میں اور عدنان اپنے کمرے میں چلے آئے جو اسی فلور پر تھا۔ میں نے حساس ادارے کے ایجنٹوں سے غلط بیانی نہیں کی تھی۔ میں اب تک ’’حساس ادارہ‘‘ لکھتی چلی آئی ہوں اور مناسب یہی ہے کہ میں اس ادارے کا نام نہ لکھوں حالانکہ فون پر بانو نے اس حساس ادارے کا نام بتادیا تھا مجھے! کمرے میں آکر میں نے موبائل پر بانو سے رابطہ کیا۔ میں انھیں تمام حالات سے آگاہ کرنا چاہتی تھی لیکن انھوں نے میری بات کاٹ دی۔ ’’سب معلوم ہوچکا ہے مجھے!‘‘ بانو نے کہا تھا۔ اس موقع پر مجھے بانو کی ’’باخبری‘‘ پر تعجب نہیں ہوا۔ انھوں نے میری سیکیورٹی کے لیے جن آدمیوں کو مقرر کیا تھا، ان میں سے کوئی بھی بانو کو ان حالات کی رپورٹ دے سکتا تھا۔ ’’لارسن کے بارے میں آپ کیا جانتی تھیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔ ’’اس کا تعلق فری میسن لاج سے ہے۔ میں نے تمھیں بتادیا تھا کہ ہم نے کاف مین کی جو ڈائری ان لوگوں کے حوالے کی تھی، اس میں ایک چپ لگا دی تھی، ان لوگوں کی آوازیں میں سنتی رہی ہوں۔ اسی لیے مجھے یہ معلوم ہوسکا کہ ڈائری لارسن کو دی گئی ہے۔ اسے یہ ذمے داری سونپی گئی تھی کہ ڈائری ڈیو ڈڈورون کو پہنچا دے۔‘‘ ’’ڈیوڈ ڈورون کا نام بہت پہلے ہمارے سامنے آگیا تھا لیکن .....‘‘ ’’سنتی رہو۔ ‘‘بانو نے میری بات کاٹی۔’’ ورنہ کہو گی کہ میں معاملات تم سے چھپاتی رہتی ہوں۔‘‘ ’’ میں سمجھ گئی۔ ڈیوڈڈورون چولستان کے صحرا میں ہوگا۔ یعنی وہاں قائم فری میسن لاج میں!‘‘ ’’ہاں‘‘ بانو نے کہا ’’اسی لیے لارسن رحیم یار خاں پہنچا ہے۔ اس کا وہاں پہنچنا میرے علم میں اس چِپ ہی کی وجہ سے آیا تھا۔ اس نے ہوٹل کے کائونٹر پر جا کے اپنے لیے کمرا بک کرانے کی بات کی تھی جو میں نے سن لی تھی۔ تمھاری سیکیورٹی کے لیے میں نے چار آدمیوں کو مامور کیا تھا۔‘‘ ’’میں سمجھ گئی تھی۔‘‘ میں پھر بول پڑی ’’تین غیرملکیوں کو انھی چاروں نے مار مار کر بے بس کیا تھا۔‘‘ ’’ہاں! اور انھی چاروں نے مجھے یہ اطلاع دی تھی کہ ہماری ایک ایجنسی کے دو ایجنٹ لارسن پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ میں نے فوراً تمھیں بھی اس سے باخبر کردیا تھا۔‘‘ ’’ وہ دونوں ، لارسن کی طرف کیوں متوجہ ہوئے تھے؟‘‘ ’’اس کا علم مجھے بھی نہیں لیکن یہ وقتی بات ہے ، معلوم ہوجائے گا۔ ‘‘ ’’تم سے باتیں کرتے ہوئے میں ان ایجنٹوں کی باتیں بھی سن رہی ہوں وہ اس وقت لارسن کے کمرے کی تلاشی لے رہے ہیں ۔ انھیں امید ہے کہ وہاں سے انھیں کوئی خاص چیز ضرور ملے گی ۔‘‘ ’’ کاف مین کی ڈائری مل سکتی ہے انھیں!‘‘ میں نے کہا۔ ’’یقینا‘‘ ایسا ہوگا۔ اور جیسے ہی انھیں ڈائری ملیگی ، انکی باتوں سے مجھے اس کا علم ہوجائے گا۔ ڈائری کمرے ہی میں ہوگی۔ اوہ! جسٹ اے منٹ! ‘‘بانو خاموش ہوگئیں۔ میں موبائل کان سے لگائے رہی، میری سمجھ میں آگیا تھا کہ بانو نے ان ایجنٹوں کی کوئی خاص بات سن لی ہوگی اور اب توجہ سے ان کی باتیں سن رہی ہوں گی۔ ذرا دیر بعد میں نے ان کی آواز سنی۔ ’’ہاں صدف! لائن پر ہونا؟‘‘ ’’جی ہاں۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’انھیں کاف مین کی ڈائری مل گئی ہے۔ وہ آپس میں باتیں کررہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ جنرل شناور خان نے فوج سے اسی ڈائری کے بارے میں بات کی تھی۔‘‘ مجھے یاد آگیا۔ ڈیڈی نے اسی سلسلے میں فوج سے رابطہ کیا تھا۔ ’’تو اب ڈائری پھر ان لوگوں کے ہاتھ سے نکل گئی؟‘‘ میں نے کہا۔ ’’ہاں.....اور اب ان کے چار آدمی بھی ہماری ایک ایجنسی کے قیدی بن چکے ہیں۔‘‘ ’’تو اب اس سلسلے میں تو مجھے کچھ نہیں کرنا!‘‘ ’’ہاں۔‘‘ بانو نے کہا۔ ’’تم تو کل صبح صحرائے چولستان کی طرف روانہ ہوجائو! تمھیں یاد ہوگا، میں نے تم سے کہا تھا کہ پیلس روڈ سے روانہ ہونا۔‘‘ ’’مجھے یاد ہے۔ فی الحال تو یہ لوگ مجھے اپنے دفتر لے جاکر میرا بیان ریکارڈ کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ ’’رحیم یار خان میں ان کا کوئی دفتر نہیں ہے۔ وہ ان چاروں کو فوری طور پر تو پولیس ہیڈ کوارٹر ہی لے جائیں گے۔ تم لوگوں کا بیان وہیں ریکارڈ کیا جائے گا۔ اور پھر کسی پروازسے ان چاروں کو راولپنڈی لے جایا جائے گا۔‘‘ میرے کچھ بولنے سے پہلے ہی دروازے پر دستک ہوئی۔ ’’کوئی آیا ہے بانو! دستک ہوئی ہے۔‘‘ میں نے کہا۔ پھر عدنان سے بولی۔’’دیکھیں کون ہے!‘‘ عدنان دروازے کی طرف بڑھا۔ میں نے بانو کی آواز سنی۔ ’’ایک ایجنٹ نے ہی پولیس آفیسر سے کہا ہے کہ تم لوگوں کو بلایا جائے۔ لوگوں سے میری مراد صرف تم دونوں نہیں ہو، وہ چاروں بھی ہیں جو میں نے تمھاری سیکیورٹی کی لئے مامور کئے ہیں۔‘‘ ’’مجھے کیابیان ریکارڈ کروانا چاہیے بانو؟‘‘ ’’وہی جو ابتداہی میں دے چکی ہو۔‘‘ عدنان واپس آ گیا تھا اس نے دھیمی آواز میں کہا۔’’ایک کانسٹیبل تھا۔ ہمیں بلایا جا رہا ہے۔‘‘ ’’اچھا بانو!‘‘ میں نے اس طرح کہا جیسے رابطہ منقطع کیا جانا چاہیے۔ ’’ٹھیک ہے،جائو!‘‘ بانو نے کہا اور رابطہ منقطع کر دیا۔ َ’’چلو!‘‘ میں نے اپنا موبائل بند کرتے ہوئے عدنان سے کہا اور درروازے کی طرف قدم بڑھائے۔ کمرے سے نکل کر ہم لارسن کے کمرے کے سامنے پہنچ گئے جسے سیل کر دیا گیا تھا۔ وہیں وہ چاروں بھی آ گئے تھے جنہوں نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ وہ وہاں اپنے کسی دوست سے ملنے آئے تھے۔ ہمارے وہاں پہنچنے کے بعد وہ بھی آ گیا۔ بانو نے میری سیکیورٹی پر پانچ آدمی مامور کئے تھے لیکن مجھ سے چار آدمیوں کی بات کرتی رہی تھیں۔ کچھ دیر بعد چند گاڑیوں کا قافلہ ہوٹل سے روانہ ہوا۔ قیدیوں کو ایک لمبی اسٹیشن ویگن میں بٹھایا گیا تھا۔ دونوں ایجنٹ بھی اسی میں تھے۔ اسٹیشن ویگن کے پیچھے بانو کے پانچوں آدمیوں کی کار تھی،میں اس کے پیچھے رہنا چاہتی تھی لیکن دائیں بائیں سے کچھ گاڑیاں مجھے اوورٹیک کرتی ہوئی آگے نکل گئی تھیں، میں ان کے پیچھے رہ گئی تھی۔ میںان کار کے ڈرائیوروں پر جھنجلائی لیکن مجھ سے آگے رہنے میں نقصان انھی لوگوں کا ہوا۔ میں نے اپنی جھنجلاہٹ پر قابو پاتے ہوئے عدنان سے کہا ۔’’وہاں بیان ریکارڈ کراتے ہوئے خیال رکھنا،جوکچھ ہوٹل میں کہہ چکے ہو ،وہی کہنا۔‘‘ عدنان نے سر اثبات میں ہلا یا۔ اسی وقت ایک موٹر سائیکل زناٹے کے ساتھ میری کار کے برابر سے گزری اور تیزی سے اسٹیشن ویگن کے قریب پہنچ کراس سے ٹکرا گئیجس کے ساتھ ہی ایک لرزہ خیز دھماکا ہوا۔ دھماکا کیسے ہوا؟اس کا کیا نتیجہ نکلا؟ کل کے 92نیوز میں پڑھیے۔