ہر سال 14 اگست پر صدر پاکستان صدارتی اعزازات کا اعلان کرتے ہیں۔ ہلال امتیاز، ستارہ امتیاز اور پرائڈ آف پرفارمنس یہ صدارتی ایوارڈز کی مختلف کٹیگریز ہیں۔ ہر برس کچھ ایوارڈ پانے والے نام متنازع ضرور ہوتے ہیں جن پر بحث ہوتی ہے کہ ان کو کس کھاتے میں ایوارڈ دیا گیا ۔ اسی طرح ان شخصیات کا تذکرہ بھی ہوتا ہے جنہیں یہ ایوارڈ ملنا چاہیے تھا لیکن اس بار بھی ان کو ایوارڈ سے محروم رکھا گیا۔ہر سال جب صدارتی ایوارڈ ملتے ہیں تو میری آنکھوں کے سامنے ایک منظر گھوم جاتا ہے یہ 2004ء کی بات ہے کہ میں ایک بڑے اردو اخبار کام کرتی تھی۔ عارف نجمی وہاں سنئیر فوٹو گرافر تھے۔ پرنٹ میڈیا میں وہ کئی دہائیوں سے فوٹو جرنلسٹ کی حیثیت سے کام کررہے ہیں۔ انہوں نے بلیک اینڈ وائٹ سے رنگین تصویر کشی کا سفر طے کیا ہے۔اخبارات کے رنگین صفحات شروع ہوئے تو سب سے پہلے رنگین تصاویر انہوں نے اپنے گھر کے سٹوڈیو میں ہاتھوں سے تیار کیں ایک تصویر تیار کرنے میں کئی کئی گھنٹے درکار ہوتے تھے۔عارف نجمی ایک فارم پر کر رہے تھے پتہ چلا کہ تصویری صحافت میں ان کی طویل خدمات کے صلے میں ان کا نام صدراتی ایوارڈ کے لیے ریکمنڈ ہونا ہے جس کے لئے وہ ایک فارم پر کر کے بھیج رہے ہیں۔ 2023ء میں اس واقعے کو 19 واں سال ہے اس برس پاکستان کے سینئر ترین فو ٹو جرنلسٹ عارف نجمی کو صدارتی ایوارڈ ملا۔ 19 سال کی تاخیر سے ایوارڈ ملنے کی وجہ یہی ہوگی کہ ان کی کوئی لابی نہیں تھی۔اسی عرصے میں اخبار کے کئی ایسے ساتھیوں کو ایوارڈ ملا جن کی کہیں بھی کوئی خاص کنٹریبیوشن نہیں تھی۔ مگر لابنگ مضبوط تھی۔ حیرانی ہوتی تھی اس ایوارڈ کا معیار کیا ہے ؟ باکمال ناول نگار اور افسانہ نگار محمد الیاس کو صدارتی ایوارڈ ملنے کی دلی خوشی ہوئی۔اردو ادب میں افسانے اور ناول نگاری میں ان کا بہت کمال کام ہے وہ اس سے زیادہ بڑے ایوارڈ کے مستحق ہیں۔بہرحال ایک درویش صفت خالص تخلیق کار کو ایوارڈ ملنے کی مجھے خاص طور پر خوشی ہوئی۔ سرائیکی زبان کی ادیبہ مسرت کلانچوی صاحبہ کو ادبی خدمات کے صلے میں پرائڈ آف پرفارمنس دیا گیا یہ بھی خوشی کی خبر ہے۔میں تو سمجھتی ہوں کہ ان کے شریک حیات نامور صحافی اسلم ملک صاحب بھی اپنی دیانتدارانہ طویل صحافتی خدمات کے نتیجے میں پرائیڈ آف پرفارمنس کے مستحق ہیں۔ کیا ایوارڈ کے لیے صحافی کا 'مشہور اور گلیمرس ' ہونا ضروری ہے ۔جمعہ جمعہ آٹھ دن الیکٹرانک میڈیا کی صحافت میں کام کرنے والی گلیمرس اینکر کو ایوارڈ ملا تو مجھے اسلم ملک کے ساتھ سینئر صحافی تاثیر مصطفی صاحب کا خیال بھی آیا کہ ساری عمر اس دشت کی سیاحی میں گزار کر ان کا قصور یہ ہے کہ وہ"گلیمرس فیس" نہیں ہیں۔ اس بار عقیل عباس جعفری، نذیر قیصر ،سلیم شہزاد ،عباس تابش کو بھی ایوارڈ دیے گئے۔ افتخار عارف صاحب کو نشان امتیاز دیا گیا۔ بلا شبہ سب بڑے نام ہیں اور اپنے کاموں میں یکتا ہیں ۔