’’ماں کی درخواست یہ ہے کہ سعد جو کرنا چاہتا ہے کر ڈالے۔اس کا کمانڈر میرے بیٹے کو مایوس نہ کرے۔ وہ محاذ پہ جانا چاہتا ہے تو چلاجائے۔ سعد کی ماں بس یہی چاہتی ہے‘‘ ام سعد نے کئی سال ہمارے ساتھ الغباسیہ میں بسر کیے تھے۔ پھر مہاجرین کے کیمپوں میں۔ اب ہر منگل کو وہ ہمارے ہاں پہنچتی ہے۔ مجھے وہ اپنا بیٹا سمجھتی ہے۔ اپنی چھوٹی چھوٹی مسرتیں اور پریشانیاں میرے سامنے رکھتی ہے۔ زمانے کی مگرشکایت نہیں کرتی۔ ام سعد کی عمر چالیس برس ہے۔ چٹانوں سے زیادہ قوت اور صبرو تحمل۔ اپنا ایک ایک لمحہ ریاضت میں بسر کرتی ہے۔ ایک روز میں کئی دنوں کا کام نمٹا کررزقِ طیب کا سامان کرتی ہے۔ ام سعد میری زندگی کا اٹوٹ حصہ ہے۔ گھر میں جب داخل ہوتی ہے تو میں اس سے لپٹ جاتا ہوں۔ فلسطینی مہاجروں کی خستہ حالت، غربت و ناداری اور دھند میں لپٹے بے وطنی کے ایام گزارنے والوں کی یادیں جی میں جاگ اٹھتی ہیں۔ حسبِ سابق پچھلے منگل آئی تو بولی ’’میں تمہیں کچھ بتانا چاہتی ہوں۔ سعد چلا گیا‘‘ ’’کہاں؟‘‘۔’’فدائین کے پاس‘‘۔ اب ایک بوجھل خاموشی تھی۔ وہ کتنی کمزور، تکان زدہ اور ناتواں ہے۔ نا مہربان زندگی کی مشقتوں نے اسے گھلا کر رکھ دیا ہے۔ اپنی گو د میں اس کے ہاتھ دھرے ہیں۔ اس کی ہتھیلیاں کسی درخت کے ٹکڑوں کی طرح خشک اور سخت ہیں۔ کسی شجر کے تنے کی طرح ان ہتھیلیوں میں بھی دراڑیں ہیں۔ ام سعد کا وہ المناک اور صعوبتوں سے پر سفر مجھے یاد آتا ہے جو زندگی کا اور ماں بیٹے کا سفر ہے۔سعد چھوٹا سا بچہ تھا، جب باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ انہی مضبوط ہاتھوں کی ممتا نے سعد کو پالا پوسا، حتیٰ کہ جوان ہو گیا۔ پودا ایک درخت بن گیا۔ اس میں گھونسلہ بنا کر رہنے والا پرندہ بیس برس کے بعد اڑ گیا تھا۔ ’’وہ فدائین میں شامل ہو گیا ہے‘‘ بارِ دگر میں ان ہاتھوں کو دیکھتا ہوں۔ ہاتھوں کی اپنی زبان ہوتی ہے۔ اب یہ ہاتھ مایوس ہیں۔ اس بیٹے کو ڈھونڈ رہے ہیں، سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر جو خطرات کے جنگل میں جا بسا ہے۔ مائیں کب تک اپنے بیٹے کھوتی رہیں گی،یا خدا! کب تک یہ خونچکاں المیہ جاری و ساری رہے گا؟ کب تک؟ امّ ِ سعد سے میں نے پوچھا’’سعد نے تمہیں کیا بتایا تھا‘‘۔۔۔’’اس نے مجھے کچھ بھی نہیں بتایا۔ بس وہ چلا گیا۔ صبح اس کے دوست نے مجھے اطلاع دی کہ فدائین کے لیے وہ روانہ ہو گیا۔‘‘ ’’کیا اس سے پہلے اس نے بتایا نہیں تھا کہ وہ چلا جائے گا۔‘‘ ’’مجھے اس کا علم تھا۔ میں سعد کی ماں ہوں۔ہر ماں اپنے بچوں اور ان کے ارادوں کو پہچانتی ہے۔مجھے معلوم تھا کہ ایک دن وہ چلا جائے گا‘‘ ’’پھر تم اتنی حیرت زدہ کیوں ہو؟‘‘ ’’میں؟۔۔۔میں بھلا کیوں حیران ہوتی!میں تو فقط بتا رہی ہوں‘‘ ’’اچھا اب تم جاننا چاہو گی کہ سعد کیا کر رہا ہے؟‘‘ گود میں رکھے اپنے ہاتھ اس نے ہلائے۔ اب وہ مضبوط اور خوبصورت دکھائی دے رہے تھے۔ یہ وہ ہاتھ تھے جو ہمیشہ کام میں جتے رہتے۔ ’’نہیں، آج صبح میں نے اپنی پڑوسن سے کہا تھا: کاش سعد ایسے میرے دس بیٹے ہوتے۔ہر صبح اللہ سے میں کہا کرتی: میرے خدا! بیس برس گزرگئے۔ اگر سعد فدائین کے ساتھ نہیں جائے گا تو پھر کون جائے گا؟‘‘ امّ ِسعد اٹھ کھڑی ہوئی۔ سارا کمرہ اس سادہ سی ہستی سے بھر گیا۔ مجھے فلسطین میں ہمارے گھر یاد آئے، جنہیں ہم چھوڑآئے تھے۔ امّ ِسعد باورچی خانے کی طرف گئی تو میں بھی گیا۔ ہنستے ہوئے وہ بولی: بس میں جو عورت میرے ساتھ بیٹھی تھی، میں نے اسے بتایا کہ میرا بیٹا مجاہد بن گیا ہے۔ میں نے اسے کہا: مجھے اپنے بیٹے سے محبت ہے اور میں اس کی جدائی میں جی رہی ہوں لیکن وہ اپنی ماں کا سچا بیٹا ہے۔ ہاں! تو کیا وہ اسے مشین گن دیں گے؟‘‘ ’’ہاں! وہ ہر مجاہد کو مشین گن ضرور دیتے ہیں‘‘ ’’اور کھانا؟‘‘ ’’کھانے کے لیے ان کے پاس بہت کچھ ہوتاہے۔‘‘ ’’وہ قریب ہوتا تو میں ہر روز اس کے لیے اپنے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا لے جاتی‘‘ ’’اسے وہاں اپنے ساتھیوں جیسا کھانا ملے گا‘‘ خدا ان سب پر اپنا فضل کرے۔‘‘ ایک لمحے کی خاموشی کے بعد میری طرف دیکھتے ہوئے وہ بولی ’’کہو تمہارا کیا خیا ل ہے، اگر میں اسے ملنے جاؤں تو کیا وہ خوش ہوگا؟ سفر خرچ کے لیے میں پیسے جمع کر سکتی ہوں۔ دو دن میں، میں وہاں پہنچ جاؤں گی‘‘ کچھ سوچنے کے لیے وہ رکی۔ پھر اس نے کہا ’’تم جانتے ہو کہ بچے والدین کو غلام بنالیتے ہیں۔ اگر میرے دوسرے دو بچے نہ ہوتے تو میں بھی سعد کے ساتھ چلی جاتی۔ میں وہاں اس کے پاس رہتی۔ کسی خیمے میں۔۔۔مجھے یقین ہے کہ گوریلا کیمپ کے خیموں کی حالت مہاجر کیمپوں جیسی بری نہ ہوگی۔ میں وہاں ان سب کے ساتھ رہتی۔ ان سب کے لیے کھانا پکاتی۔ میں ان کے سب کام کرتی لیکن کیا کروں، یہ دو بچے۔۔۔انہوں نے مجھے زنجیریں پہنا رکھی ہیں۔ میں نے جواب دیا ’’وہاں جانے کی ضرورت نہیں۔اکیلے ہی اسے حالات کا سامنا کرنے دو۔ ایک مرد فدائین میں شامل ہو تاہے،تو اسے ماں کی ضرورت نہیں رہتی‘‘ اس نے اپنے ہاتھ ایپرن سے صاف کیے۔پھر میرے پاس آئی اور بولی ’’مجھے وہاں جا کر کمانڈر سے یہ نہیں کہنا چاہئیے کہ وہ سعد کاخیال رکھے؟‘‘ ایک بارپھر وہ خاموش ہو گئی۔ وہ ہچکچا رہی تھی۔ اپنے جذبات سے نبرد آزما اس کی مامتا۔ ’’میرے خیال میں سعد کے کمانڈر سے مجھے کہنا چاہئیے کہ وہ میرے بیٹے کا خیال رکھے۔ میں اسے دعا دوں گی کہ خدا اس کے بچوں کو بابرکت زندگی بخشے۔ ’’نہیں تم کسی کمانڈر سے یہ نہیں کہہ سکتی کہ وہ کسی مجاہد کا خیال رکھے‘‘ ’’کیوں نہیں؟‘‘ اس نے پوچھا۔ ’’اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اس کے کمانڈر سے یہ کہناچاہتی ہو کہ وہ تمہارے بیٹے کو خطرات سے بچا رکھے جب کہ خود سعد اور فدائین خوب جانتے ہیں کہ خطروں سے کس طرح اور کیسے بچا جا تاہے۔تربیت جب تک مکمل نہیں ہوتی، وہ انہیں محاذ پر نہیں بھیجتے۔‘‘ ماں بیٹھ گئی۔ اس وقت وہ مجھے اتنی توانا،اتنی مضبوط دکھائی دی کہ میں نے کبھی اس کا تصور تک نہ کیا تھا۔ ایسے میں ماں کے دل میں جو ہلچل ہوا کرتی ہے، میں اس کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتا رہا۔ اس کی آنکھیں بے چین اور ہاتھ مضطرب تھے۔ پھر یکایک اس کا چہرہ، اس کی آنکھیں اوراس کے ہاتھ پرسکون ہوگئے اور اس نے کہا ’’میں بتاتی ہوں کہ سعد کے کمانڈر سے کیا کہنا چاہئیے۔ اس کے کمانڈر کو معلوم ہونا چاہیے کہ سعد کی ماں کیا چاہتی ہے۔ ماں کی درخواست یہ ہے کہ سعد جو کرنا چاہتا ہے کر ڈالے۔اس کا کمانڈر میرے بیٹے کو مایوس نہ کرے۔ وہ محاذ پہ جانا چاہتا ہے تو چلاجائے۔ ۔۔سعد کی ماں بس یہی چاہتی ہے‘‘(عربی سے ترجمہ)