اگر یہ کہا جائے کہ بر عظیم میں سرسید احمد خاں کے پائے کی شخصیت ڈھونڈنا کار دشوار ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ سیاست کی نگری ہو یا صحافت کا کوچہ، تعلیم کا میدان ہو یا ادب کا گلشن، تاریخ کی بھول بھلیاں ہوں یا اخلاقیات کا ابرِ بہاراں، 1857ء کی اِبتلا ہو یا ہندوستان میں تعلیمی سلسلے کی ابتدا، مخالفین سے مجادلہ ہو یا اپنے ہمسروں سے مناقشہ، سید احمد خاں ہر راستے میں منارہ نور کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انگریزی اقتدار کے بعد ایک طرف وہ ہندوؤں کی بھڑکائی آگ کو بجھانے میں لگے ہیں۔ دوسری جانب ’رسالہ اسباب بغاوت ہند‘ (1858ئ) اور ’تاریخ سرکشی بجنور‘ (1859ئ) جیسے تیکھے رسالوں کے ذریعے مسلمانوں کا بیان صفائی مرتب کر رہے ہیں، جن میں درج تلخ حقائق سے بعض انگریز افسر تو ایسے جِز بِز ہوئے کہ اس جسارت پر انھیں پھانسی پہ لٹکانے کا عندیہ ظاہر کر دیا۔ ہندوستان کے لیفٹیننٹ گورنر ولیم میور کی بد نیتی پر مبنی ’لائف آف محمدؐ‘ (1868ئ)سامنے آئی تو تب تک چَین کی نیند نہیں سوئے، جب تک لندن میں بیٹھ کر بارہ مبسوط خطبات پر مشتمل ’خطباتِ احمدیہ‘(1870ئ) کی صورت میں اُس کا مدلل جواب نہ لکھ لیا۔ اس کے لیے فنڈز کم پڑ گئے تو محسن الملک کو لکھا کہ مقصد کو ادھورا نہیں چھوڑا جا سکتا، اس کے لیے میرا مکان بھی بک جائے تو دریغ نہ کرنا۔ 1871ء میں ڈاکٹر ہنٹر کی کتاب ’’Our Indian Mussalmans‘‘سے سلگنے والی آگ کو بھی سرسید نے اپنی دانش وحکمت سے یہاں تک مدھم کیا کہ ہنٹر خود سرسید کے مدرسۃ العلوم کے بورڈنگ ہاؤس کے لیے چندہ دینے پہ رضامند ہو گیا۔ تیسری سمت میں اُمت مسلمہ کی اَجہل معاشرت اور اسفل اخلاقیات کو علم کی روشنی سے اجالنے کی فکر میں گھلے جا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 1870ء میں لندن سے لَوٹے تو ’تہذیب الاخلاق‘ کا ڈیکلریشن اور ’مسافرانِ لندن‘ کا مسودہ اضافی بونس کے طور پر ہمراہ تھا۔ چوتھا میدان انھوں نے مسلمانوں کو جدید تعلیم سے بہرہ ور کرنے کے لیے سجا رکھا ہے۔ مراد آباد سکول بنایا، اہم انگریزی کتب کو اُردو کا جامہ پہنانے کے لیے غازی پور میں سائنٹفک سوسائٹی (1863ئ) کی بنیاد رکھی۔ 1966ء میں اسی کی تشہیر و اشاعت کے لیے ’علی گڑھ انسٹیٹیوٹ گزٹ‘ جاری ہوا جو سرسید کی وفات (1898ئ) تک جاری رہا۔ علی گڑھ کالج اسی سلسلے کا باوقار تسلسل ہے، جو مسقبل قریب میں ہندوستان بھر میں علم و دانش کا سب سے بڑا مرکز قرار پایا اسی کالج کی بابت کہا جاتا ہے کہ پاکستان کی پہلی بنیاد اس کے ایوانوں اور میدانوں میں رکھی گئی۔ پانچویں صفت یہ کہ جس زمانے میں یہ شخص تاریخ کی طرف راغب ہوا تو امیر تیمور سے بہادر شاہ ظفر تک تینتالیس بادشاہوں کے مختصر احوال پر مشتمل فارسی تذکرہ ’جامِ جم‘ (1839) اسی طرح ’آثارالصنادید‘ (1847ئ) کی تصنیف، ’آئینِ اکبری‘ (1855ئ) کی تصحیح اور ’تاریخِ فیروز شاہی‘ (1862ئ) کی تدوین جیسے مشکل ترین مراحل سے فرزانہ وار گزر گیا۔ چھٹا امر یہ کہ دین کی محبت میں تفسیرِ قرآن اور دیگر امور کے ساتھ ’کلمۃ الحق‘ (1849) ’راہِ سُنت و ردِ بِدعت‘ (1850) ’کیمیائے سعادت‘ (1853) بھی ان کی مساعیِ جمیلہ کی شاہد ہیں۔ دوستو! یہ سچ ہے کہ سترہ اکتوبر1817ء کو عرب النسل ہندوستانی سید محمد متقی کے ہاں پیدا ہونے والے سید احمد خاں برِ صغیر میں مسلمانوں کی تعلیم، تعظیم، تکریم، تحریم ، تسلیم کے سب سے بڑے مویّد، محرک اور نہایت متحرک مجاہد تھے۔ وہ آج سے ٹھیک دو سو پانچ سال قبل متحدہ ہندوستان کے تاریخی و تہذیبی شہر دہلی میں پیدا ہوئے اور ہوش سنبھالنے سے آنکھیں بند ہو جانے تک اُردو صحافت، اُردو ادب، مسلمانوں کی تاریخ، تعلیم، اسلامی تہذیب اور1857ء کے بعد مسلمانوں کے سب سے بڑے وکیل اور محافظ کے طور پر زندہ رہے۔ کسی دانش مند نے کیا خوب کہا کہ سرسید کو ایسی قوم کی تعلیم و تربیت کرنی پڑی جو نہ صرف اپنی حالت کو سُدھارنے اور ترقی کی طرف قدم بڑھانے پر کسی صورت آمادہ ہی نہ تھی بلکہ خود سرسید کے بھی خلاف تھی۔ سرسید احمد خاں نہ صرف جدید اور عام فہم اُردو نثر کے فروغ میں پیش پیش رہے بلکہ یہ بات بھی مبنی بر حقیقت ہے کہ جہاں سرسید اُردو ادب میں مضمون، انشائیے، تنقید، تحقیق، ناول، سفرنامہ، سوانح نویسی، سیرت نگاری، جدید نظامِ تعلیم اور ادبی صحافت کے محرک ہیں، وہاں جدید شاعری اور تانیثیت کا اَنکھوا بھی اسی تحریک کی کوکھ سے پھوٹا ہے۔ پھر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بر عظیم میں دو قومی نظریے کی خشت اول بھی انہی کے دست مبارک سے نصب ہوئی۔ اُن کی حیثیت تو برِ عظیم کی تاریک سیاسی اور ویران سماجی رات میں ایسے منارۂ نور کی ہے، جس کی روشنی میں آج بھی ہماری تعلیمی، تہذبی، صحافتی دانش، بہتر سے بہتر راستہ تلاش کر سکتی ہے۔ انھوں نے اپنے مشن کے فروغ اور ملت کی فلاح کے لیے رسائل و کتب میں اتنا کچھ لکھا کہ شاید ہی کسی دوسری شخصیت سے اتنا وفور ممکن ہو۔ جب لوگوں نے سرسید کے اَکھڑ اسلوب اور اُکھڑے الفاظ پہ اعتراض کیا تو اُن کے سب سے موافق اور مخلص ساتھی مولانا الطاف حسین حالی نے کہا: ’’سرسید کی حالت تو اس شخص کی سی تھی، جس کے گھر میں آگ لگی ہے اور وہ ہمسایوں کو بے تابانہ پکارتا ہے۔‘‘ اس قدر ہماہمی اور گوناگونی کے باوجود مزاج میںشگفتہ مزاجی و حاضر جوابی کی رمق تا دمِ مرگ قائم رہی۔سرسید اور اُن کے رفقا کہ جنھیں مہدی افادی نے اُردو کے ’ارکانِ خمسہ‘ کا نام دیا تھا، اصل میں چند شخصیات کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک تہذیب، ایک رجحان، ایک رویے، ایک مشن، ایک عزم، ایک ارادے کا نام تھا۔ وہ اُمتِ مسلمہ کے ایسے مسیحا تھے، جو ایک ہی وقت میں مشترکہ سماجی امراض کے تسلّی بخش حل اور انفرادی ادبی اغراض کے اجتماعی فروغ کا عَلم اٹھائے ہوئے تھے۔ یہ مختلف المزاج دانا حکیم، مختلف التاثیر دواؤں سے مشترکہ ملی امراض کا علاج چاہتے تھے۔ انیسویں صدی کا نصف آخر ان عظیم شخصیات کی مضبوط و مستحکم صداؤں سے گونجتا دکھائی دیتا ہے۔ ستم کی بات یہ کہ انھوں نے مسلمانوں کی اصلاح کی ٹھانی تو وہ مخالفت میں اٹھ کھڑے ہوئے۔ ادب میں نئے رجحانات کو متعارف کرایا تو لکھنو والے چڑھ دوڑے۔ اصل میں دِلی اور لکھنو کا یہ ٹاکرا صرف دو سماجوں، رواجوں، مزاجوں ہی کا نہ تھا، ترجیحات و تفہیمات کا بھی تھا۔ یہ مناقشہ ’تہذیب الاخلاق‘ اور ’اَوَدھ پنچ‘ (1877ئ) ہی کا نہیں، تبدیلی اور جمود کا بھی تھا۔ یہ زمانہ قدیم کا وہ تہذیبی ٹاک شو تھا، جس کی قدم قدم، قلم قلم،لمحہ لمحہ اور لحظہ لحظہ ریٹنگ ہوتی تھی۔ بہرحال اس کشمکش کا فیصلہ لکھنوی تہذیب کے سب سے بڑے نمایندے اکبر کے اس دو ٹوک خراج سے ہو جاتا ہے: ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سید کام کرتا تھا نہ بھولو فرق جو ہے، کہنے والے، کرنے والے میں