دیکھنے والی آنکھ کے لیے بہت کچھ ہے جس سے وہ عبرت پکڑے جس سے اس پر عیاں ہو کہ اس بے ثبات دنیا میں کچھ بھی مستقل نہیں۔ ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں۔سورج چڑھتا ہی غروب ہونے کیلئے ہے۔ چاند جس رات اپنی چاندنی کے جوبن پر ہوتا ہے اسی رات سے اس کے گھٹنے کے دن شروع ہو جاتے ہیں۔ جو رات ہے عروج کی وہی ہے زوال ہے۔عروج و زوال‘ دن و رات خوشی اور غم‘ حسرت اور شادمانی دوستی اور دشمنی صحت اور بیماری ناکامی اور کامیابی‘ نامرادی اور بامرادی۔ زندگی اور موت باہم ایک دوسرے میں پیوست ہے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور کبھی تو ایک یہ تصویر کے دو رخ دکھائی دیتے ہیں۔ انسان مگر ہمیشہ دھوکہ کھاتا ہے۔ اس لیے کہ انسان کے خسارے میں رہنے کی قسم خود کتاب مبین نے کھائی ہے۔ کامیابی اور عروج کے لمحوں میں غافل انسان‘ دنیا کی بے ثباتی‘ غیر مستقل مزاجی اور مسلسل تغیر میں رہنے کی صفت بھول جاتا ہے اور اسے مستقل ہمیشہ رہنے والی کامیابی سمجھنے لگتا ہے۔ بھول جاتا ہے کہ عروج کے پرشکوہ محلات کی دیوار کے ساتھ زوال ایک خاموش درویش کی طرح سر ٹکائے بیٹھا بس اپنی باری کے انتظار میں ہے۔ تاریخ نے تو یہ نظارہ بارہا کیا کہ کیسے جب زوال کا وقت آتا ہے تو بادشاہت ‘ سلطنت ‘ جاہ و جلال کی راہداریوں میں کیسے حسرت اور عبرت کے سائے گہرے ہونے لگتے ہیں۔ دنیا مگر چڑھتے سورج کو سلام کرتی ہے۔ بالکل سورج مکھی کے پھول کی مانند سورج کے ساتھ ساتھ اپنا رخ تبدیل کرتی رہتی ہے کبھی مگر غروب ہوتے سورج اور زوال کے منظر سے بھی آنکھ کو بھرنا چاہیے تاکہ اس دنیا کی بے ثباتی ہم پر کھلے جس کی مثال کتاب ہدایت میں ایک مکھی کے پر سے دی گئی۔ ہائوس آف شریف پر ان دنوں زوال کا موسم ہے مسلسل تین بار وزیر اعظم بننے کا اعزاز حاصل کرنے والے نواز شریف زوال کی داستان کا ایک ناقابل فراموش کردار دکھائی دیتے ہیں صرف خود ہی نہیں پورا خاندان گردش حالات سے گزر رہا ہے ایک طرف وہ اپنی لاڈلی بیٹی اور داماد کے ساتھ اڈیالہ جیل میں قید تنہائی کاٹ رہے ہیں۔ دوسری طرف ان کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز شریف زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ بیٹوں حسن اور حسین کے انٹر پول سے گرفتاری کے انتظامات کیے جا رہے ہیں۔ اربوں کھربوں کے اثاثوں کا مالک یہ خاندان تقدیر کے سامنے بے بس ہے۔ بے شک انسان اپنے ہی اعمال کا کیا دھرا اس دنیا میں بھگتتا ہے منیر نیازی نے کتنا بڑا سچ اس سفر میں سمو دیا ہے: مری ہی خواہشیں باعث ہیں میرے غم کا منیر عذاب مجھ پر نہیں حرف مدعا کے سوا! حرص و ہوس کے ناتمام سلسلوں نے انسان کو کہیں کا نہ چھوڑا۔ ہم میں سے ہر انسان اپنے کئے کا بدلہ اس دنیا میں پاتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ فقیر کو جو دیا وہ اس کا حساب دے گا اور بادشاہ کو اگر سلطنت اور حکومت دی ہے تو پھر اس کا حساب اور آزمائش بھی بڑی ہو گی۔ اخبارات میں ان دنوں تصویر کے دونوں رخ دکھائی دیتے ہیں۔ ایک جانب عروج کی شادمانی ہے۔ چڑھتے سورج کی جولانیاں ہیں اور بنی گالہ کی پہاڑیوں پر اس چڑھتے سورج کے سامنے ماتھا ٹیکنے والوں کی قطاریں ہیں اور دوسری جانب ایک حکمران خاندان کے زوال کی عبرت انگیز کہانیاں ہیں۔ یہاں میں نواز شریف کے جرم اور فرد جرم پر تبصرہ نہیں کر رہی بس یہ بتانا مقصود ہے کہ زندگی کیسے کیسے رنگ بدلتی ہے۔ قرآن میں ہے کہ ہم دلوں کو تمہارے درمیان پھیر دیتے ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق نواز کو جس کمپائونڈ میں رکھا گیا ہے وہاں ایک کمرے میں نواز شریف ہیں جیل میں ٹی وی اخبار سمیت تمام بنیادی سہولتیں میسر ہیں وہ بنیادی سہولتیں جو پاکستان میں 40فیصد خط غربت سے نیچے بسنے والے انسانوں کو میسر نہیں۔ کاش کوئی ان کو بتائے کہ جس معیار کی زندگی وہ جیل میں بسر کر رہے ہیں اس معیار کے خواب دیکھتے دیکھتے پاکستان میں لاکھوں لوگ قبروں میں اتر جاتے ہیں۔ ایک قید کی مشیت سے انہیں ملاقاتیوں سے ملنے کے لیے بھی بہترین ماحول میسر ہے۔ کم از کم علیحدہ کمرہ کرسیاں میز لگے ہوئے۔ ایک بار جیل میں میں نے ’’ملاقات‘‘ کا منظر دیکھا ایک موٹی جالی کے آرپار قیدی اور ملاقاتی ایک دوسرے کے ساتھ منہ اور کان لگائے حال دل سنانے اور سننے کی کوشش میں مصروف تھے ملاقات کی اس گیلری میں اتنا رش تھا کہ تل دھرنے کو جگہ نہ تھی اس بھیڑ میں حال دل سنانے کا یہ عمل آوازوں کے ایک ایسے مسلسل اور متواتر شور میں بدل گیا تھا کہ میری سماعتوں نے اس سے پہلے ایسا کوئی تجربہ نہ کیا تھا۔ آوازوں کی ایک تیز کان میں اترتی بھنبھناہٹ۔ اللہ جانے وہ ایک دوسرے کی بات کیسے سمجھ پا رہے تھے۔ اس کے برعکس سابق وزیر اعظم جیل میں جمعرات کو دس سے تین بجے تک ملاقاتیوں سے ملتے ہیں۔ تازہ تازہ الیکشن ہوئے ہیں نئی حکومتیں بننے جا رہی ہیں۔ جوڑ توڑ کی سیاست کے کلچر میں پارٹی کے ممبران ابھی تاحیات قائد سے مشورہ لینے آتے ہیں۔ ابھی نواز شریف خود کو ساری سیاسی صورت سے ریلوینٹ سمجھ رہے ہیں مگر کوئی دن ہوتے ہیں کہ جوڑ توڑ اور سیاسی وفاداریوں کی خریداری کا یہ مرحلہ بھی طے ہو جائے گا۔ حکومتیں بن جائیں گی کاروبار حکومت چل پڑے گا تو پھر قید کاٹنے والے(اگر قید کاٹتے رہے تو) نواز شریف سے کون ملنے آئے گا سوائے چند رشتہ داروں کے۔ کیونکہ یہی دنیا کا دستور ہے۔ باہر کی آزاد دنیا میں سیاست اور حکومت کرنے اور کئی دنیاوی خداہوں گے پھر جن کی آشیر باد حاصل کرنے کو ان کی دہلیز کے چکر لگائے جائیں گے۔ مریم نواز شریف تو اوریانہ فلاسی کو جیل میں پڑھ رہی ہیں کیا اچھا ہو کہ وہ اپنے والد محترم کو بھی کتاب پڑھنے پر راغب کریں۔قید تنہائی میں کتاب سے بہتر کوئی رفیق نہیں۔ایک خیال ذھن میں بار بار سر اٹھاتا ہے کہ کیا کبھی اڈیالہ جیل کے خاموش کمپائونڈ میں قید تنہائی کاٹتے ہوئے نواز شریف شہر ذات کے سفر کو نکلتے ہوں گے اور کیا اس سفر میں کبھی وہ اپنے ہمزاد سے مکالمہ کرتے ہوں گے کہ زندگی کے اس سفر میں انہوں نے جو کچھ حاصل کیا اس کے عوض کیا کھویا۔ بے بہا دولت‘ بے انتہا سرمایہ۔ اربوں کھربوں کے اثاثے۔ فلیٹس ‘ جائیداد محلات اور یہ زندگی کی بے ثباتی جہاں دوسرے سانس کی خبر نہیں۔جب اڈیالہ جیل کی راہداریوں میں شام اترتی ہو گی تو اس شام کی تنہائی میں گزرے دنوں کی کچھ یادیں نواز شریف کی سماعت میں سرگوشی کرتی ہوں گی۔ عروج کے کیسے کیسے لمحے گزرے تین باروزارت عظمیٰ تین بار حلف برداری کی پروقار تقریب اور حلف کے الفاظ اسلام‘ وطن اور عوام سے وفادار رہنے کا حلف۔ کیا سابق سزا یافتہ وزیر اعظم کو یہ پچھتاوے گھیرتے ہیں کہ وہ حلف کے مقدس الفاظ کی پاسداری نہ کر سکے۔ وہ عوام کے جلسوں میں دعوئوں وعدوں اور خوابوں سے بھری تقریریں کرتے رہے غریب غربا ‘ کم وسیلہ ‘ پسے ہوئے‘ دھتکارے ہوئے لوگ ان پر یقین کر کے ان کے جلسوں میں بھنگڑے ڈالتے رہے زندہ باد کے نعرے لگاتے رہے!کیا ان کا ضمیر انہیں کبھی ملامت کرتا ہے کہ انہوں نے اس اعتماد کا خون کیا جو عوام نے ان پر کیا اڈیالہ جیل کے اس خاموش کمپائونڈ میں جب رات اترتی ہو گی تو کتنے پچھتاوے اس رات میں سرسراتے ہوں گے سلطنت حکومت کے جاہ و جلال کی حقیقت کیسے ایک سابق حکمران کے دل پر منکشف ہوتی ہو گی۔ جب انہیں احساس ہو گا کہ اڈیالہ جیل کی دیواروں سے باہر زندگی بدل چکی ہے۔ وقت کسی اورکے عروج کی کہانی لکھ رہا ہے۔اڈیالہ جیل کے یہ اولین دن تو زوال کی داستان کا پہلا باب ہیں۔ ابھی کہانی میں عبرت کے بہت سے موڑ باقی ہیں۔