خیال تو تسلسل میں آتے ہیں۔ زلف یا غریب کی قسمت‘ دوسرا کب سنوار سکتا ہے۔ ہر کسی سے جو خوف کھاتا ہے۔ وہ کسی کو بھی مار سکتا ہے۔ بس کسی وجہ سے وطن کی فضا سوگوار ہے۔ غلام محمد قاصر نے کہا تھا غم کی تشریح بہت مشکل تھی۔ ہم نے تصویر دکھا دی اپنی۔ ایشیائی بینک کے ساتھ ڈیڑھ ارب ڈالر قرض کا معاہدہ ہو چکا ہے۔ ہم بھی کمال ہیں کہ قرض پر نہال ہو جاتے ہیں اور پھر غالب کی طرح کہتے ہیں کہ قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں۔ رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن۔ لیکن حکمران تو سرخرو ہو جاتے ہیں۔ ان کی آل اولاد اسی قرض پر پل کر جوان ہوتی ہے۔ کمال یہ ہے کہ یہ یورپ میں عیدیں شبراتیں منانے والے اور خوشی کے نغمے گانے والے ہمارے پژ مردہ چہرے دکھا کر تو باہر سے قرض لیتے ہیں۔ باہر سے آنے والی خیرات بھی فخر سے لیتے ہیں مگر ان طفیلی لوگوں کی فلسفیانہ باتیں سنو۔ عالمی معیشت کو درپیش خطرات کی روک تھام اور نئی راہیں تلاش کرنے کے لیے نئی سوچ اور جرات مندانہ وژن کی ضرورت ہے۔ اس پر کوئی تالیاں پیٹے یا اپنے سرکو: دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے یہ بھی سچ ہے کہ عمران خان بھی تقریریں کر کے چلے گئے اور اب یہی تقریروں کا تسلسل ہے۔ پتہ نہیں یہ کس وژن کی بات کرتے ہیں۔ اپنے آقائوں کے حکم پر عوام کو مہنگائی کی بھٹی میں جھونک کر من منا رہے ہیں۔ حکمران خوش نہ ہوں ابھی سر سے بلا نہیں ٹلی۔ آپ جتنا مرضی جلتو جلالتو پڑھتے ہیں یہ ہم بچپن میں سنا کرتے تھے جلتو جلاتو آئی بلا ٹالتو۔ مزے کی بات یہ کہ اصل بلا تو کبھی کسی کو نظر نہیں آئی۔ ویسے یہ لوگ خود کون سا کسی بلا یا آفت سے کم ہیں۔ کسی نے سنا تھا کہ ان ناہنجاروں کے دور میں مٹر 350 روپے کلو ہوں گے۔ وہ مٹر جو امام دین کو بھی نہیں بھاتے تھے کہ اس نے کہا تھا تری ماں نے پکائے میٹر مام دین۔ تو وہ کوٹھے تے چڑھ کے اکڑ مام دینا۔ نان روٹی نان سٹاپ جا رہے ہیں۔ اکثر جگہ پر نان پچیس سے تیس روپے ہو چکا۔ اب کے مہنگا نان شریف خاندان کے باعث ہے۔ آج میں کچھ کچھ اداس بھی ہوں کہ سوشل میڈیا پر ہارون نے کچھ شعر ہی ایسے پوسٹ کئے ہیں۔ روشنی بن کے اندھیروں میں اتر جاتے ہیں۔ ہم وہی لوگ ہیں جو جاں سے گزر جاتے ہیں۔ ہمارے پیارے دوست اقتدار جاوید نے اقبال کا شعر بھیجا تو ہم سر سے پائوں تک سرشار ہو گئے۔ اقبال نے نظیری کے ایک مصرع کی خواہش کی ہے اور خیال کو ہم دوشثریا کر دیا ہے: بملک جم نہ دہم مصرع نظیری را کسے کہ کشتہ نہ شد از قبیلہ مانیست جمشید کی بادشاہی کے عوض بھی نظیری کا یہ مصرع نہیں دوں گا جو مارا نہ جائے وہ ہمارے قبیلہ سے نہیں۔ ایسے ہی رضی اختر شوق کا ایک لازوال شعر بھی یاد آ گیا: مزاج میرے قبیلے کا دھیان میں رکھنا کہ تیر سوچ سمجھ کر کمان میں رکھنا کیا کروں شعر لکھوں تو کئی شعر اترتے آتے ہیں: جو تنی تھی ہماری گردن تھی جو کٹا ہے وہ سر ہمارا ہے واقعتاً دلیری اور جرات بعض لوگوں میں ایسی ہوتی ہے کہ حیران کردیتی ہے۔ یاد آیا کہ سقراط نے لکھا تھا کہ ایک باد شاہ اپنے دوست کی مدد کو چلا تو گھوڑے پر سوار ہونے سے پہلے نجومیوں نے راستہ روک لیا کہ آپ اس جنگ سے واپس آتے نظر نہیں آتے۔ بادشاہ نے کہا درست مگر کوئی ایسی دوا بتائو کہ میں تاقیامت زندہ رہوں۔ نجومی بولے وہ تو کوئی نہیں۔ بادشاہ نے کہا کہ پھر تم مجھے دوست کی مدد سے کیوں روکتے ہو۔ واہ جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا وہ شان سلامت رہتی ہے۔ لیجئے ایک اور شعر ہمیں واجد امیر نے بھیجا ہے۔ اقبال ساجد کا۔ کیا دور تھا جب ہم ان سے اورنٹل کالج کی اساطیری کنٹین پر بیٹھ کر باتیں کرتے تھے۔ شعر دیکھئے: سورج ہوں زندگی کی رمق چھوڑ جائوں گا میں ڈوب بھی گیا تو شفق چھوڑ جائوں گا یہ تو اصل میں روشنی کی تاثیر ہے جو رات بھر ذہن و دل میں رہتی ہے اور سحر آثار بنتی ہے۔ ناصر کاظمی نے تو یہ کہا تھا کہ دل تو تیرا اداس ہے ناصر۔ شہرکیوں سائیں سائیں کرتا ہے۔ مگر میرا دل تو شہر بھر کی اداسی کے باعث غمگین ہوا۔ ظلم محبت کو نہیں مٹی رکھتا۔ اچھے شعروں کی بات چلی تو ایک باکمال شعر امیر حسین جعفری نے بھیج دیا: اک دیا جل رہا تھا برسوں سے آج وہ زیر خاک روشن ہے کسی شعر کے بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہیے۔ بس محسوس کرنا چاہیے۔ ویسے یہ شعر غالباً انہوں نے اپنے والد محترم اختر حسین جعفری کے حوالے سے کہا تھا اور درست کہا تھا۔ دیکھیے میں نے پھر بھی وضاحت کردی وگرنہ یہ بھی ہے کہ: شعر کا لطف لیجئے صاحب آپ تو تقطیع کرنے بیٹھ گئے۔ آپ تقطیع نہ کہیں تشریح کہہ لیں۔ اب آ گئی سمجھ میں آ گیا کہ میرے پاس کہنے کو کچھ نہ تھا کہ میرا دل اداس سا تھا۔ تو ادھر ادھر کی شاعری سے لطف اٹھاتا رہا۔ لطف بھی کیا اپنی اذیت کو بڑھاتا رہا۔ کبھی دو شعر کہے تھے: لب پہ اوڑھے میں پیاس رہتا ہوں اک سمندر کے پاس رہتا ہوں حل نکالا ہے یہ اداسی کا اب مکمل اداس رہتا ہوں