اس وقت سونیا میرے قریب تھی ، بانو نہیں تھیں، وہ وادی کی فضا میں چکر لگانے والے طیاروں کو دیکھنے کے لیے مکان کے باہر نکل گئی تھیں ۔ سونیا نے مجھے بتایا کہ طیاروں سے پیرا شوٹرزکی ایک بڑی تعداد وادی میں اتر رہی ہے ۔ وہ پاکستانی فوجی ہیں ۔ اس نے اتنا ہی بتایا تھا کہ بانو آگئیں ۔ انھوں نے بتایا کہ رات کو جو دو مکانوں میں ہنگامے ہوئے تھے ، اس کی وجہ سے فیصلہ ہوا ہے کہ ساری وادی ایک بار پھر سرچ کی جائے ، تمام مکانات دیکھے جائیں اور اس کے بعد یہاں بھی چوکیاں قائم کی جائیں تاکہ طالبان خفیہ طور پر کسی مکان کو استعمال نہ کرسکیں ۔ ’’ تو وہ لوگ اس مکان میںبھی آئیں گے ؟ ‘‘ میں نے سوالیہ انداز میں کہا ۔ ’’ہاں ، لیکن اس میں تشویش کی کوئی بات نہیں ۔ انھیں ہم تینوں کے بارے میں بتایا جا چکا ہوگا ۔ چلو اب ناشتاکرلیا جائے ۔‘‘ وہ دونوں مجھ سے دو چار منٹ پہلے ہی جاگی تھیں ۔ ان دونوں نے ناشتا کیا اور مجھے کرایا ۔ سونیا نے مجھ سے کہا کہ دوپہرکے بعد وہ میری ڈریسنگ پھر کرے گی ۔ میں تکلیف میں کسی قدر کمی محسوس کررہی تھی ۔ وہ دونوں پھر باہر نکل گئیں ۔ دماغ میں چکراتے ہوئے جن خیالات کے ساتھ میں سوئی تھی ، وہی خیالات میرے دماغ میں پھر چکرانے لگے ۔ بانو کی پر اسرار شخصیت ! …پچاس سال پہلے ان کی ایک ہم شکل کو دیکھا گیا تھا ۔ اگر یہ وہی بانو تھیں اور پچاس سال میں بھی بوڑھی نہیں ہوئی تھیں تو اس کا صریح مطلب یہ تھا کہ وہ ایک مافوق الفطرت خاتون تھیں ۔ ان کے ساتھ رہ کر ایسی باتیں میرے مشاہدے میں آچکی تھیں جو غیر معمولی ہی تھیں ۔ خصوصاً ایک واقعہ جسے بانو نے میرا خواب قرار دیا تھا ، وہ زیادہ شدت سے میرے ذہن میں چکرایا ۔ اس وقت تو میں نے بانو کی بات پر یقین کرلیا تھا لیکن اب مجھے احساس ہو رہا تھا کہ وہ خواب نہیں ، حقیقت تھی جب ایک بار سوتے سے آنکھ کھلنے پر میں نے اپنے قریب دو بانو دیکھی تھیں ۔ ایک بانو میرے پہلو میں لیٹی ہوئی تھیں اور دوسری بانو کھڑی ہوئی ان سے بات کررہی تھی ۔ اس کے ہونٹ اسی طرح کھل رہے تھے جیسے وہ بانو سے باتیں کررہی ہو لیکن مجھے اس کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی ۔ اس کے برخلاف میرے پہلو میں لیٹی ہوئی بانو کی آواز میں سن سکتی تھی ۔ وہ بہت مدھم لہجے میں اس لیے بات کر رہی تھیں کہ میں جاگ نہ جائوں لیکن میری آنکھ کھل گئی تھی ۔ کھڑی ہوئی بانو کا وجود بھی غیر معمولی تھا ۔ ایسا وجود کہ میں اس کے جسم کے آرپار بھی دیکھ سکتی تھی ۔ کمرے میں جو چیزیں تھیں ، وہ اس کی آڑ میں ہونے کے باوجود مجھے نظر آئی تھیں ۔ تازہ ترین بات اس گھوڑے کی تھی جس پر وہ آئی تھیں ۔ میں جہاں زخمی ہوئی تھی ، وہاں سے سونیا اور بانو کے ساتھ میں ہیلی کوپٹر میں یہاں آئی تھی ۔ گھوڑا وہیں رہ گیاتھا لیکن جب ہم اس مکان میں پہنچے تو ہمیں مکان کے باہر سے گھوڑے کے ہنہنانے کی آواز آئی تھی ۔ اس سے پہلے ہیلی کوپٹر میں بیٹھنے سے پہلے بانو نے گھوڑے کے کان میں کچھ کہا تھا ۔ کم از کم میں یہی سمجھی تھی لیکن اب میں یقین کر سکتی تھی کہ انھوں نے گھوڑے کو ہدایت کی تھی کہ وہ اسی مکان تک آئے جہاں ہیلی کوپٹر ہمیں اتارے گا اور وہ وہاں پہنچ گیا تھا ۔ اس کے پہلو میں لٹکے ہوئے تھیلوں سے بانو ہی مشین گنیں نکال کر لائی تھیں ۔ اس کے بعد انھوں نے گھوڑے کو بھی بھگا دیا تھا ۔ پھر انھوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ گھوڑے کے جسم میں ایک ’’چپ‘‘ لگا دی گی ہے جو اپنے قرب وجوار کی آواز نشر کرسکتی ہے، اس لیے اگر وہ طالبان کے ہاتھ لگ گیا تو وہ اس ایئر فون سے وہ باتیں سن لیں گی جو طالبان اس گھوڑے کو پانے کے بعد کریں گے ۔ ایک ایئر فون انھوں نے اپنے کان میں لگالیا تھا۔ اب تک وہ کوئی آوز سن سکی تھیں یا نہیں ؟ مجھے اس کا علم نہیں تھا ۔ اگر چہ گھوڑے کے جسم میں ’’چپ‘‘ کا معاملہ مافوق الفطرت نہیں تھا لیکن یہ سوال ضرور ذہن میں آیا کہ کیا بانو سرجن بھی تھیں ؟ بانو سے متعلق بہت سے واقعات مافوق الفطرت نہیں تو غیر معمولی ضرور تھے ۔ ان کے پاس اسٹیلتھ ہیلی کوپٹر تھا جسے اپنے پاس رکھنے کا اجازت نامہ انھیں ملک کے سابق صدر سے ملا تھا ۔ انھیں یہ اجازت نامہ کیوں دیا گیا ؟ یہ سوال بھی قابل غور تھا ۔ اس کے علاوہ ، وہ ایسی باتیں بھی جان لیتی تھیں جو بہ ظاہر ان کے علم میں نہیں ہونی چاہیے تھیں ۔ میں زخمی ہونے کے بعد پہاڑوں کے قریب کسی مکان میں جانا چاہتی تھی ۔ میں نے بانو سے اس کا ذکر نہیں کیا تھا لیکن وہ میری اس خواہش سے بھی واقف تھیں ۔ شمالی وزیر ستان کے اس ویرانے میں ہمیں یہاں ان کی موجودگی کا علم نہیں تھا لیکن وہ موجود تھیں ۔ وہ گھوڑے پر سفر کررہی تھیں لیکن اس کی ٹاپوں کی آواز طالبان نہیں سن سکتے تھے کیونکہ انھوں نے گھوڑے کے سموں پر اسفنج اور ربر باندھ دی تھی لیکن اس صورت میں بھی ٹاپوں کی آواز نہ سہی ، اس کی دھمک تو سنی جا سکتی تھی ۔ اگر گھوڑے کو صرف دلکی چلایا جائے تو دھمک نہیں ہونا چاہیے تھی لیکن کیا وہ مستقل طور پر اسے دلکی ہی چلاتی رہی تھیں ؟ میں ان سے متعلق بہت سی غیر معمولی باتیں لکھتی رہی ہوں اور وہ سب بھی جو اس وقت لکھ رہی ہوں ، اور دوبارہ لکھنے کا سبب یہ ہے کہ یہی سب باتیں اس وقت میرے ذہن میں چکرا رہی تھیں ۔ مجھے اب اس پر بھی یقین آگیا تھا کہ وہ ایک مافوق الفطرت ہستی ہیں جو دنیا بھر کی زبانیں جاننے کے علاوہ جانوروں سے بھی بات کر سکتی ہیں ۔ سونیا اور بانو کمرے میں آئیں تو میرے ان خیالات کا سلسلہ ٹوٹ گیا ورنہ میں اور بھی نہ جانے کیا کیا سوچتی رہتی ۔ ’’طیاروں کی آواز اب نہیں سنائی دے رہی ۔‘‘ میں بولی ’’وہ واپس جا چکے ہیں۔فوجیوں نے وادی کی چیکنگ شروع کردی ہے۔‘‘ بانو نے مجھے جواب دیا ۔ ’’ ہر مکان کے علاوہ ہر اس مقام کو دیکھا جائے گا جہاں کوئی چھپ سکتا ہے ۔ اب وادی میں چوکیاں بھی قائم کی جائیں گی تاکہ طالبان دوبارہ یہاں آکر اپنا کوئی ٹھکانا نہ بنا سکیں ۔‘‘ بانو کا خیال بالکل درست ثابت ہوا ۔ کئی دن کی چیکنگ کے بعد وادی کو ’’کلیئر‘‘ قرار دے دیا گیا ۔ ایک کرنل اس مکان میں بھی آیا تھا جہاںہم نے ڈیرا ڈالا تھا ۔ اس نے مجھ سے اور بانو سے چند باتیں کی تھیں اور چلا گیا تھا ۔ مزید کچھ دن وہاں گزارنے کے بعد میری ران کا زخم اس حد تک مندمل ہوگیا کہ میں ہلکے سے لنگ کے ساتھ چلنے لگی تھی ۔ میں نے بانو سے کہا ۔ ’’ اب طالبان کے اس مرکز کی کھوج میں روانہ ہوجانا چاہیے! پلیز بانو ! مجھ سے یہ نہ کہیے گا کہ ابھی کچھ دن اور آرام کرو ، لنگ ختم ہوجانے دو ۔‘‘ بانو چند لمحے میرا منہ تکتی رہیں پھر بس مسکرا دیں ۔ طالبان کے خفیہ ’’مرکز‘‘ کی طرف روانگی ! کل کے اخبار میں پڑھیے!