اس زوال آثار دور میں ستاسی سالہ سرفراز سید پرنٹ میڈیا کی صحافتی تاریخ کے ان کلاسیکل کرداروں سے تعلق رکھتے ہیں جن کے بارے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ زندگی بھر حرف و لفظ ہی ان کا اوڑھنا بچھونا رہا۔ خبریں، اخبار، ادارتی صفحات کے درمیان انہوں نے زندگی گزاری۔یہ وہ دور تھا جب تما تر معاشی تنگیوں کے باوجود صحافی ایک مشن کے ساتھ اخبار کی صنعت سے وابستہ ہوتے۔ ان کے بعد کی آنے والی نسل میں جو لوگ پرنٹ میڈیا سے وابستہ ہوئے ان میں سے بیشتر نے معاشی خوشحالی دیکھی اخبارات بھی تعداد میں زیادہ ہوئے ۔میڈیا میں کام کرنے والے صحافیوں کو بارگین کر کے بہتر مشاہرے پر نئے اخبارات میں کام کرنے کا موقع ملا۔ پھر الیکٹرانک میڈیا کا دور آیا اور بعض صحافیوں کے معاشی حالات کافی بہتر ہو گئے لیکن سرفراز سید صحافیوں کے جس قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں اس نے چھپے ہوئے حرف سے وفاداری نبھائی۔ کم تنخواہ زیادہ کام مگر سماج کے لیے کچھ بہتر اور مثبت کرنے کے آدرش نے سرفراز سیدکے لیے اخبار سے جڑے رہنا ایک اعزاز سمجھا۔پرنٹ میڈیا زوال کی ڈھلوان پر لڑھک رہا ہے۔ اس زوال آثار دور میں یہ کالم ان کے لیے ایک حقیر سا خراج تحسین ہے۔ صحافت میں رہ کر کتنے لوگ ہیں جو ادب سے بھی جڑے ہوئے ہیں۔ سرفراز سید اسی قبیل کے فرد ہیں ۔ ان سے میری پہلی ملاقات لاہور کے کسی مشاعرے میں ہوئی تھی۔ دراز قد صحافی نے اپنی مشہور زمانہ نظم ’’رزق‘‘ سنائی تو ایک سماں باندھ دیا۔ میں شہر صحافت میں نووارد تھی یہ نظم میرے اندر دور تک اترتی چلی گئی۔ حرف و لفظ سے جڑے ہر صحافی کو یہ نظم یاد ہونی چاہیے۔اس نظم کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ یہ نظم انگریزی عربی ہندی اور سندھی میں بھی ترجمہ ہوئی۔ہم جو شاعری میں جیے، حصار شہر جاں میں شامل ان کی بیٹی کی لکھی ہوئی ایک خوبصورت تحریر ہے۔ لکھتی ہیں کہ "اندھیری راتوں، برستی بارشوں میں بھی پرانی ہونڈا سی ڈی 70 پر گھر آتے ابا، صحافت میں نام کمانے کے باوجود رزق حلال کی راہ پر گامزن تلخ حالات میں سفید پوشی کا بھرم خوشں مزاجی سے نبھاتے۔بارشیں برستی رہیں ،رزق حلال کا سفر جاری رہا، ابا کی شاعری محفوظ ہوتی رہی اور ہم اسے سنتے رہے ہنستے رہے مسکراتے رہے۔۔رزق حلال ،سادگی، درویشی، دیانت تخیل کی یہ اڑان خیال کی پاکیزگی ،متوازن الفاظ کی صورت کاغذ پر اترتی رہی اور ہمارے چھوٹے سے گھر کے در و دیوار میں بستی رہی یہ کتاب ان لمحوں کا بیان ہے جو اماں اور ابا نے جیے اور ہم میں بانٹے ۔" کتاب کے آغاز میں سپاس نامہ کے عنوان سے سرفراز سید نے اخبار کے مصروف شب و روز میں شاعری سے اپنے ربطِ و ضبط کی داستان بیان کی ہے۔لکھتے ہیں کہ میری بہت سی شاعری، مشاعروں کے ساتھ ہی ختم ہوتی رہی۔ کچھ ادبی رسالوں کے کام آئی۔میرے سامنے بہت بعد میں آنے والے نوجوانوں کی شاعری کی کتابیں شائع ہونا شروع ہوئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے شاعری کے ڈھیر لگ گئے۔ میری بیٹیاں مطالبہ کرتی رہیں کہ میں اپنی شاعری کو کتابی شکل میں اکٹھا کروں مگر عجیب بات ہے کہ میرے پاس اس کا کوئی جواز موجود نہیں کہ میں اخبارات کی 58 سال کی صحافت کے دوران روزانہ کے بنیاد پر 13 ہزار ادبی اور غیر ادبی کالم لکھ چکا ہو ں ، اپنی شاعری کو اکٹھا کیوں نہ کر سکا؟ حصار شہر جاں شاعری کا یہ انتخاب ان کی دونوں بیٹیوں کی طرف سے اپنے والد کی ستاسویں سالگرہ پر پیار بھر تحفہ ہے۔ گرداس پور سے پاکستان کے نارووال تک کا سفر ، چوتھی جماعت کے طالب علم سرفراز سید نے اپنی آنکھوں سے اپنے سگے چچا اور خاندان کے دوسرے افراد کو ہجرت کے سفر میں شہید ہوتے دیکھا۔اس سانحے کے بعد وطن کی محبت ان کے جسم میں لہو کی طرح شامل ہو گئی۔ وہ تمام عمر قلم کے ذریعے اس محبت کا قرض ادا کرتے رہے۔ 87 سالہ قلم مزدور نے 66 میں مشرق اخبار سے اخبار کی سب ایڈیٹر ی سے صحافت کا آغاز کیا۔ پھر ادبی ایڈیشنوں کی صحافت ، کابل اور ایران تک میں بیرون ملک مشاعروں میں شرکت ،عدالتی رپورٹنگ،نیوزایڈیٹری کی راہداریوں سے سینئر جوائنٹ ایڈیٹر جیسی بھاری ذمہ داریوں تک۔۔حرف و لفظ کے اس کاروبار میں احساس کی آگ میں جلتے رہنا ،سماج کے ڈھب کھڑب زاویوں سے راوی نامہ کے محاذ پر قلم کے ذریعے نبرد آزما رہنا،صحافت کو انبیاء کے صحیفوں کے مفہوم سے ہم آہنگ مقدس پیشہ سمجھنا، صداقت اور سچ کا دامن تھامے رکھنا۔۔پورے اٹھاون برس کے صحافتی سفر کے بعد اپنے ضمیر کی عدالت میں مطمیئن اور شکرگزار سرفراز سید اس وقت ڈاکٹروں کو بھی حیران کر دیتے ہیں جب کم و بیش چاربرس پیشتر ان کی 32 میڈیکل ٹیسٹوں کی رپورٹ نارمل آتی ہے تو ڈاکٹر بھی یہ پوچھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ اس مطمئن اور صحت مندانہ زندگی کا راز کیا ہے؟ تراسی سالہ صحافی مسکرا کر جواب دیتا ہے ہر حال میں شکر گزاری اور اطمنان قلب۔ ہر روز ذہن کے بوجھ کو ہلکا کرنا ضروری ہے ۔بوجھل ذہن بیماریوں کو جنم دیتا ہے۔کہتے ہیں :میرے لیے راوی نامہ وہ سیفٹی والو ثابت ہوا کہ کبھی کچھ ذہنی بوجھ ہوا بھی تو راوی نام لکھتے ہوئے اس کا کتھارسز ہو گیا۔آج بھی کوئی دوا استعمال نہیں کرتے۔ زندگی حرف و لفظ کی آبیاری اور اس کی سرشاری میں گزری ۔ ان کی مقبول ترین نظم رزق میں اسی سرشاری کا اظہار دیکھیے کس طرح ہوتا ہے: مجھے کچھ حرف دے دو لفظ دے دو اک قلم دے دو زمانے بھر کا غم دے دو مجھے اک چشم نم دے دو مجھے کچھ خواب دے دو سنگریزے تلخیاں دے دو دل افسردہ، خالی گھر ،قفس کی تتلیاں دے دو مگر دو دن کا قصہ ہے کمال تمکنت جاناں صحیفوں کی روایت ہے زوال سلطنت جاناں ایک ایسا وقت آئے گا بھری دوپہر میں جاناں اکیلے تم کھڑے ہو گے اکیلے شہر میں جاناں مری جاں ایسے موسم میں میرے الفاظ بولیں گے میرے الفاظ کے جادو، در حیرت کو کھولیں گے میری نظمیں جمال موسم جاں کو نکھاریں گی میری غزلیں تمہارے حسن کی زلفیں سنواریں گی فضائے نغمہ و گل میں، تمہیں میں زندہ رکھوں گا حصارشہر جاں میں تمہیں پائندہ رکھوں گا