وزیر اعظم شہباز شریف نے معاشی حوالے سے اہم ریکوڈک منصوبے میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کی ہدایت کی ہے۔منصوبے کے متعلق اجلاس میں بیرک گولڈ کمپنی کے وفد نے چیف ایگزیکٹو آفیسر مارک برسٹوو کی سربراہی میں شرکت کی۔وزیر اعظم نے اس موقع پر ریکوڈک روڈ اینڈ ریل کنیکٹیوٹی پر آئندہ ہفتے تفصیلی بریفنگ طلب کر لی ہے۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ ریکوڈک منصوبے کی فزیبلٹی دسمبر 2024 تک مکمل کر لی جائے گی۔بلوچستان کے ضلع چاغی میں ریکو ڈک کا شمار دنیا کے تانبے اور سونے کے بڑے ذخائر میں ہوتا ہے جس کی کان کنی کا کام جلد شروع کیا جارہا ہے۔ اس پراجیکٹ کا 50 فیصد منافع بیرک گولڈ کمپنی ، 25 فیصد وفاقی حکومت، 15فیصد بغیر کسی سرمایہ کاری کے حکومتِ بلوچستان کا حصہ ہے ۔اس منصوبے میں وفاقی حکومت سرمایہ کاری کرے گی اور 10 فیصد فری کیری بنیاد پر بلوچستان کی ملکیت ہے ۔ریکوڈک منصوبے کی تنظیمِ نو کا کام دسمبر 2022 میں پایہ تکمیل کو پہنچا جو کہ ریکوڈک کوایک بین الاقوامی معیار کا طویل المدتی منصوبہ بنانے کی طرف پہلا قدم تھا جس سے بیرک کے تانبہ نکالنے کے پورٹ فولیو میں نمایاں اضافے ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے تمام سٹیک ہولڈروں کو خاطر خواہ فوائد حاصل ہوں گے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والی نسلیں بھی اس سے مستفید ہوسکیں گی۔بیرک گولڈ کمپنی اس وقت پراجیکٹ 2010کی فزیبلٹی رپورٹ اور 2011 کی پراجیکٹ فزیبلٹی میں توسیع رپورٹ کو اپڈیٹ کر رہا ہے جو کہ 2024 تک مکمل ہو جائیں گی۔بتایا جا رہا ہے کہ 2028 تک یہاں باقاعدہ کان کنی کے آغاز کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ ریکوڈک منصوبے پر سابق حکومتوں کی مجرمانہ پالیسیوں کے باعث یہ منصوبہ کئی سال تک قانونی تنازعات کا شکار رہا ۔ مارچ 2022 میں وفاقی حکومت نے دوبارہ کوشش کی۔ صوبہ بلوچستان کی حکومت اور بیرک گولڈ کارپوریشن نامی کمپنی کے درمیان ضلع چاغی میں سونے اور تانبے کے سب سے بڑے پراجیکٹ ریکوڈک پر معاہدہ طے پا گیا ۔معاہدے کے تحت منصوبے کو دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا تاہم پی ٹی آئی حکومت ختم ہونے کے بعد سارا کام رک گیا۔اُس وقت کے وزیِر خزانہ شوکت ترین کی جانب سے ایک پریس کانفرنس میں بتایاگیا کہ کینیڈین کمپنی نے 11 ارب ڈالر کے جرمانے کی تلافی کے ساتھ ساتھ 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس سرمایہ کاری سے بلوچستان میں ملازمتوں کے آٹھ ہزار مواقع پیدا ہوں گے اور پاکستان کو بے پناہ فوائد ملیں گے۔ انھوں نے کہا کہ معاہدے سے انکم فلو 100 ارب ڈالر سے زیادہ ہے، اس سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ٹیکسوں کی مد میں بے پناہ ریونیو حاصل ہو گا۔