سوڈان کی موجودہ صورتحال مسلم دنیا ہی نہیں بلکہ عالمی برادری کیلئے بھی ''الارمنگ'' بنتی جا رہی ہے لیکن اس سے عالمی ادارے اور بڑی طاقتیں اور حتی کہ ہمسایہ اور دوست ممالک بھی مسلسل بے اعتنائی کا مظاہرہ کر ر ہے ہیں نہ جانے کیوں ؟ آخر سوڈان میں کھیلی جانے والی خون کی ہولی کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا ایک سال گزر جانے کے باوجود بھی اس کا فیصلہ نہیں کیا جاسکا اگر سوڈان میں یہ سلسلہ جاری ہے پھر لاوا افر یقی و عرب ممالک ہی نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے ، عالمی اداروں کی میڈیا رپورٹس میں سوڈان بارے چونکا دینے والے حقائق کا نکشاف کیا گیاہے سوڈان میں جہاں اپنے ہی کے ہاتھوں قتل وغارت کا بازار گرم ہے وہاں مائوں اور بہنوں کی عزتیں بھی محفوظ نہیں مصدقہ رپورٹس کے مطابق حالیہ خانہ جنگی کی وجہ سے سوڈان کا شمار دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں ہونے لگا ہے جہاں سکیورٹی کی مخدوش صورتحال کی وجہ سے سب سے بڑا انسانی مسئلہ جنم لے چکا ہے جس کے نتیجہ میں 5کروڑ کی کل آبادی میں2کروڑ بچے آئوٹ آف سکول ہو چکے ہیں اگر خدا نخواستہ خانہ جنگی کی صورتحال مزید کچھ اور عرصہ برقرار رہی پھر یہ شرح یقینا خطرناک ترین سطح کو بھی عبور کر جائے گی جس کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوگا کہ سوڈان کے مستقبل کن ہاتھوں میں ہوگا؟ ایسا معلوم ہو رہا ہے جیسے سوڈان کی صورتحال سے لاپرواہی کا مظاہرہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت کیا جارہا ہے اس سے قبل ایک خانہ جنگی نے سوڈان کی معیشت کو تباہ کیا جبکہ دوسری خانہ جنگی کے بعد سوڈان دو حصوں میں تقسیم ہوا جبکہ تیسری خانہ جنگی کے بعدسوڈان کا مستقبل انتہائی مخدوش نظر آرہا ہے ، وہاںکاروباری سرگرمیاں مکمل طور پر ختم ہو چکی ہیں انٹرنیٹ اور مواصلاتی رابطے معطل ہونے کی وجہ سے سوڈانی عوام کا دنیا سے رابطہ نہیں رہا ۔خانہ جنگی کی وجہ خرطوم کا بین الاقوامی ہوائی اڈا بند ہے۔ ملک میں بنیادی ضروریات زندگی کی اشیاء بھی ناپید ہو چکی ہیں مصدقہ اعداد و شمار کے مطابق سوڈان میں اڑھائی کروڑ افراد فوری انسانی امداد کے منتظر ہیں، 60لاکھ سوڈانی بے گھر ہوچکے ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں اور ان میں سے12لاکھ ہمسایہ ممالک چاڈ، جمہوریہ وسطی افریقہ اور لیبیا ہجرت کر چکے ہیں خانہ جنگی کے دوران صرف ایک شہر میں 15000سے زائد افراد لقمہ اجل بنے جبکہ 35000ہزار سے زائد شدید زخمی ہوئے ہیںملک کی 50فیصد سے زائد آبادی شدیدغذائی قلت کا شکار ہے جو اپنی روح اور سانس کا رشتہ برقرار رکھنے میں ناکام ہے متعدی اور موذی امراض تیزی سے پھیل رہی ہیں جن کا بروقت علاج نہ ہونے کی وجہ شرح اموات روز بروز بڑھتی جارہی ہے طویل ترین خانہ جنگی نے ملکی انفراسٹریکچر تباہ کردیاہے اپریل 2024ء میں جمہوریہ سوڈان میں تیسری بڑی خانہ جنگی کو ایک سال مکمل ہو گیا ہے گذشتہ سال اپریل میں پھٹنے و الا یہ لاوا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید