جو لوگ ریسیپشن کے آس پاس موجود تھے انھوں نے بتایا کہ ایک غیر ملکی اپنا سوٹ کیس کائونٹر کے قریب رکھے ریسپشنٹ سے کچھ بات کر رہا تھا کہ ایک کال آئی۔ اس کال کے بعد ریسپشنٹ اور غیر ملکی کی باتوں میں کچھ تیزی آ گئی اور پھر وہ غیر ملکی ریسپشنٹ پر چاقو کے وار کرکے سوٹ کیس اٹھاتے ہوئے تیزی سے باہر نکل گیا۔ وہ کال ظاہر ہے کہ سب انسپکٹر کی تھی جس کے بعد ریسپشنٹ نے غیر ملکی کو روکنے کی کوشش کی ہوگی جس پر غیر ملکی نے خود کو پھنستا دیکھ کر وہاں سے زبردستی نکل جانا چاہا تھا۔ ریسیپشنسٹ نے اسے روکناچاہا، لہذا اس پر چاقو کے وار کردیے گئے ۔ دوسری بار چاقو کا استعمال اور ہوٹل سے اتنی رات گئے فرار ہوجانے کی کوشش کا مطلب یہی تھا کہ وہی اطالوی البرٹو ہوگا جس نے میرے کمرے کا دروازہ کھولنے کی کوشش کی تھی اور جب اسسٹنٹ منیجر نے اس کی یہ حرکت دیکھ لی تو اس پر بھی چاقو کے وار کردیے گئے۔ اس نے اپنی دانست میں اسسٹنٹ منیجر کو ہلاک کردیا تھا لیکن جب اس نے دیکھا کہ ہوٹل کے اسسٹنٹ منیجر کو ہاسپٹل لے جایا جارہا تھا تو وہ سمجھ گیا کہ اس نے جس کو شکار کرنا چاہا تھا وہ زندہ بچ گیا ہے تو اسے ڈر ہوا کہ اسے وہ شناخت کرلے گا اسی لیے اس نے ہوٹل سے بھاگ نکلنے ہی میں اپنی عافیت جانی ہوگی ۔ بے چارہ ریسیپشنسٹ ہلاک ہی ہوگیا تھا کیونکہ چاقو کا ایک وار اس کے سینے پر عین دل کے مقام پر ہوا تھا۔ اب ایک نئی ہنگامی صورت حال کا آغاز ہوا ۔ریسیپشنسٹ کیونکہ مرچکا تھا اس لیے اسے فوری طور پر ہاسپٹل بھیجنے کی ضرورت نہیں تھی ۔فوٹو گرافرز نے لاش کی تصاویر لینی شروع کردیں سب انسپکٹر فوری طور سے موبائل پر کسی سے بات کرنے لگا میں نے اس کے دو ایک جملے سن لیے جس سے اندازہ ہوا کہ وہ شہر کی ناکہ بندی کروانا چاہ رہا تھا۔ جو لوگ واردات کے وقت اس جگہ تھے ان میں سے کوئی چاقو بردار خونی کے پیچھے جانے کی ہمت نہیں کرسکا تھا۔ سب انسپکٹر نے سر ہلاکر مجھے جانے کی اجازت دیتے ہوئے کہا۔’’میں آپ سے ایک آدھ گھنٹے کے بعد ملوں گا۔‘‘ سب انسپکٹر نے پر اپنی بات ختم کی ہی تھی کہ میں نے اس سے کہا ’’کیا ہم اپنے کمرے میں جائیں ۔یہاں تو آپ دوسرے ہی معاملے میں مصروف ہوگئے ہیں ۔،، میں اور عدنان اپنے کمرے میں آگئے ہم دونوں ہی اپنی اپنی سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اب رات اپنے آخری پہر میں تھی سب انسپکٹر نے ایک آدھ گھنٹے کے بعد آنے کے لیے کہا تھا اس لیے اب سو جانے کے بارے میں سوچنا بھی حماقت ہوتی ۔ ’’ناشتے کے لیے کچھ منگوا لو !‘‘میں نے عدنان سے کہا ۔ عدنان نے ٹیلی فون پر روم سروس کو ہدایات دیں ۔پھر وہ مجھ سے بولا۔ ’’بانو کو فون کیجیے گا؟‘‘ میں نے گھڑی پر نظر ڈالی ۔’’ابھی وہ سورہی ہوںگی۔‘‘ عدنان چند لمحے خاموش رہا ،پھر بولا ۔’’خدا جانے اسسٹنٹ منیجر زندہ بچا ہوگا یا نہیں!۔‘‘ ’’اگر وہ زندہ بچ بھی گیا ہو تو اہمیت اس بات کی ہے کہ البرٹو کو تلاش کیا جاسکے گا یا نہیں !‘‘ اگر طویل ایریا میں ناکہ بندی کی گئی ہوگی تو شاید بچ نکلنا مشکل ہو ۔سب انسپکٹر نے رجسٹر میں اس کا شناختی کارڈ دیکھا تھا ۔ موبائل سے اس کی تصویر بھی کھینچی تھی ۔وہ ناکہ بندی کرنے والوں کو بھیجی گئی ہوگی۔