کیا عالم تھا سارے تتر بتر ہو گئے تاریخ اب انہیں ڈھونڈتی بھی نہیں۔آل ِتیمور کہاں گئی۔لوگ آل ِتیمور نہیں تیمور کو مانتے ہیں۔ لال قلعہ دلی میں بادشاہ ِ وقت بے بس ہے اور جائے نماز پر بیٹھا ہے۔ ہاتھوں میں رعشہ ہے۔یہ تیمور کی اولاد کا آخری حاکم ہے۔ لال قلعہ میں تین دن کا فاقہ ہے۔کسی نے کچھ نہیں کھایا پیا۔تاریخ بتاتی ہے کہ لال قلعہ میں مقیم ماؤں کا شیر خواروں کو پلانے کے لیے دودھ سوکھ گیا تھا۔ایک کہرام اور نفسانفسی کا عالم تھا۔خواجہ سرا کبھی ایک راہداری اور کبھی دوسری میں جاتے۔ جائے امان کہیں نہ تھی۔اس وقت بادشاہ ِ وقت کی رعایا ساڑھے تین کروڑ کے لگ بھگ تھی۔شاید ان میں سے آدھی آبادی دل و جان سے بادشاہ وقت کے ساتھ ہو گی۔شاید کچھ کم یا شاید کچھ زیادہ بھی ہو۔بادشاہ ِ وقت کی فوج بھی تھی جو اس کی اور اس کے نظام اور عام آدمی کی حفاظت کے لیے مامور تھی۔لال قلعہ کے اندر حویلیاں تھیں ایک ایک گھر کی ڈیوڑھی کے آگے چار چار داروغہ ہوتے تھے۔ایسے کئی گھر تھی بادشاہ ِ وقت رشتے میں کسی کے دادا اور کسی کے نانا لگتے تھے۔ہر ایک کے لیے باہر نکلنے کے لیے ایک پالکی اور پالکی اٹھانے والے موجود ہوتے تھے۔سلطنت کیا تھی اس وقت کی دنیا کی عظیم ترین سلطنتوں میں ایک۔ابھی ترکی کی عثمانی سلطنت پورے طمطمراق سے قائم و دائم تھی۔وہاں خلیفہ عبدالمجید اول کی خلافت تھی۔ابھی مغربی ممالک کی طاقتوں میں وہ دم خم نہ تھا کہ ہر جگہ طاقت آزما ہوتے پھریں۔ لہٰذا ابھی ہندوستان ہی سونے کی چڑیا ان کے ہاتھ میں آئی ہوئی تھی۔ہندوستان کے بادشاہ کا جلال ختم ہو چکا تھا مگر جمال ابھی باقی تھی۔حالات نے بادشاہ ِ وقت کو بوڑھا بے بس اور بے اختیار کر دیا تھا۔غدر یا جنگ آزادی میں بادشاہ سے زیادہ عام لوگوں نے ایک ہو کر جنگ لڑی تھی ملک کے نام پر ہندو مسلمان اور سکھ ایک ہو گئے تھے۔بادشاہ کے ہاتھ سے جنگ نکل گئی تھی یوں بھی انگریزوں نے بادشاہ وقت کو وقت سے پہلے نفسیاتی طور پر مار دیا تھا۔جب وہ خود وظیفہ خوار ہو تو کسی کے ساتھ وہ کیا کھڑا ہوتا۔وہ بیچارہ نماز روزے اور شاعری کے لیے رہ گیا تھا بقول اقبال خانقاہوں سے نکل کر رسم ِ شبیری اس کے بس کا روگ ہی نہیں رہ گیا تھا۔ بادشاہ سے زیادہ نانا صاحب ، تاتیا ٹوپے، رانی لکشمی بائی، سنگھاری لال، سردار دھارا سنگھ، ہیرو سنگھ اور راجہ ناہر سنگھ مسلمان بادشاہ کے لیے جنگ آزما ہو رہے تھے۔یہ نہیں کہ عام مسلمان اس جنگ سے دور رہا نہیں قطعا نہیں۔ مولوی احمد شاہ ، عظیم اللہ خان اور شہزادہ فیروز شاہ اس مرکزی فوج کے کماندار تھے جن کی بہادری کی وجہ انگریزوں کو اپنی جان بچانے مشکل ہو گئی تھی۔ بادشاہ ِ وقت کی نیمے دوروں اور نیمے بروں والی حالت تھی۔ پاکستان کی سیاست شاہی کاروبار بنی اور دلی دربار کے کردار مرزا چپاتی، مرزا بنو، مرزا چڑیا اور مرزا جھرجھری اس سیاست پر قابض ہو گئے۔