سرمایہ کاری کی رقم کے حوالے سے بلوچستان حکومت کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں آٹھ ارب کی رقم لکھی گئی، جبکہ بیرک گولڈ نے سرمایہ کاری اور جرمانے کی رقم کے بارے میں اپنے اعلامیے میں تبصرہ نہیں کیا۔ تاہم یہ کہا کہ جرمانے کی تلافی اس صورت میں کی جائے گی جب تمام شرائط کو پورا کیا جائے گا۔منصوبے پر کام شروع ہونے کی صورت میں اب یہ جرمانہ ختم ہو سکے گا۔ ایران اور افغانستان سے متصل سرحدی ضلع چاغی میں ریکوڈک پراجیکٹ پر تنازع کے باعث گذشتہ کئی سال سے کام بند تھا۔اس تنازعے کے باعث غیر ملکی ٹھیتیان کاپر کمپنی نے ثالثی کے دو بین الاقوامی فورمز سے رجوع کیا تھا جن میں سے ایک نے ان کے حق میں فیصلہ دیا اور پاکستان پر جرمانہ عائد کیا تھا۔ سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کے مطابق حکومت بلوچستان کو مقدمہ بازی پر مجموعی طور پر سات ارب روپے سے زائد کے اخراجات اٹھانے پڑے۔ سرکاری حکام کے مطابق حکومت نے ٹھیتیان کاپر کمپنی میں دونوں شیئر ہولڈرز سے مذاکرات کیے تھے جن میں سے کینیڈا کے ’بیرک گولڈ‘ نامی کمپنی نے منصوبے پر دوبارہ کام کرنے کے لیے رضامندی ظاہر کی۔ماہرین متوقع طور پر ،ریکوڈک کان کی عمر چالیس سال بتا رہے ہیں جس کی کان کنی روایتی اوپن پِٹ طریقہِ کار کے تحت کی جائے گی اورآن سائٹ پراسیسنگ سے اعلٰی معیار کے تانبے اور سونے کا کنسنٹریٹ حاصل کیا جائے گا۔ کان سے وابستہ تعمیراتی کام دو مراحل میں مکمل کیا جائے گا جس کے بعد سالانہ80ملین ٹن خام دھات کی پراسیسنگ کی جاسکے گی۔اس منصوبے سے بلوچستان اور پاکستان کیلئے نمایاں اور دیرپا معاشی و سماجی فوائد وابستہ ہیں۔ریکوڈک منصوبہ نہ صرف پاکستان کی معیشت کی ترقی میں اہم کردار ادا کرے گا بلکہ ملک کے پسماندہ صوبے بلوچستان میں ترقی کا نیا باب کھولے گا جس سے معاشی فوائد کے علاوہ روزگار کے مواقع پیدا ہو ں گے ، مقامی معیشت کو فروغ ملے گا اور سماجی بہبود کے پروگراموں میں سرمایہ کاری ہوگی۔ کان میں صوبائی شراکت داری کو مکمل تحفظ حاصل ہوگا جس کا مطلب ہے کہ بلوچستان کو کسی بھی قسم کی مالیاتی سرمایہ کاری کئے بغیر25فیصد منافع کی شرح ، رائلٹی، ڈیوڈنڈ اور دیگر مراعات حاصل ہوں گی۔ایک رپورٹ کے مطابق یہ پراجیکٹ اپنی تعمیر کے عروج پہ متوقع طور پر تقریباً 7,500 افراد کو روزگار مہیا کرے گا اور پیداوار کے مرحلے کے آغاز میں 4,000 طویل المدتی ملازمتوں کے مواقع پیدا کرے گا۔ بیرک گولڈ کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ پوری دنیا میں اپنی کان کنی کے منصوبوں میں نہ صرف میزبان ملک کے مقامی افراد کو روزگار مہیا کرنے بلکہ مقامی سپلائرز کو بھی ترجیح دیتی ہے۔پاکستان کو معاشی بحالی کے لئے نئے اور متبادل منصوبوں پر کام کی اشد ضرورت ہے۔وزیر اعظم کی دلچسپی سے اگر یہ منصوبہ کچھ بہتری کے ساتھ رو بہ عمل آتا ہے تو اسے خوش آئند اور صوبے کی محرومیاں دور کرنے کا ذریعہ بنایا جا سکتا ہے۔