روزنامہ نیو یارک ٹائمز نے دعوی کیا ہے کہ فلسطین غزہ کا80فیصد سے زائد علاقہ اسرائیلی جارحیت کی وجہ سے خالی اور ویران ہو چکا ہے۔ نہتے فلسطینیوں کے پورے کے پورے ٹائونز اسرائیلی بمباری سے کھنڈر میں تبدیل ہو چکے ہیں،مارکیٹس اور بازاروں میں ہوکا عالم بیشترگھروں کے مکین اسرائیلی بمباری سے جام شہادت نوش کر چکے ہیں اور زندہ بچ جانے والے ایک ہفتہ کی جنگ بندی کے دوران محفوظ مقامات کی طرف منتقل ہو چکے ہیں اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق غزہ کی کل آبادی اکتوبر میں شروع ہونے والی فلسطین اسرائیل جنگ سے قبل20لاکھ کے قریب تھی جس میں سے18لاکھ اب غزہ میں نہیں ہیں انہیں ابدی نیند سلا دیا گیا ہے یا پھر وہ کسی نہ کسی طرح اپنی جان بچاکر دیگر ممالک میں منتقل ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی فورسز پے در پے زمینی آپریشنز کے ذریعہ غزہ کے خالی علاقوں کا کنڑول سنبھالنے کی کوشش کر رہی ہیں، اخبار نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل نے غزہ کی پٹی کو اپنی حدود میں شامل کرنے کے لئے عملی اقدامات کا آغازبھی کردیا ہے اسرائیل نے جنوب غزہ سے اپنی باڑ کی توسیع کا کام شروع کردیا ہے تاہم اسے شدید مزاحمت کا سامنا ہے اب اسرائیلی باڑ غزہ کے علاقے شامل کرنے کے بعد لگائی جارہی ہے جس کی تصدیق اسرائیلی فورسز کے ترجمان رئیر ایڈمرل ڈانیل نے تل ابیب میں ہونے والی ایک میڈیا بریفنگ میں کی انہوں نے کہاکہ اسرائیل کا پلان ہے کہ وہ ہر صورت غزہ کے تمام علاقوں کو اپنی حدود میں شامل کرے گا تاہم اس منصوبہ پر عملدرآمد کی کوئی ڈیڈ لائن نہیں دی جا سکتی 10دن،10ماہ یاپھر10سال، کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ 75سالہ بنیامین نیتن یاہو اس سے قبل متعدد باراسرائیلی وزارت عظمیٰ کے عہدہ پر فائز رہ چکے ہیں وہ ایک تجربہ کار سیاست دان ہونے کے ساتھ کٹر یہودی ہیں ۔پہلی بارانہوں نے1996میں وزیر اعظم اسرائیل کے عہد ہ کا حلف اٹھایا پھر 2009ء سے 2021تک مسلسل چار ، پانچ ٹرم تک وہ وزیر اعظم رہے، 2022ء سے تاحال وہ وزاعظم ہیں ۔ نیتن یاہو کا شمار حماس اور مسلمانوں کے بڑے مخالفین میں ہوتا ہے۔ ان کے والد بینزین نیتن یاہو ایک انتہا پسند یہودی اور اسرائیلی تاریخ دان تھے ،بیت المقدس اور دیگر فلسطینی علاقوں بارے ان کی رائے تھی کہ یہ یہودی ملکیت ہیں مسلم ورثہ نہیں ان کا شمار'' گریٹر اسرائیل'' تھیوری کے بانیوں میں ہوتا ہے، اسرائیلی وزیر اعظم کے بڑے بھائی جنرل یو ن تن نیتن یاہو اسرائیلی فوج میں جنرل رہے انہوں نے جولائی 1976ء یوگنڈامیں مجاہدین فلسطین کیخلاف آپریشن میں اسرائیلی فورسز کی قیادت کی اورتحریک آزادی فلسطین کے مجاہدین کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ اسرائیلی وزیر اعظم کی یہ خواہش ہے کہ وہ اپنے والد کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرکے یہودی تاریخ میں امر ہو جائیں لیکن یہ کام اتنا آسان نہیں کیونکہ ابھی تک حماس کے مجاہدین نے غزہ کو خالی نہیں کیا اور حماس کا دعویٰ ہے کہ وہ پوری