کوئی پتنگ باز تھا تو دوسرا پتنگ باز سجناں۔مگر تابکے یہ حالت تبدیل ہونی تھی۔ان کی بحثیں مرغ لڑائیوں اور مرزا چیل کی پتلی پنڈلیوں تک محدود ہو گئی۔ اپنی سیاست اور اپنے سیاسی زعما نے پاکستان میں اپنے لال قلعے کھڑے کیے۔اپنے پنج ہزاری دس ہزاری بنائے اور انہیں وہ کچھ عطا کیا جس کا دلی کے بادشاہان کے سان گمان میں بھی نہیں ہو سکتا تھا۔ ویسے سیاست اب ایسا موضوع ہو گیا ہے جو عام ہونے کے باوجود پسند نہیں کیا جاتا جسے دیکھو وہ بحث سیاست پر کرتا ہے۔ کسی علمی مسئلے پر چنداں گفتگو نہیں ہوتی اس لیے کہ سیاست دانوں نے اپنی اپنی مخلوق اپنے اپنے دانشور کھڑے کر لیے ہیں۔اب دائیں بائیں کی سیاست آئیں بائیں شائیں ہو گئی ہے۔باعلم طبقہ بے رتبہ ہو گیا ہے اسے اس بیہودہ سیاست سے نفرت سی ہو گئی ہے۔ حالی کے مقدمہ شعروشاعری کے حواشی میں لکھا ہے۔ عبید زاکانی قزوینی ایک مشہور ہزال شاعر تھا۔ یہ شخص اقسام ِ علوم میں ماہر تھا اس نے ایک کتاب فن ِ عزیمت میں لکھی تھی اور اس کو لے کر شاہ ابو اسحاق انجو کے ہاں پیش کرنے کیلئے شیراز گیا تھا۔ جب بادشاہ کے دربار میں جانا چاہا تو معلوم ہوا کہ بادشاہ مسخروں میں مشغول ہے کسی سے ملنے کی فرصت نہیں۔ عبید نے کہا کہ اگر مسخرگی سے تقرب ِ بادشاہی حاصل ہو سکتا ہے تو علم حاصل کرنا فضول ہے اسی روز سے ہزل گوئی اختیار کی اور اس میں مشہور ہو گیا۔ پاکستان کے نوجوان بھی عبید زاکانی کی طرح ہو گئے تھے یا عبید زاکانی پاکستانی نوجوانوں کی طرح ہو گیا تھا۔اس صدی کے پہلے عشرے تک نوجوان طبقہ سیاست اور عملی طور پر میدان سیاست سے اتنا ہی دور تھا جتنا زاکانی بیکار شاعری سے۔ پاکستان کا میدان سیاست یا کارزار ِ سیاست شاہ ابواسحاق انجو کا دربار ہو چکا تھا۔بڑے بوڑھے لال قلعہ کے بادشاہ کی طرح گوشہ گیر یا مصل ٰی نشین ہو گئے تھے۔2013 کے قومی انتخابات میں نوجوانوں میں ایک بے چینی نے جنم لیا یہ اس نسل کا نیا جنم تھا۔یہ نسل نوے کی دہائی میں پیدا ہوئی تھی۔2018 میں اس نسل طاقت کے مراکز تبدیل کر دیے۔کئی دہائیوں کی روپے پیسے کے زور پر چلنے والی سیاست عوامی امنگوں کی طرف مڑنے لگی۔طاقت کا مرکز نیا بنا۔سیاسی میدان میں یہ نسل اب کسی کے کہنے میں نہ تھی۔ زمین میر و سلطاں سے بیزار ہو گئی۔ نئی امنگوں کا مرکز طاقت کے نئے مرکز میں منقلب ہو گیا۔زمان پارک کی حیثیت اس لال قلعہ کے بادشاہ کی ہو گئی جو مصلٰی نشین نہیں تھا۔نوجوانوں کی خواہشوں بے چینیوں اور بیزاریوں نے اس زمان پارک کو ایک استعارہ بنا دیا۔ اب اصل قلعہ لال قلعہ نہیں لونڈے لپاڑوں نے زمان پارک کو عوامی طاقت کا لال قلعہ بنا دیا۔ عوام ابوالمظفر بہادر شاہ ظفر کو نہیں تیمور لنگ کے ساتھ ہوتے ہیں۔