پکتا جا رہا ہے جس کے ٹھنڈا ہونے کے تاحال کوئی آثار دکھا ئی نہیں دے رہے روز بروز حالات بدسے بدتر ہوتے جارہے ہیں جس سے معلوم ہو رہا ہے کہ اب کوئی معجزہ ہی سوڈان کی صورتحال میں بہتری لا سکتا ہے، عالمی اور بعض عرب ممالک کی پشت پناہی میں سوڈانی رپیڈ سپورٹ فورسز اپنے ہی ملک کی عسکری قوت سوڈان آرمڈ فورسز کے خلاف نبرد آزما ہے ،رپیڈ سپورٹ فورسزکی قیادت جنرل محمد حمدان عرف حمیدتی کر رہے ہیں جبکہ سوڈا نی آرمڈ فورسز کو جنرل عبد الفتاح البرہان لیڈ کر رہے ہیں دونوں نے مل کر جنرل عمر البشیر کا تختہ اپریل 2019ء میں الٹ دیا تھا دونوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی کا کھیل گذشتہ پانچ سال سے جاری ہے اور اب دونوں کی فورسز میں لڑائی دارالحکومت خرطوم کی شاہرات پر لڑی جارہی ہے جس کا نشانہ سوڈانی عوام بن رہے ہیں مسلسل تعلیمی و مالیاتی اداروں ،ہسپتال اور اہم سرکاری عمارتوںکو گولہ باری اور آتشیں اسلحہ سے نشانہ بنایا جارہا ہے جس سے یہ عمارتیں کھنڈر میں تبدیل ہو چکی ہیں زچگی کے دوران خواتین کا لقمہ اجل بننا ایک معمول ہے اور خواتین کی بے حرمتی اور گمشدگی کے واقعات عام ہیں خرطوم سمیت دیگر شہروں سے ہونے والی اس جبری ہجرت کے نتیجہ میں خالی ہونے والے گھروں میں رپیڈ سپورٹ فورسز کے خاندان نے زبر دستی قبضہ کرلیا ہے ہیں،بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق سوڈان کی خانہ جنگی میں خواتین کو ریپ کا نشانہ بنایا جارہا ہے نسلی تشدد اور سر عام قتل وغارت گری کے واقعات سے ہر طرف خوف و ہراس کی فضا قائم ہے اس صورتحال میں سوڈان کے دوست اور ہمسایہ ممالک بھی خاموش ہیں متحدہ عرب امارات سوڈان کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے جس کی سرمایہ کاری کا حجم ملک میں ہونے والی بیرونی سرمایہ کاری کا 25فیصد سے زائد ہے سعودی عرب اور مصر کی سرمایہ کاری بھی15فیصد سے زائد ہے جبکہ چین 20فیصد سرمایہ کاری کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے مصر اور سعودی عرب سوڈان کے ہمسایہ بھی ہیں جبکہ متحدہ عرب امارات کا اثر و رسوخ ان دونوں ممالک سے کہیں زیادہ ہے لیکن کوئی بھی آزامائش کی گھڑی میں سوڈانی عوام آہ بکاء نہیں سن رہا ،قانون نافذ کرنے والے ادارے بے بس ہیں کسی بھی شہری آبادی پر دھاوا بولنے سے قبل حکومت مخالف عسکری قوت رپیڈ سپورٹ فورسز پولیس آفیسر کو اغوا کر لیتی ہیںجس کے بعد کسی جان محفوظ رہتی اور نہ ہی مال ،سوڈانی عوام کو کسی قسم کا ریلیف دینے کے لئے قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی ناکام ہیں، اب صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ دارالحکومت خرطوم ، خرطوم بحری اور ام درمان پر حکومت مخالف عسکری اتحاد کا کنڑول ہوچکاہے مصدقہ ذرائع کے مطابق سرکاری پٹرول ڈپو ، سرکاری ریڈیو اور ٹیلی ویژن ، بین الاقوامی ہوائی اڈا ملٹری ائیر بیس اور صدراتی محل پر حکومت مخالف عسکری قوت کا قبضہ کرلیا ہے ذرائع کا کہنا ہے کہ آئندہ چند روز میں حالات مزید خراب ہونے کا امکان ہے ۔