طرح منظم اور اسرائیلی فورسز کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔حال ہی شائع ہو نے والی نیو یارک ٹائمز کی ایک اور خبر میں یہ راز افشاں کیا گیاہے کہ اسرائیل جوہری ہتھیار بنا چکا ہے اور اس کے پاس25سے50تک تباہ کن جوہری میزائل تیارہیں ایک جو ہری میزائل کا وزن 2900کلو گرام ہے اور یہ1300کلو گرام جوہری بارود اٹھانے کی صلاحیت رکھتا ہے اس کی رینج 6500کلو میٹر ہے دوسرے الفاظ میں پورا مشرق وسطیٰ اسرائیلی جوہری میزائلوں کی زد میں ہے ۔7اکتوبر کے حماس حملوں کے بعداسرائیل کیلئے اپنے جوہری ہتھیاروں کی حفاظت درد سر بنی ہوئی ہے کہ کہیں اس کا جوہری ا ثاثہ حماس کا نشانہ نہ بن جائے۔ ایسی صورت میں اسرائیل نہ صرف صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا بلکہ حماس کے7اکتوبر حملوں بھی عین درست قرار دئیے جا ئے گااخبار کا دعویٰ ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم اپنے جو ہری پروگرام کی حفاظت اور اسرائیل کی بقاء کیلئے حماس کا ہر صورت خاتمہ چاہتے ہیں۔ فلسطین کی تحریک انتفاضہ سے جنم لینے والی حماس ایک ایسی تحریک بن چکی ہے جس نے اسرائیل کے درو دیوار کو ہلا کر رکھ دیا ہے 7اکتوبر کے حملے اسرائیلی سیکورٹی فورسز کیلئے حماس کی طاقت کی ایک جھلک تھی اس کی اصل طاقت کیا ہے؟ اس کا مظاہرہ نہیں کیا گیا حماس کے قیام کو 36سال کا عرصہ بیت گیا 1987ء یہ تنظیم قائم کی گئی اپنے قیام کے روز اول سے ہی یہ تنظیم فلسطین کی تحریک مزاحمت کاا ستعارہ بن گئی اس کے بانی شیخ احمد یاسین جو جسمانی معذور ی باوجود ایک باہمت انسان تھے لیکن انھوں نے فلسطین میں امت مسلمہ کی قیادت کا حق ادا کیا پیرانہ سالی اور معذوری کے باوجود اسرائیل فوج ان سے خوف زدہ رہتی تھی اسرائیلی عدالت نے انہیں عمر قید با مشقت کی سزا سنائی وہ اسرائیلی جیل میں 10سال تک قید رہے شیخ احمد یاسین اسرائیل کے خلاف تمام قانونی جنگ جیتنے کے بعد رہا ہوئے انہیں جنوری 2004ء کی ایک صبح اسرائیلی طیاروں ایف16 اور گن شپ ہیلی کاپٹرز نے نماز فجر کے وقت نشانہ بنایا، وہ نماز کی تیاری میں مصروف تھے کہ انہیں شہید کردیا گیا اسرائیل کا خیال تھا کہ شیخ احمد یاسین کی شہادت سے حماس ختم ہو جائے گی لیکن حماس پہلے سے بھیزیادہ طاقتور بن کر ابھری شیخ احمد یاسین کا موقف تھا کہ بیت المقدس کی سرزمین امت مسلمہ کی امانت ہے ۔فلسطینی صرف اس کے چوکیدار ہیںیہ فلسطینی قوم کی خوش قسمتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں قیامت تک کیلئے اس عظیم کام کیلئے منتخب کیا ہے۔ شیخ احمد یاسین اپنی جدوجہد کا ایک ہی مشن بیان کرتے تھے کہ اسرائیل مملکت کا خاتمہ اور آزاد وخود مختار اسلامی مملکت فلسطین کا قیام ، اپنے اس مشن کی تکمیل کیلئے انہوں نے جام شہادت نوش کیا اور ہر فلسطینی کو ایک پیغام دیا کہ وہ قبلہ اول کی آزادی سے کم کسی چیز پر راضی نہ ہواس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ جنگ اسرائیل اور حماس کے درمیان نہیں بلکہ دونظریات کا تصادم ہے جیت انشاء اللہ محمدﷺ کے غلاموں کی ہوگی ۔