ایسے نام بھی ہیں جنہیں ایوارڈ ملنے پر حیرت ہوئی۔جب ایسے ناموں کو ہم ایوارڈ کی فہرست میں دیکھتے ہیں تو لامحالہ کسی لابنگ اور گروپنگ کا خیال آتا ہے۔ کچھ سال سے جب بھی صدارتی ایوارڈ کا اعلان ہوتا ہے تو مجھے ایک نام کی تلاش ہوتی ہے۔ مگر ہر بار وہ نام نہیں ہوتا مجھے دکھ ہوتا ہے ذاتی طور پر کہ آ خر کیا وجہ ہے کہ خالص تخلیق کار جس نے اردو پڑھنے والوں کو قابل قدر ناول،افسانے اور سفر نامے عطا کیے ہیں۔انہیں ابھی تک سرکاری سطح پر کیوں نہیں سراہا گیا۔ وہ نام ہے محترمہ سلمی اعوان صاحبہ کا جنہوں نے جنگ زدہ عراق فلسطین اور شام کے سفرنامے بھی لکھے اور سفر ناموں کا حق ادا کر دیا۔ ادب کے حوالے سے جن کو ایوارڈ ملنا چاہیے تھا مگر اس بار بھی نہیں ملا ان میں ایک اہم نام اختر عثمان ہے۔ اختر عثمان اسلام آباد میں رہتے ہیں اورکیا بے پناہ شاعر ہیں۔ اردو، انگریزی، فارسی پر یکساں مہارت رکھتے ہیں۔ فارسی میں بھی شعر کہتے ہیں۔ادبی تنقید نگاری میں مہارت رکھتے ہیں۔ بہت سے جیئنون شاعر اور ادیب جو گزشتہ تیس پینتیس سال سے تخلیق کاری میں مصروف ہیں اور شعر و ادب کو پسند کرنے والے لوگوں کے ذوق کی آبیاری کر رہے ہیں انہیں بھی صدراتی ایوارڈ ملنا چاہیے۔کئی نام میرے ذہن میں آرہے ہیں لیکن میں یہاں نہیں لکھوں گی کہ شاید بہت سے نام رہ جائیں۔ اگر مہوش حیات اور ہمایوں سعید کو قدرے جوانی میں ایوارڈ دیا جا سکتا ہے تو لکھاریوں اور شاعروں کی عمر بڑھنے کا انتظار کیوں کیاجاتا ہے۔ میرے خیال میں پرائڈ آف پرفارمنس کا دائرہ وسیع کر دینا چاہیے۔ صرف ادیبوں شاعروں فنکاروں کے اور کھلاڑیوں کے ساتھ زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے۔ عام پاکستانی تک اس اس ایوارڈ کا دائرہ بڑھا دینا چاہئے۔ کتنے ہی ایسے گمنام سپاہی ہیں جو پاکستان کی تعمیر و ترقی میں بغیر کسی صلے اور ستائش کی تمنا کے اپنا خون جگر دے رہے ہیں۔ ان کے اچھے کاموں کو سراہنا بھی ریاست کا فرض ہونا چاہئے پاکستان کی تعمیر و ترقی میں تو ایک مزدور کا بھی حصہ ہے۔ دیانت دار دکاندار کا بھی حصہ ہے ایک پرائمری کے استاد کا بھی حصہ ہے جو دل لگا کر بچوں کی بنیاد بناتا ہے اور تھوڑی تنخواہ پر گزارا کرتا ہے لیکن اپنے کام کو بہترین انداز میں سرانجام دیتا ہے ایسے کاروباری افراد کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے جنہوں نے اپنے کاروبار کے ذریعے دوسرے لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کیے۔چھوٹے پیمانے پر ویلفیئر کا کام کرنے والے پر خلوص افراد کے کاموں کو بھی سراہا جا سکتا ہے۔ایوارڈ ایک علامت ہے کہ آپ کو ریاست کی طرف سے سراہا گیا۔زندگی کے مختلف شعبوں میں بہترین کارکردگی کے حامل پاکستانیوں کو سرکاری سطح پر سراہا جائے گا تو نہ صرف ان کی کارکردگی اپنے شعبے میں مزید بہتر ہوگی بلکہ اپنے اپنے شعبوں میں رول ماڈل کا کردار ادا کریں گے۔