انسان نے اہرامِ مصر بنایا، کیسے بنایا؟ انسانی دانش آج تک یہ معمہ حل نہیں کر سکی۔ خالق نے کائنات بنائی اور اہرامِ مصر بنانے والا انسان بنایا۔ آدمی مگر خدا کو ماننے اور جاننے پر کم ہی آمادہ ہوتا ہے۔ انسان خالق کی وہ پیچیدہ مشین کہ خود جس کے اندرکئی کائناتیں ہنوز انسانی علم کی رسائی کے انتظار میں ہیں۔ یقینا انسان کے اندر خدا نے ایسے ایسے کرشمے بپا کر دئیے کہ اہلِ معرفت ، اہلِ دانش اور حتی کہ اہلِ سائنس بھی اگر انسان کے اندر جھانکیں تو خد ا کی قدرت کے حضور سر جھکا دینے کے سوا کوئی چارہ نہ پائیں۔گریبان میں جھانکنے کی بات ہم انسان کرتے ہیں ،گریبان میں نہیں ، خدا ہمیںاپنے اندر جھانکنے کی دعوت دیتا ہے۔ فرمان ہے: ’’اور خود تمہارے اندر خدا نے اپنی کتنی نشانیاں رکھ چھوڑی ہیں، آخر تم ان کا مشاہدہ کیوں نہیں کرتے؟‘‘ خدا کی دعوت پر ، انسان اپنے اندر جھانکے نہ جھانکے ،سائنس مگر یہ کام بخوبی کر رہی ہے۔ روزے کے حوالے سے سائنس کی انہی کاوشوں کا تذکرہ اس کالم میں جاری ہے۔ گو اب سائنسی اور طبی دریافتوں کا دریا منزلیںمارتا بہت آگے نکل چکا۔ ایک وقت البتہ وہ تھا کہ جب طب روزے کے سارے اثرات محض معدے پر دریافت کرتی تھی۔ آج کل معاملہ یہ ہے کہ جسم کا کوئی عضو ایسا نہیں بچا، میڈیکل سائنس نے جس پر روزے کے فائدے تسلیم نہ کر لیے ہوں۔ ویسے آپس کی بات یہ کہ تحقیقات خواہ کتنا ہی آگے نکل جائیں، انسان آج بھی معدے ہی کے ہاتھوں یرغمال اور بے حال ہے۔ بات انسان کے اندر جھانکنے کی ہو رہی تھی۔ آپ انسانی نظامِ ہضم کو لے لیجئے۔ یاحیرت! کتنے اعضا اس ایک نظام سے خد ا نے جوڑ رکھے ہیں۔ زبان اور اس کا ذائقہ ، جبڑے اور لعاب۔ خوراک کی نالی اور لبلبہ ، جگر اور آنتوں کے کئی گچھے اور پھر باقی سارا سلسلہ ۔ خد ا کی پناہ ، محض جگرکی طبی سائنس پندرہ کام بتاتی ہے، ان میں سے اہم ترین دو کام یہ کہ : کھائی گئی خوراک کے سٹور ہونے کی نگرانی کرنا اور تحلیل شدہ خوراک کے خون بننے کے عمل کو ممکن بنانے میں خدمات پیش کرنا۔ ایک روزہ اس نظام پر کس طرح مفید اثرات مرتب کرتا ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے ، انسان کا ہر نظام اس کے دماغ کے تابع ہے۔ اب جونہی کوئی شخص خوراک کا لقمہ منہ میں ڈالتا ہے ، یا حتی کہ کھانے کا ارادہ بھی کرتا ہے تو خود کار طریقے سے دماغ فوراً نظام ہضم کو اس غذا کے ہضم کرنے کیلئے متحرک ہو جانے کا حکم صادر کر دیتا ہے۔ جاننے کی بات یہ بھی ہے کہ آدمی اگر ایک گرام کا دسواں حصہ بھی منہ میں ڈال لے تو دماغ کے حکم کے تحت پورے نظامِ ہضم کو بہرحال متحرک ہونا ہی پڑتا ہے۔ اب آپ سوچئے کہ عام دنوں میں جس روانی اور فراوانی سے ہم الم غلم کھاتے اور پیتے چلے جاتے ہیں تو بے چارے ہمارے نظام ہضم کو کب ، کس وقت اور کتنا چین نصیب ہو سکتا ہو گا؟ پھر اس مشین کے متعلق بھی سوچیے ، ہر دم جو رواں رہے، آرام کا جسے کوئی وقفہ نہ ملے تو وہ بے چاری آخر کتنی دیر ٹھیک کام کر سکے گی؟ اس تنا ظر میں آپ روزے کی اہمیت پر غور کیجئے کہ کس طرح روزہ پورا مہینہ ہمارے نظامِ ہضم کو آرام دینے کے لیے نعمت بن کے آ جاتا ہے۔ یقینا روزہ نامی آرام کی اس نعمت سے معدہ اور پورا ہضم کا نظام اتنا آرام اور انرجی ذخیرہ کر لیتا ہے کہ جس سے سال بھر یہ اپنے اوپر ڈھائے گئے ظلموں اور زیادتیوں کا ازالہ کر سکے۔ طب یہ بتاتی ہے کہ عام طور پر انسان چار سے چھ گھنٹوں میں غذا ہضم کر تا ہے۔ روزے سے فرض کریں چھ گھنٹے تک پورا نظام ہضم غذا ہضم کرنے میں مصروف رہا اور جگر بھی اپنے دیگر کاموں کے ساتھ ساتھ دو اہم کاموں میں لگا رہا جبکہ روزے کے آئندہ کے چار چھ گھنٹے اسے بھی کامل آرام مل گیا۔ اورغذا جب ہضم ہوگئی تو جگر کی گویا آدھی ڈیوٹی ویسے ہی کم ہو گئی۔ چنانچہ ایسے وقت میں جگر اپنی توانائی یکسوئی سے خون میں Globuin بنانے پر صرف کرنے لگتا ہے۔ اسی حوالے سے انٹر نیٹ پر ایک تحقیق آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر مورپالڈ کی بھی نظر آئی۔ پروفیسر مورپالڈ صاحب کو اسلامی علوم کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا تو اسلام میں دئیے گئے روزے کے فارمولے نے انہیںحیران کر دیا۔ یہ چونکہ طب کے آدمی تھے ، روزے کے طبی فائدے سمجھ سکتے تھے، لہٰذا سوچنے لگے کہ اگر اسلام اپنے ماننے والوں کوکچھ اور نہ بھی دیتا اور صرف روزے ہی کا فارمولہ دے دیتا تو بھی ان کے پاس اس سے بڑھ کرکوئی نعمت نہ ہوتی۔ القصہ پروفیسر نے اس فارمولے کو آزما نے کا فیصلہ کر لیا، مسلمانوں کی طرز پر اس نے روزے رکھے۔ پروفیسر صاحب عرصہ دراز سے معدہ کی سوزش Stomach Inflammation میں مبتلا تھے۔ اس پریکٹس سے اس میں کمی آگئی ، انھوں نے روزے رکھنے کی مشق جاری رکھی اور کچھ عرصے کے بعد اپنے آپ کو بالکل نار مل پایا۔ ہالینڈ کے معروف پوپ ایلف گال کے متعلق بھی معلوم ہوا کہ اپنے روحانی پیروکاروں کا علاج وہ روزے سے کرتے رہے۔ ریسرچ سے ثابت شدہ ، روزے سے پیچیدہ بیماریوں کے علاج کے حوالے متعدد ہیں۔ سمجھا یہ بھی جاتا ہے کہ گو روزے سے جسم کے اعضائے ہضم کو آرام تو مل جاتا ہے مگر اس سے جسم کو کمزوری بھی لاحق ہو جاتی ہے۔ اس حوالے سے دو تحقیقات ہماری تسلی کے لیے کافی ہو سکتی ہیں۔ ایک تحقیق عمان (اردن)کے یونیورسٹی ہسپتال کے محقق ڈاکٹرسلیمان نے 1404ہجری کے رمضان میں کی۔ اس تحقیق کے لیے 42 مرد26 خواتین منتخب کی گئیں۔ ان کی عمریں 15سے64 سال کے درمیاں تھیں۔ رمضان کے شروع میں ان کا وزن کر لیا گیا۔ خون میں کولیسٹرول ، جنسی ہارمونز اور گلوکوز وغیرہ کی مقدار نوٹ کر لی گئی۔ رمضان بیت گیا تو سارے ٹیسٹ دوبارہ کیے گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان روزہ دار مرد و خواتین کا 4 سے 6 کلو گرام وزن کم ہو گیا تھا لیکن لیبارٹری ٹیسٹ سے آنے والی رپورٹس کے مطابق خون میںتمام اجزا کی مقدار نارمل ہی رہی تھی۔ دوسری تحقیق تہران کی یونیورسٹی آف میڈیکل سائنس کے ڈاکٹرعزیزی نے کی۔ یہ تحقیق 9 صحت مند روزہ داروں پر کی گئی۔ منتخب رضا کاروں کے ٹیسٹ رمضان سے پہلے ، دسویں رمضان ، بیسویں رمضان اور انتیس رمضان کو لیے جاتے رہے۔ مختصراً نتیجہ اس تحقیق کا یہ تھاکہ 29 دنوں تک اگر روزانہ 17 گھنٹے کھانے پینے سے احتراز برت لیا جائے تو جسمانی ہارمونز Hormones پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ یہاں ہمیں ایک بار پھر یاد کرلینا چاہئے کہ مسلمان صرف اللہ کا حکم سمجھ کے روزہ رکھتے ہیں۔ یہ سارے فائدے محض اضافی چیز ہیں۔ بہرحال کالم کے آخر میں ہمیں ایک بار پھر خدا کی وہ بات دہرانی چاہیے ، روزے کا حکم دیتے ہوئے ، روزے کے فائدوں کی طرف جس میں اس نے ہماری توجہ بھی دلائی، فرمایا : ’’ روزہ رکھنا ہی تمھارے لیے بہتر ہے، اگر تمھیں اس کا علم حاصل ہو جائے ‘‘۔