قطب الاقطاب حضرت شاہ رکنِ عالم کا 709 واں عرس رواں ہوا تو،منیجر اوقاف ملتان سیّد ایاز گیلانی نے محبت بھری دعوت پیش کی،کہ بر صغیر کے سادات نقوی و بخاری سلسلہ سہر وردی کے ان شیوخ سے عقیدت وارادت کے حامل ہیں، لمحات اختتام ہی سے سعادت افروز ہوجائیں، حاضری کا اعزاز تو نہ پاسکا، البتہ ان سطور کے ذریعے نیاز مندی کا اہتمام لازم ہوا۔ ہمیشہ کی طرح سجادہ نشین درگاہ ِ معلی حضرت مخدوم شاہ محمود قریشی اپنے روایتی شکوہ کے ساتھ مسندِ صدارت و سیادت پر جلوہ آراء ہوئے، مشائخ و سادات اور علم و خطبا کی تشریف آوری، صاحبزادہ ڈاکٹر محمد صدیق خان کی نظامت و نقابت اور اوقاف و مذہبی امور کے عمدہ انتظام و انصرام اور ان کی تصنیفات و تالیفات مذکورو ممنون ہوئیں۔ ان اعراس پر ایک جذبہ اور ولولہ شوق مریدین و متوسلین میں ہوتا ہے اور ایک مسابقت و مفاخرت صاحبزادگان میں بھی، بالخصوص ان ایام ِعرس پہ عود آتی ہے۔ اور ہمیشہ کی طرح صاحبزادہ مریدحسین قریشی براردرِخورد حضرت سجادہ نشین صاحب،کچھ نہ کچھ نیا کرنے کے موڈمیں، مقررہ سٹیج پر بیٹھنے کی بجائے عام زائرین و سامعین میں جابیٹھے۔ مشائخ و سلاسل میں ایک فردِ وحید توسجادہ نشین بن جاتا ہے اور اس کے باقی برادران و اقاربان اس محرومی کے ازالے کے لیے نت نئے مناظر تخلیق کرتے، اور اپنے خبطِ سجادگی و احساس صاحبزادگی کو تسکین دینے کیلئے کوشاں رھتے ھیں۔ بالخصوص جب ان اولیا وصوفیاکے سالانہ ایام آتے ہیں تو اس میں شدت آجاتی ہے۔ ادب کا مقام ہے، از خودزیادہ طبع آزمائی نہیں کرنا۔خانقاہی دنیا کے نابغہ پیر سیّد نصیر الدین نصیر الگیلانی کی یہ باتیں اس ضمن میں بالا ہیں،وہ کہتے ھیں کہ : میرے لڑکپن میں جدِّ امجد حضرت سیّد غلام محی الدین المعروف قبلہ بابو جی رحمتہ اللہ علیہ (1974ئ)مجھے اکثر فرمایا کرتے تھے کہ صاحبزادگی سے بچو، یہ ایک مہلک مرض ہے۔ جہاں تک ہوسکے، اپنے اندر ایسے کمالات پیدا کرو، جو درگاہ سے نسبت کے علاوہ بھی تمہاری پہچا ن ہوں، کیوں کہ ساری دنیا مْرید تو نہیں ہوتی، جو محض خْوش عقیدتی کی بنا پر ناخوب کو بھی خوب اور بے کمال کو بھی کمال سمجھتی رہے۔ صحیح قدر و منزلت تو اپنی فطری استعداد اور علمی قابلیت ہی سے پیدا ہوتی ہے، جس سے متاثر ہو کر نا آشنا اور غیر متعلق لوگ بھی حلقہ تعارف میں شامل ہوجاتے ہیں۔ صاحبزادگی سے بچنے کی تلقین آپ نے کوئی ایک دوبار نہیں، بارہا فرمائی۔ اس حد تک کہ جب کبھی دادا جانؒ کے سامنے جانے کا اتفاق ہوتا تومجھے یہی اندیشہ دامن گیررہتا کہ اب پھر سب مریدین کے سامنے میری صاحبزادگی پر تبصرہ ہوگا کہ یہ نہ کرو، وہ نہ کرو۔ ایسا کرنا ٹھیک نہیں وغیرہ۔ سچی بات یہ ہے کہ کم سنی اور کم علمی کے باعث،اِن قیمتی اور شخصیت سازنصائح پر بعض اوقات اْلجھن بھی ہوتی تھی کہ داداجان ان مریدوں کے سامنے، جو بڑی عقیدت مندی سے میرے ہاتھ پاؤں چومتے ہیں،صاحبزادگی پر تلخ تبصرہ فرما کر بے عزت کردیتے ہیں۔ نتیجتاً مریدوں کی موجودگی میں حاضری سے احتراز کرتا تھا، مگر بحمد اللہ دینی تعلیم اور ذہنی پختگی نے آہستہ آہستہ اس اْلجھن سے نجات دلادی۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ جس کے ذہن میں صاحبزادگی کی بْو پڑجاتی ہے، وہ اپنے بزرگوں اور خاندان کی عظمتوں کے افتخار میں مبتلا ہوجانے کے باعث علم و فضل اور دیگر اخلاقی عظمتوں کے حاصل کرنے سے محروم رہ جاتا ہے،اصل میں یہ اندازِ فکر حضرت ِ اعلیٰ گولڑوی قدس سرّہ کی تعلیم و تربیت کا نتیجہ تھا، چنانچہ اس ضمن میں مْولّفِ مہر مْنیر لکھتے ہیں:" ایک مرتبہ حضرتِ اعلیؒنے فرمایا کہ ہمارے دل میں خیال گزرا کہ برخوردار غلام محی الدین کی بیعت اپنے پیر خانہ سیال شریف میں کرادیں، لیکن اس امر نے بازرکھا کہ صاحبزادگی بڑا نازک مقام ہے، مبادا یہ اس بار کو نہ اٹھاسکے، چنانچہ اپنے پاس ہی رکھنا بہتر خیال کیا ۔ ہر مرید شیخ کا قْرب حاصل کرنے کی خاطر شیخ کی اولادکی خدمت کرنا اپنے لیے باعث سعادت سمجھتا ہے۔ اس عجب کی وجہ سے اکثر صاحبزادگان کسبِ کمال سے محروم رہ جاتے ہیں،لیکن اس طبیبِ حاذق اور فرض شناس والد نے اپنے فرزند کے تربیتی نسخے میں ابتداء ہی سے اس متعدی بیماری کا پرہیز شامل کر دیا تھا اور تاکیدفرمائی تھی کہ خود ی کو مٹائے رکھنا،مشغولِ خدمتِ خَلق رہنا، "اَحَدمِّنَ النَّاس" بن کر رہنا۔ نتیجہ یہ ہواکہ حضرت بابو جی ؒایک طرف تو دنیا کی بڑی سے بڑی شخصیت سے مرعوب نہیں ہوتے اور دوسری طرف ادنیٰ سے ادنیٰ انسان پر بھی شفقت میں کوئی کمی نہیں آنے دیتے۔ اگرچہ اکلوتے بیٹے تھے، سب کی توجہ کا مرکز، ہر ایک خوشنودی حاصل کرنے کا خواہاں۔ غرض بگاڑ کے سارے سامان موجود تھے، مگر اللہ رے استقامت۔کہ طبیعت ہمیشہ فقرہی کی طرف مائل رہی۔ آپ ہی مزید فرماتے ہیں : مریدوں کے نذرانے اور ان کی دست بوسیاں خانقاہی نظام میں پروان چڑھنے والے اکثر سجادہ نشینوں اور صاحبزادوں کے دماغ خراب کردیتی ہیں، اس بگاڑ میں مریدین کے ان القاب کو بھی بڑا دخل ہوتا ہے، جنہیں وہ پیروں اور پیرزادوں کے لیے جاو بے جا اور بے دریغ استعمال کرتے ہیں، مجھے مریدوں کی مخلصانہ محبت و عقیدت سے اختلاف نہیں، لیکن اتنا ضروردیکھنا چاہیے کہ جو سلوک ہم اپنے مشائخ اور مشائخ زادوں کو دے کررہے ہیں، کیا ان کی عمر، علم اور ذہن اس کا متحمل بھی ہے کہ نہیں۔ آج کل اہل خانقاہ میں صوفیا ئے رفتہ کا عرفان و وجدان، زْہدو تقوٰی اور علم وفضل کہاں، لیکن اگر آنے والا کم ازکم ان کے اقوال و اعمال،حرکات و سکنات سے درس اخلاق و ادب بھی نہ حاصل کر سکے تو پھر ان کے وجود کا کیا فائدہ؟چنانچہ اس سلسلے میں اِ حیا العْلْوم کے ابواب بعنوانِ کبر،حسد،جاہ وغیرہ کا مطالعہ بے حد مفید ہے۔ مخلص مْریدین کوچھوڑ کربعض ایسے ماڈرن اور ایڈوانسڈقسم کے حضرات بھی مشائخ کی دست بوسی کرتے ہیں، جن کے دل و دماغ میں نہ تو خانقاہوں سے عقیدت ہوتی ہے، نہ وہ اہل خانقاہ کے مقام و مرتبہ سے آگاہ ہوتے اور نہ ہی ان سے طبعاً کوئی دلچسپی رکھتے ہیں، مگر کسی وقتی مصلحت، کسی مجبوری یا مقصد برآری کے تحت انہیں آدابِ خانقاہ کو ملحوظ خاطر رکھنا پڑتا ہے اور جب وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتے ہیں تودست بوسی کا ذکر ہی کیا،مشائخ سے آنکھ تک نہیں ملاتے اور بعض ایسے شاطر لوگ بھی ہوتے ہیں، جومحض نمائش کی خاطر شیخ کی دست بوسی کو جھکتے ہیں، تاکہ ماحول پر ان کی کمالِ عقیدت کا تاثر قائم ہوسکے، ایسے لوگ شیخ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تولے لیتے ہیں،لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر شیخ کے ہاتھ کے بجائے اپنا دست ِمبارک چوم لینے میں ہاتھ کی وہ صفائی دکھاتے ہیں کہ عام ذہن ان کی اس منافقانہ حرکت کومحسوس تک نہیں کر پاتے۔ اسی طرح بعض مریدین اپنے برادران طریقت کے حلقہ میں شیخ کے ساتھ اپنے قرب یاخصوصی تعلق اور نوازش کی مَن گھڑت داستانیں بیان کرنے کے دھنی ہوتے ہیں، وہ اپنے پیر بھائیوں کو چرب زبانی سے اپنے اہمیت جتانے کی کوشش کرتے ہیں، اس قماش کے اکثر لوگ مخلص نہیں ہوتے، بلکہ ایسی داستانیں اور فرضی قصے سنانے سے ان کا مقصد برادران طریقت سے اپنی مطلب براری ہوتا ہے۔ یا محض فریب ِنفس کی خاطر اپنے برتری جتلانا مقصود ہوتا ہے،لہٰذا اس قماش کے لوگوں سے مخلص اور سچے مریدوں کو ہمیشہ ہوشیاررہنا چاہیے،اس لیے کہ خانقاہوں میں ایسے لیموں نچوڑ اپنی چرب زبانی اور جادْوبیانی سے سادہ لوح اور مخلص پیر بھائیوں کو فریب دینے میں کامیاب ہوجایا کرتے ہیں۔