سندھ کا موجودہ موسم گرم لو کا ہے۔ میں سیاسی موسم کی بات نہیں کر رہا۔ گرمیوں میں سیاست کا موسم تو ویسے بھی سرد ہوا کرتا ہے۔ سردیوں میں سیاست گرم ہوجایا کرتی ہے اور گرمیوں میں اس کا درجہ حرارت کم ہوجاتا ہے۔ جب کہ فطرت کا موسم الگ ہے۔ وہ حقیقی بھی ہے اور ضروری بھی ہے۔ یہ وہ موسم جس میں گرم ہواؤں میں صرف آم نہیں انسان بھی پکتے ہیں۔ آپ اگر اندرون سندھ میں ایک چکر لگائیں تو آپ کو گورے لوگ بھی موسم کی وجہ سے سانولے نظر آئیں گے۔ یہ حقیقت ہے کہ موسم گرما میں راتیں چھوٹی اور دن لمبے ہو جاتے ہیں۔ مگر دن کو اگر ہم کام کی نظر سے دیکھیں تو پھر اس موسم میں دن بہت چھوٹے ہوجاتے ہیں۔ اندرون سندھ لوگ جلدی جاگ جاتے ہیں۔ صبح کو کام کاج کرتے ہیں مگر جیسے ہی سورج تپنے لگتا ہے تو وہ گھروں کا رخ کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ سندھ میں ایسے علاقے بھی ہیں، جہاں لوگوں کو کڑکتی ہوئی دھوپ میں بھی زندگی کے لیے چلنا پڑتا ہے۔ ان لوگوں کے لیے شیخ ایاز نے لکھا تھا: ’’پاؤں بڑھاؤ ساتھی ہم کو چلنا بھی ہے جلنا بھی ہے اس جیون کے لمبے دن کو جلتے جلتے ڈھلنا بھی ہے‘‘ راقم الحروف نے انہیں صفحات میں لکھا تھا کہ اگر سندھ کا حسن دیکھنا ہو تو موسم سرما میں دیکھنا چاہیے گرمیوں میں پرندے بھی جل جاتے ہیں۔ ابھی گزشتہ دن کی بات ہے۔ لاڑکانہ کے قریب والے علاقے میہڑ کے ایک گاؤں میں غریب لوگوں کا چھوٹا سا گاؤں آگ لگنے کی وجہ سے راکھ کا ڈھیر بن گیا۔ میں نے کالم کی ابتدا میں لکھا تھا کہ اس موسم میں صرف آم نہیں پکتے،انسان بھی پکتے ہیں۔ مگر جس سانحہ کی بات میں کر رہا ہوں اس میں انسان پکے نہیں بلکہ جل کر راکھ ہوگئے۔ وہ انسان جن کی عمر بہت کم تھی۔ اگر ان کی عمر بڑی ہوتی تو وہ اپنے آپ کو آگ سے بچانے کے لیے بھاگ نکلتے۔ مگر وہ تو معصوم تھے۔ وہ چلنے کے قابل بھی نہیں تھے۔ اس لیے وہ آگ میں جل کر خاک ہوگئے۔ میڈیا پر نہیں تو سوشل میڈیا پر ہم نے وہ وحشتناک مناظر دیکھے۔ جب ایک ماں اپنے اس بچے کو سینے سے لگا کر چیخ رہی ہے جس کا بچہ جل کر کوئلہ ہوگیا تھا۔ سوشل میڈیا پر ایسی تصاویر اپلوڈ ہونے کی وجہ سے سندھ سے تعلق رکھنے والے اور سوشل میڈیا پر سرگرم لوگ اس بدنصیب گاؤں میں امڈ آئے ،جہاں ایک دن قبل زندگی کی کلکاریاں تھیں۔ جہاں ہرے بھرے کھیت تھے۔ جہاں گھاس پھونس کے مکانات تھے مگر ان میں بچے اچھل کود رہے تھے۔ وہ مناظر کوئی بھی سوچ سکتا ہے۔ مگر جب انسان کی آنکھوں کے آگے صرف راکھ ہو اور اس راکھ میں جل جانے والی زندگی کے آثار بھی نہ ہو تو پھر انسان کی کیفیت کیا ہوگی؟ ہر گھر میں بچے ہوتے ہیں۔ اس لیے جب بھی کوئی بچوں پر ہونے والے مظالم کے مناظر دیکھتا ہے تب اس کو اپنے گھر کے بچے یاد آجاتے ہیں۔ سندھ میں دو دن تک سوگ کا عالم رہا۔ ممکن ہے کہ جل کر کوئلہ بن جانے والے بچوں کی تصاویر نے لوگوں کو تڑپا دیا ہو۔ جب کہ یہ سچ ایک بار پھر ثابت ہوا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ اگر سیاست کے سینے میں دل ہوتا تو کیا سندھ کا چیف منسٹر اتنی دیر کے بعد اس بدنصیب گاؤں میں پہنچتا؟ اگر وہ نہ بھی پہنچتا تو کیا وہ اپنے دو تین وزراء وہاں نہیں بھیج سکتا تھا، جہاں زندگی کی صورت موت سے بدتر تھی اور وہ کیوں تھی؟ وہ اس لیے تھی کیوں کہ ان لوگوں کے حالات میں بہتری نہیں آئی تھی۔ حالانکہ جس گاؤں کا ہم تذکرہ کر رہے ہیں وہ گاؤں لاڑکانہ اور دادو کے درمیان ہے۔ لاڑکانہ کی بنیاد پر موجودہ پیپلز پارٹی اب تک ووٹ بٹورتی ہے اور زرداری خاندان کے بعد اگر سندھ میں سیاسی طور پر کوئی مضبوط خاندان ہے تو وہ عبداللہ شاہ کا ہے۔ عبداللہ شاہ خود بھی سندھ کے چیف منسٹر رہے اور اب ان کے بیٹے بلاول کی وجہ سے سندھ کے مضبوط سی ایم ہیں۔ ان کا تعلق دادو سے ہے۔ ممکن ہے کہ جن لوگوں کے بچے جل گے، وہ لوگ کسی نہ کسی طرح سے یا بلاول کے یا مرادشاہ کے ووٹر رہے ہوں۔ مگر سیاستدانوں کا تو عوام سے رشتہ صرف ووٹ والا ہوتا ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی نے جس کلچر کو متعارف کروایا ہے وہ ووٹ خریدنے والا ہے۔ اس لیے انتخابی امیدواروں کے لیے عوام کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ ایک وقت تھا جب پیپلز پارٹی والے کہتے تھے کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہے۔ مگر اب تو وہ یہ بات تقاریر میں بھی نہیں دہراتے۔ پیپلز پارٹی اقتدار پرستی میں اس قدر مبتلا ہوچکی ہے کہ اس نے عوام کو مکمل طور پر فراموش کردیا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کیا چیف منسٹر اتنی دیر کے بعد اس گاؤں کا رخ کرتا اور اس نے اگر اپنے ہیلی کاپٹر کا رخ اس گاؤں کی طرف کیا بھی تو کسی احساس اور فرض کی وجہ سے نہیں بلکہ سوشل میڈیا کی اس سرکشی کی وجہ سے جو سندھ حکومت پر سخت تنقید کا نشانہ بنا رہی تھی۔جب حکمران جماعت کو محسوس ہوا کہ ان کے خلاف سوشل میڈیا پر غصہ جمع ہورہا ہے تو وہ وہاں پہنچے مگر وہاں پر سی ایم سندھ کے ساتھ علاقے کے جو ایم پی ایز اور ایم این ایز تھے ان کے چہرے پر دکھ تو کیا افسوس کے آثار بھی نہ تھے۔ سوشل میڈیا پر تو ایسی تصاویر بھی گردش کرتی رہیں جن میں حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے منتخب نمائندے اور وزیر اعلی سندھ ہنستے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ حالانکہ یہ بات جمہوری غیرت سے زیادہ اس حیر ت کا تقاضہ کرتی ہے کہ کوئی بھی شخص ایسے ماحول میں کس طرح ہنس سکتا ہے جس ماحول میں معصوم بچوں کے جلنے کی بو باقی ہو!! سندھ کے چیف منسٹر نے اپنے سیاسی ساتھیوں کے ساتھ وہاں کچھ دیر بیٹھ کر گھر جلنے والوں کے لیے پانچ پانچ لاکھ روپیوں کا اعلان کیا اور پھر وہاں سے روانہ ہوگئے۔ انہوں نے اس سلسلے میں میڈیا کو یہ تک بتانے کی زحمت نہیں اٹھائی کہ جب گھر جل رہے تھے اور لوگ چیخ رہے تھے اس وقت کہیں سے کوئی فائیربرگیڈ کی کوئی گاڑی کیوں نہیں پہنچی؟ وہاں پر ضلعی انتظامیہ نے ریسکیو کے لیے کچھ بھی کیوں نہیں کیا؟ کیا سندھ حکومت کو معلوم نہیں ہے کہ اس موسم میں سندھ میں چلنے والی لو کے باعث لوگوں کے گھر جلا کرتے ہیں۔ کیا اس موسم میں لوگوں میں آگاہی پھیلانے کے لیے حکومت سندھ کے پاس وسائل نہیں ہیں؟ کیا ڈیزائسٹر مینجمنٹ کے حوالے سے سندھ حکومت نے گزشتہ چودہ برس سے کوئی ایسا ادارہ قائم کیا ہے جو ان حالات میں لوگوں کی مدد کرے؟ پیپلز پارٹی کے پاس سیاست کے اقتداری کھیل کے لیے تو بہت وقت ہے اور اپنے آپ کو نہ صرف سندھ بلکہ ملک کا سب سے بڑا لیڈر سمجھنے والا بلاول بھٹو زرداری لندن یاترا کرکے اپنے نئے سیاسی کرئیر کی ابتدا تو کرتا ہے اور میڈیا کے ساتھ مسکرا مسکرا کر بات کرتا ہے مگر اس کے پاس زندہ جل جانے والے بچوں کے بارے میں کوئی احساس نہیں۔ وہ معصوم بچے جو جل کر کوئلہ ہوئے ان کی تعداد 9تھی۔ پیپلز پارٹی 9 لوٹوں پر کروڑوں لٹانے کے لیے تیار ہوتی ہے مگر 9 جل جانے والے معصوم بچوں کے لیے ان کے پاس نہ وقت ہے اور نہ احساس!!