‘‘ میں سوچتی ہوئی بولی ’’میرے ذہن میں یہ سوال بھی ہے کہ منیجر اس وقت وہاں کیسے پہنچ گیا تھا!‘‘ یہ بات میرے ذہن میں بھی تھی ۔میں نے نائٹ سپروائزر سے بات کی تھی ۔ اس نے بتایا تھا،اسسٹنٹ منیجر کی عادت تھی کہ وہ رات گئے تک ہوٹل کی منزلوں کے دوچار چکر لگا لیتا تھا۔اسی لیے یہ امکان ہے کہ اس نے البرٹو کو ہمارے کمرے کا لاک کھولنے کی کوشش کرتے دیکھ لیا ہو۔ ’’اور وہ بے خبری میں ہم کو ختم کرنا چاہتا تھا۔‘‘میں نے سوچتے ہوئے کہا۔ ’’کوئی دوسری بات ذہن میں آتی بھی نہیں ہے ۔‘‘ ’’فری میسن والوں نے یہاں اسے اس لیے رکھا ہوگا کہ وہ صرف مشاہدہ کرے ۔بعد میں اسے ہدایت ملی ہوگی کہ وہ ہمیں ختم کردے ۔کسی وجہ سے انہیں ہم پر شبہ ہوگیا ہوگا، یہ بھی ممکن ہے کہ وہ ہمارے سامان کی تلاشی لے کر ہمارے بارے میں کچھ جاننا چاہتا ہو ۔‘‘ ’’ایک امکان یہ بھی ہے۔‘‘ ہم دونوں میں اسی قسم کی قیاس آرائیاں ہورہی تھیں کہ روم سروس سے ایک آدمی ہمارے لیے ناشتا لے آیا۔ ہم ناشتے سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ سب انسپکٹر آگیا۔ ’’ابھی تک البرٹو کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملی ہے۔‘‘ اس نے کہا ’’۔اسسٹنٹ منیجر بھی جانبر نہ ہوسکا ۔ڈاکٹروں نے تو بہت کوشش کی تھی ۔‘‘ ’’مجھے یقین ہے کہ البرٹو ہی نے ہمارا کمرا کھولنے کی کوشش کی ہوگی !‘‘ ’’مقصد؟وہ کیا چاہتا تھا؟‘‘ ’’یہ معلوم کرنا توپولیس کا کام ہے، ویسے مجھے شبہ ہے کہ جن غیر ملکیوں کو گرفتار کیا گیا تھا اور جو دھماکے میں مارے گئے یہ انھی میں سے کوئی ہوگا ،یہ کوئی بڑا گینگ ہوسکتا ہے ۔‘‘ ’’آپ یہاں سے کہیں جانے والی ہیں؟‘‘ ’’جی ہاں تفریحا ًچولستان جانے کا ارادہ ہے ۔‘‘ ’’فون پر رابطے میں رہیے گا۔‘‘ ’’ضرور میں نے کہا،،۔لیکن اب آج تو نہیں جاسکیں گے رات بھر جاگے ہیں ۔اب تو نیند ستا رہی ہے کل ہی جانا ہوگا۔ ’’اچھا ہے۔‘‘سب انسپکٹر نے کہا۔ ’’شاید کوئی خاص بات علم میں آئے آپ یہاں رکیں گی تو رابطے میں آسانی ہوگی ۔یہ معاملہ بہر حال خاصا الجھا ہوا ہے۔‘‘ چند اور باتوں کے بعد سب انسپکٹر چلا گیا ۔ اب صبح ہونے ہی کو تھی میں نے موبائل پر بانو سے رابطہ کیا میں جانتی تھی کہ وہ بہت جلدی بے دار ہوتی ہیں میں نے انہیں سارے حالات سے آگاہ کیا۔ ’’اتنا ہنگامہ ہوگیا !‘‘بانو سوچ میں ڈوبے ہوئے لہجے میں بولیں ۔ ’’اب تو نیند ستا رہی ہے، چولستان کے لیے کل ہی روانہ ہوسکوں گی ۔‘‘ ’’اگر پولیس البرٹو کا سراغ نہ لگا سکے تو بڑا اچھا ہوگا ۔اگر تم کسی طرح اس تک پہنچ جائو،اسے اپنے قابو میں کرلو تو بہتر ہوگا ۔تمھارا یہ خیال مجھے ٹھیک ہی معلوم ہورہا ہے کہ البرٹو بھی فری میسن ہی کا آدمی ہوگا۔‘‘ ’’سو کر اٹھوں گی تو اس بارے میں کچھ سوچوں گی ۔‘‘ ’’تمہاری آواز کافی بھاری ہورہی ہے، خاصی نیند آرہی ہے تمھیں ،سوجائو۔میں نے تمہاری سیکیورٹی کے لیے کچھ اور آدمی روانہ کردیے ہیں بلکہ وہ پہنچ بھی گئے ہوں گے۔‘‘ غیر معمولی حالات سے گزرنا اب میرے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا تھا، اس لیے نیند مجھ پر شدت سے طاری ہوچکی تھی، میں نے موبائل بند کیا اور سونے کے لیے لیٹ گئی ۔ عدنان صوفے پر جا لیٹا۔ کیا وہ دن بھی ہنگامی طور پر گزرا؟ کل کے اخبار 92نیوزمیں پڑھیئے! ٭٭