لاہور میں آج کل شدید سردی ہے، دھند آلود موسم ختم نہیں ہو رہا۔ صبح سے شام تک سورج کی کرن دیکھنا نصیب نہیں ہوتی۔ ہاتھ پائوں ٹھٹھر گئے ، ایک جراب پہننے سے بھی کام نہیں چل رہا۔ گرم بنیان،قمیص، اوپر ہاف سوئیٹر پھر گرم موٹا سوئیٹر یا جیکٹ وغیرہ، مگر سردی بدستور تنگ کر رہی۔ ڈھونڈ ڈھانڈ کر ہم نے مفلر ، گرم شالیں ، ٹوپیاں نکال لیں۔ سب فیشن ویشن ایک طرف، جب تک سر پر ایسی گرم ٹوپی نہ پہنی جائے جو کانوں تک کو ڈھانپ لے، تب تک سکون نہیں مل رہا۔ میرے لئے سردیاں کتابیں پڑھنے، گرما گرم چائے یا کافی کے کپ، شہد وزعفران سے مزین قہوہ جات ، ڈرائی فروٹس اور پنجیری اور حلوہ جات کا نام ہے۔ ڈرائی فروٹس(کاجو، پستہ وغیرہ) اس قدر مہنگے ہوگئے ہیں کہ اب ان کا صرف نام ہی جپ سکتے ہیں۔ لے دے کر مونگ پھلی ہی بچ جاتی ہے ، آج کل وہ بھی ٹھیک ٹھاک مہنگی ہے۔چکوال سے ایک پیارے دوست نے مونگ پھلی اور ریوڑھی بھیج کر یہ کمی تو دور کر دی ۔ میری اہلیہ اور بیٹی کو اللہ سلامت اور سدا خوش رکھے ، ان کے توسط سے گرم گرم چائے، کافی اور قہوہ جات کا سلسلہ جاری ہے۔ایسے موسم میں بس اچھی نئی کتابوں کی ضرورت رہتی ہے۔ کراچی کتاب میلہ سے چند کتابیں خرید لایا تھا۔ گاڈ فادر ناول کے مصنف ماریا پوزو کے دو ناولوں’’ اومرتا‘‘ اور’’ لاسٹ ڈان‘‘ کے تراجم جو سٹی بک پوائنٹ کراچی نے شائع کئے ۔ ترجمہ خوب ہے، ناول بھی دلچسپ ہیں، خاص کر آخری ڈان۔ گاڈ فادر والا ذائقہ تو نہیں، مگر مزا آیا پڑھ کر۔ آج صبح مجھے محمود الحسن نے اللہ کے شہرہ آفاق نقاد،محقق اورادیب پروفیسر شمس الرحمن فاروقی پرلکھی اپنی نئی کتاب دی۔قوسین پبلشر نے یہ کتاب’’ شمس الرحمن فاروقی : جس کی تھی بات بات میں اک بات ‘‘شائع کی ہے۔ سوا سو صفحات پر مشتمل یہ مختصر حسین کتاب کا مواد سینکڑوں صفحات کی کئی کتابوں پر بھاری ہے۔ محمود الحسن نے شمس الرحمن فاروقی صاحب سے اپنے تعلق کا حق ادا کیا ہے۔ کتاب کا ٹائٹل مجھے بہت پسند آیا۔یہ معروف ڈیزائنر محمد ابراہیم شہزاد نے ڈیزائن کیا، ابراہیم برسوں میرے ساتھ ایک اخبار کے میگزین سیکشن کے لئے ڈیزائننگ کرتے رہے۔ کیا خوب کام کیا انہوں نے۔ محمود الحسن میرے ساتھ مختلف اخبارات کے میگزین سیکشنز میں برسوں کام کرتے رہے ہیں، پچھلے سات برسوں سے وہ ہمارے اخبار نائنٹی ٹونیوز کے میگزین سیکشن سے وابستہ ہیں۔ محمود الحسن کا شمار صحافت کی اس نایاب نسل میں ہوتا ہے جنہیں حرف مطبوعہ سے بے پناہ محبت ہے اور وہ نوکری کی خاطر نہیں بلکہ اپنے شوق اور پیشن کی وجہ سے صحافی بنے۔ اپنی زندگی کے لئے انہوں نے کچھ اصول اور آدرش بنائے ، جنہیں قربان کرنے کے لئے ہرگز تیار نہیں۔ زندگی کے تیز رفتار سفر میں پیچھے رہ جانے کا بھی خدشہ نہیں۔ علم وادب سے گہری وابستگی اور دلچسپی ہے اور وہ صحافت کو ادب جیسی سو فی صد کمٹمنٹ کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر وزیرآغا مرحوم کہا کرتے تھے، ادب زندگی موت جیسا مسئلہ ہے اور اسے ایسی کمٹمنٹ کے ساتھ ہی نبھانا چاہیے۔ محمود الحسن جیسے ہمارے دوست یہی کمٹمنٹ صحافت کے ساتھ نبھا رہے ہیں۔ کتابیں پڑھنے اور جمع کرنے کا بھی اسے جنون ہے۔ چھوٹی سی عمر میں ہزاروں کتابیں جمع کر لی ہیں ، اس سے زیادہ پڑھ ڈالیں۔ شمس الرحمن فاروقی صاحب پر لکھی کتاب محمود الحسن کی چوتھی تصنیف ہے۔ اس سے پہلے ان کی ایک کتاب ممتاز ادیب انتظار حسین مرحوم پر ’’شرف ہم کلامی ‘‘کے نام سے شائع ہوئی۔ دوسری کتاب’’ لاہور،شہر پرکمال ‘‘ہے، جس میں لاہور سے محبت کرنے والے تین بڑے ادیبوں راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر اور کنھیا لال کپور کا تذکرہ ہے۔ تیسری کتاب گزری ہوئی دنیا (متنوع مضامین کا مجموعہ)تھی۔ شمس الرحمن فاروقی صاحب پر تازہ کتاب دراصل محمود الحسن کے مختلف انٹرویوز ، گفتگو اور ان کے ساتھ ہونے والی نشستوں کی تفصیل ہے۔ ایک لحاظ سے یہ شمس الرحمن فاروقی صاحب کے افکار،آرا اورسوچ کی جھلک ہے۔ یہ بتاتی ہے کہ شمس الرحمن فاروقی کیسا دیو قامت عبقری تھا اور ان جیسا شائد دوبارہ نہیں آئے گا۔ ڈاکٹر خورشید رضوی کا اس کتاب کے لئے لکھا خوبصورت مضمون بھی شامل ہے۔ فاروقی صاحب کی صاحبزادی پروفیسر مہر افشاں فاروقی جو ان کے علمی میراث کی وارث ہیں اورایک امریکی یونیورسٹی میں پڑھاتی ہیں ، ان کی گفتگو بھی کتاب کا حصہ بنائی گئی۔ شمس الرحمن فاروقی صاحب کے چند ایک خطوط اور ای میلز بھی کتاب کا حصہ ہیں۔ہم نے نائنٹی ٹو نیوز کے میگزین کے لئے ایک سوالنامہ بذریعہ ای میل فاروقی صاحب کو بھارت بھجوایا ، انہوں نے اس کابڑا وقیع تفصیلی جواب دیاجسے ایک خصوصی اشاعت میں شائع کیا گیا تھا، اس کتاب میں وہ بھی شامل ہے۔ پروفیسر شمس الرحمن فاروقی بھارت کی مشہور الہ باد یونیورسٹی میں برسوں پڑھاتے رہے۔ وہ اردو کے ممتاز ترین محقق، نقاد ، سکالر تھے۔ میر پر ان کا چار جلدوں پر مشتمل مشہور کام’’ شعر شورانگیز‘‘قابل مطالعہ ہے۔ غالب پر بھی فاروقی صاحب نے بہت عمدہ کام کیا ۔ علم وادب پر ان کے کام کے باعث انہیں بہت سے اعزاز اور تمغے وغیرہ ملے ۔ اپنی زندگی کے آخری برسوں میں فاروقی صاحب فکشن کی طرف آئے اور آتے ہی میلہ لوٹ لیا۔ ان کا ناول’’ کئی چاند تھے سرِآسماں‘‘بڑا مشہور ہوا۔ اسے اردو کے بہترین ناولوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ فاروقی صاحب کا یہ ناول انگریزی میں بھی ترجمہ ہوا۔ اس پر بعض اعتراضات بھی ہوتے رہے ہیں، مگر ناقدین بھی اس بڑے ناول کی عظمت اور دلچسپی سے انکار نہیں کر سکتے۔ اپنے ناول ’’کئی چاند تھے سرآسماں ‘‘سے پہلے فاروقی صاحب نے فکشن پر ہاتھ صاف کرنے کے لئے یا ناول کی تیاری کی نیت سے بعض دلچسپ اور نہایت عمدہ افسانے لکھے ۔ غالب افسانہ، میر کہانی وغیرہ اپنی نوعیت کے کمال افسانے ہیں۔ فاروقی صاحب نے ایک فرضی نام سے یہ افسانے لکھے ۔’’ کئی چاند تھے سرآسمان‘‘ کی بے پناہ پزیرائی اور مقبولیت کے بعد انہوں نے ایک مختصر ناول یا ناولٹ’’ قبض زماں‘‘ کے نام سے لکھا ۔ اپنے آخری دنوں میں وہ ایک اور ناول پر کام کر رہے تھے، جو اردو کے مشہور کلاسیکی شاعر جرات کے دو شاگردوں کے گرد گھومتا تھا۔ کورونا کے باعث اپنی شدید علالت اور پھر صحت یاب ہوجانے کے کچھ ہی دنوں بعد انتقال کر جانے سے وہ ادھورا رہ گیا۔ نجانے اس ناول کا کیا بنا؟ بہتر ہوتا کہ فاروقی صاحب کا وہ ناول نامکمل حالت ہی میں شائع کر دیا جاتا۔ پاکستان میں فاروقی صاحب کے دونوں ناول ، تاریخی افسانے وغیرہ بک کارنر جہلم نے شائع کر رکھے ہیں۔ محمود الحسن نے فاروقی صاحب سے ان کے ناول کے حوالے سے کئی سوالات پوچھے، فاروقی صاحب نے کھل کر جواب دئیے۔ فاروقی صاحب کا کہنا تھا ،’’ میں نے تاریخی ناول نہیں لکھا ، اس میں تاریخی کردار نہیں، وہ کردار نہیں ہیں جنہوں نے برصغیر کی تاریخ پر اثر ڈالا ہو۔ ان لوگوں کا ذکر ہے جو تاریخ کے حاشیے بلکہ حاشیے کے بھی کونے میں ہیں۔ اس میں تاریخ نہیں بلکہ تہذیب کا بیان ہے جسے ہم بھول چکے ہیں اور نہیں جانتے کہ وہ تھی۔ یہ ناول ایک لڑکی کے بارے میں ہے جو بہت خوبصورت ہے، بڑھاپے کا اس پر اثر نہیں، شعر پڑھتی ہے، بذلہ سنج ہے، مسلمان گھرانے سے تعلق ہے، باہمت ہے ، اپنے لئے خود انتخاب کرتی اور اس کے لئے لڑتی ہے۔ اس ناول کے لئے کہا گیا کہ اس میں تحقیق بیانئے کے اوپر غالب آگئی۔ میں اس بات کو نہیں مانتا۔ سب سے میں نے یہی سنا کہ آپ کا ناول شروع کیا تو ختم کر کے ہی چین لیا۔ناول میں علمیت زیادہ ہونے کی بات بھی درست نہیں۔اگر کوئی یہ کہے کہ ا س میں فارسی شعر بہت زیادہ ہیں تو یہ کون سی علمیت ہے؟جس کلچر کو بیان کرنا چاہ رہا تھا، اس کلچر میں فارسی اور اردو شاعری گھلی ملی ہے۔ اس زمانے میں لوگ اٹھتے بیٹھتے شعر کہتے اور پڑھتے تھے ۔ اس تہذیب کو اگر بیان کرنا ہے تو اس کے جو تقاضے ہیں، ان کو تو میں پورا کروں گا۔ ‘‘ (جاری ہے )