اس ڈیجیٹلائزڈ دنیا میں جہاں ایک طرف معلومات کا سیلاب ہمارے وقت کو بہائے لے جا رہا ہے اور دوسری طرف ڈیجیٹل گیجٹس میں ہماری مصروفیات ہمیں فطرت سے اور زندگی کے اصلی لمس سے محروم کر رہی ہیں۔کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسان کا ارتکاز اس کی اپنی ذات سے بھی ہٹ چکا ہے۔اسی مصروف ترین دنیا میں انسان کے لیے می ٹائم" کا تصور ابھرا۔ می ٹائم کیا ہے ؟ می ٹائم دراصل اپنے اوپر توجہ دینے کا وہ دورانیہ ہے جس میں اپ آس پاس کی تمام مصروفیات اور چھوٹی بڑی پریشانیوں سے دامن چھڑا کر اپنے آپ پر فوکس کرتے ہیں۔ اور کچھ وقت صرف اپنے ساتھ گزارتے ہیں۔ سرپٹ بھاگتی اور ہانپتی اس زندگی میں چند لمحے سکون کے اور سست روی سے گزارتے ہیں۔ فارغ وقت کو بہتر گزارنے کے لیے کوئی مشغلہ اختیار کرتے ہیں۔ آج کے انسان کا مسئلہ یہ ہے کہ اس نے اپنے مشغلے کو بھی صرف سکرین تک محدود کر لیا ہے۔ زندگی موبائل فون کی سکرین کے ساتھ بندھی ہے۔پیشہ ورانہ کاموں سے لے کر تفریحی اوقات کی مصروفیت تک سب کچھ اب سکرین کے گرد گھومتا ہے ۔اگر آپ 20 لوگوں سے فارغ وقت کا کوئی مشغلہ پوچھیں گے تو اس میں سے اٹھارہ افراد کا جواب یہ ہوگا کہ وہ واٹس ایپ دیکھتے ہیں ویڈیوز دیکھتے ہیں یا ادھر ادھر سوشل میڈیا کی سیر کر کے وقت گزارتے ہیں یقین کریں ہم میں سے بیشتر لوگ بھی اسی طرح اپنا وقت گزارتے ہیں۔لیکن اپنے می ٹائم کو مثبت اور پروڈکٹو بنانے کے لیے ضروری ہے کہ یہ وقت سکرین سے ہٹ کر گزارا جائے۔کوئی ایسا کام کیا جائے جو آپ اپنے ہاتھوں سے کرتے ہیں۔ پینٹنگ ، باغبانی ، کتاب پڑھنا، آپ پرانی چیزوں سے ناکارہ چیزوں سے کارآمد چیزیں بنانے کا کوئی مشغلہ اختیار کر سکتے ہیں۔ یعنی ہر وہ کام جو آپ خود اپنے ہاتھوں سے کرتے ہیں۔ خواتین کروشیہ اور اون سے سویٹر بننے کا کام بھی کر سکتی ہیں اور مرد حضرات اپنے پسند کے مطابق کوئی مشغلہ اختیار کر سکتے ہیں۔ ایکسرسائز کرنا، یوگا کرنا ،اپنے ساتھ مکمل انوالو ہو کر کوئی بھی جسمانی سرگرمی کرنا بھی می ٹائم کا ایک بہت اچھا انداز ہے۔ صبح یا شام کی سیر کے لیے کسی قریبی پارک میں کھلی جگہ پہ چلے جانا جہاں آپ کو فطری ماحول میسر ہو ،جہاں درخت ، پرند ے پھول ہوں ، اس ماحول میں سیر کرنا بہت فائدہ مند ہوتا ہے۔بہترین وقت گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ اس دوران آپ خود کو روزمرہ کے مسائل اور پریشانیوں سے علیحدہ کریں۔ میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ جب نماز کے دوران ذکر اور اذکار بھی ایک انتہائی اعلی درجے کا می ٹائم ہے جس میں آپ اللہ کا ذکر کرتے ہیں اور اپ اللہ تعالی کے ساتھ اپنی ذات کو کنیکٹ کرتے ہیں۔ جوں جوں انسان اپنی مادی ضرورتوں کے لیے اپنی زندگی میں مصروف ہوتا چلا گیا اور اس نے اپنے لیے زندگی گزارنے کے بڑے بڑے اہداف مقرر کیے اور ان اہداف پر پہنچنے کی تگ و دو میں وہ اپنی ذات کے مرکزے سے دور ہٹتا چلا گیا اس سے اس کی نفسیاتی الجھنیں بھی بڑھتی چلی گئی بہت سارے جسمانی عوارض میں بھی اضافہ ہوتا گیا یہی وجہ ہے۔ آج کے دور میں جس طرح کے جسمانی عوارض اور بیماریاں موجود ہیں۔ آج سے چالیس پچاس برس پہلے اس کا تصور بھی نہ تھا۔ ایک مریضہ کی کہانی سنیے جنہوں نے گھر داری اور بچے پالنے کے ساتھ ایک بہترین پرفیشنل زندگی گزاری۔ ریٹائرمنٹ میں کچھ سال باقی تھے کہ وہ بیمار ہوگئیں قصہ مختصر بیماری طول پکڑ گئی پھر مختلف طرح کے تشخیصی ٹیسٹوں کا سلسلہ چلا بڑی بیماری ڈائیگنوز ہوئی ڈاکٹروں نے ان کی کیس ہسٹری لی تو پتہ چلا کہ ایک تو وہ پانی بہت کم پیتی تھی دوسری بات یہ کہ زندگی کے چھوٹے چھوٹے معاملات میں بہت زیادہ سٹریس لیتی تھی گھر اور دفتر کی ان ذمہ داریوں کی ادائیگی میں اپنی صحت کا خیال رکھنے کا وقت نہیں ملتا تھا۔ بیماری نے زندگی کی پروفیشنل اور نان پروفیشنل مصروفیات کو بے معنی کرکے رکھ دیا۔ ڈاکٹرز نے کہا کہ آپ کو اپنے لائف سٹائل کو بدلنا ہوگا ،مطلب یہ تھا کہ اپنی بھاگ دوڑ کو کم کیا جائے زندگی سے ہر طرح کے بوجھ کو کم کیا جائے اور اپنے صحت پر فوکس کیا جائے۔وہ اب بہتری کی طرف گامزن ہیں۔خاص اپنے لیے کچھ کام کرتے وہ اب یہ سوچتی ہیں کہ ان چیزوں پر وہ اس لیے فوکس نہیں کر سکیں کہ ان کے پاس وقت نہیں تھا۔ لیکن اس بھاگ دوڑ نے ان کی زندگی کے مرکزے کو متاثر کیا صحت ہماری زندگی کا مرکزہ ہے اگر صحت ٹھیک ہے تو ہم زندگی کے دوسرے کام کرنے کے قابل ہیں۔ ایک مشہور امریکی اداکارہ نے کہا کہ اس کا پسندیدہ می ٹائم یہ ہے کہ رات سونے سے پہلے اپنی ڈائری پر دن بھر کی تمام پریشان کن باتوں کو لکھ کر اپنے ذہن کا بوجھ اتار دیتی ہے خود ہلکی پھلکی ہو کر اپنے بستر پر لیٹنے کے لیے جاتی ہے۔کہتی ہیں کہ میری کہانی یہ تھی کہ میں روزانہ سونے سے پہلے تمام دن کے مسائل پر کڑھتی ماضی کے پچھتاوے ، فردا کے خوف اور بے یقینی سنپولیے کی طرح ڈستے ،کبھی خود سے سوال و جواب کہ مجھے کیا کرنا چاہیے تھا کیا نہیں کیا کون سی چیزیں مجھے ناکام کر رہی ہیں، پھر اس ادھیڑ بن میں میری ذہنی صحت اتنی متاثر ہوئی کہ میری نیند اڑ گئی اور میں شدید ذہنی بیماریوں میں گھرتی چلی گئی۔ علاج کے لیے ذہنی صحت کے ماہر نے انہیں مشورہ دیا کہ بستر پر جانے سے پہلے کچھ وقت آپ بالکل اپنے ساتھ گزاریں۔ آپ ایک ڈائری لیں اور جو پریشان کن سوچیں آپ کے ذہن میں آئیں انہیں اپنی ڈائری کے صفحات پر اتار دیں۔اداکارہ کا کہنا ہے کہ میں نے اس مشق کو کرنا شروع کیا اور مجھے محسوس ہوا کہ میں محض اپنی پریشان کن سوچیں اپنی ڈائری پر نہیں اتارتی بلکہ ہر رات ایک بھاری صندوق اپنے کاندھوں سے اتار کر میں ہلکی پھلکی اور پرسکون ہو کر نیند کی آغوش میں چلی جاتی ہوں۔تو عزیز قارئین آپ بھی زندگی کے اس ہنگام میں ہر روز رک کر ،ٹھہر کر کچھ وقت اپنے ساتھ ایسے گزاریں کہ اپنے ذہنی بوجھ کو ہلکا کریں اور اپنے خالی پیالے کو پھر سے بھریں نئے سال کے آغاز میں جہاں آپ بہت کچھ اپنی زندگی میں بہتر کرنے کی آرزو رکھتے ہیں وہاں اس زاویے سے بھی زندگی کو سمجھنے کی کوشش کیجیے گا۔