بانو نے تو یہی کہا تھا کہ سوجائو لیکن اب سونے کا وقت تھا ہی نہیں! میں صرف ایک آدھ گھنٹے آرام کرنے کے لیے لیٹی تھی۔ نیند اس لیے بھی نہیں آتی کہ حالات نے اسے کافور کردیا تھا ۔ ایک رات میں بہت کچھ ہوچکا تھا ۔ معاملات تقریباً صاف تھے ۔ کسی بارے میں سوچنے سمجھنے کی ضرورت ہی نہیں تھی ۔ ایک سوال دماغ میں تھا تو صرف یہ کہ اسسٹنٹ منیجر اتنی رات گئے اس فلور پر کیوں آیا تھا ؟ کیا اس نے البرٹو کا تعاقب کیا تھا ؟ مگر کیوں؟ سوال سے سوال جنم لے رہا تھا جس کا جواب مجھے دن نکل آنے کے بعد نائب سپر وائزر سے مل گیا ۔ وہ اس وقت سونے کے لیے جاہی رہا تھا ۔ اس نے میرے سوال کے جواب میں بتایا کہ اسسٹنٹ منیجر کو نیند نہ آنے کی بیماری تھی اس لیے رات کو وہ کسی وقت ہوٹل کی منزلوں کا چکر لگا لیا کرتا تھا ۔ اسے اتفاق ہی کہا جاسکتا ہے کہ اس نے البرٹو کی حرکت دیکھ لی تھی ۔ اسی دن میری ملاقات پولیس چیف سے بھی ہوئی ۔ میرا اورعدنان کا بیان ریکارڈ کیا گیا ۔ پولیس چیف نے اس بات کی تعریف بھی کی کہ میں لڑکی ہونے کے باوجود خاصی دلیر تھی ۔مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ پولیس البرٹو کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی تھی ۔ دوپہر کے کھانے پر میں نے عدنان سے کہا ۔ ’’ بانو نے کہا تھا کہ ہم البرٹو کا سراغ لگائیں لیکن میں خاصا غور و فکر کرکے بھی نہیں سمجھ سکی تھی کہ جب پولیس کی پوری آرگنائزیشن البرٹو کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی تھی تو میں اس کا سراغ کیسے لگا سکتی ہوں ۔ ‘‘ ’’ جی ۔‘‘ عدنان سعادت مندی ہی کا مظاہرہ کرتا تھا ۔ ’’ بانو نے کہا تھا کہ ہم صبح روانہ ہوں ۔ ‘‘ میں نے کہا ۔ ’’ مقصد یہی ہوگا کہ دن کی روشنی میں روانہ ہوں اور اس وقت بھی دن ہی ہے ۔کیوں نہ ہم اسی وقت روانہ ہوجائیں ۔ اب مجھے اس شہر سے وحشت ہونے لگی ہے ۔ رات تک پھر نہ جانے کیا ہوجائے !‘‘ ’’ خیال تو آپ کا غلط نہیں ہے ۔‘‘ میں نے موبائل پر بانو سے رابطہ کیا ۔ ’’ تم نے البرٹو کا سراغ لگانے کی کوشش نہیں کی ۔‘‘ بانو نے چھوٹتے ہی کہا ۔ ’’ کہاں ڈھونڈتی پھروں گی اسے بانو !۔۔ میں اب اسے کوئی اہمیت نہیں دے رہی ہوں ۔ دو افراد کا قتل ہوچکا ۔ اب پولیس جانے یا البرٹو۔ میں اسی وقت چولستان روانہ ہوجانا چاہتی ہوں ۔ ‘‘ ’’ ٹھیک ہے ۔ کوئی حرج نہیں ۔ میں نے تمہاری سیکیورٹی کے لیے تین آدمی بھیج دیئے ہیں ۔ ‘‘ میں نے بانو کی اس بات کو ذرا بھی اہمیت نہیں دی ۔ حقیقت یہ ہے کہ بعض اوقات بانو کی طرف سے سیکیورٹی کے آدمیوں کا بندوبست مجھے گراں گزر جاتا تھا ۔ اس سے میری خود اعتمادی مجروح ہوتی تھی ۔ تین بجے کے قریب میں اور عدنان صحرائے چولستان کی طرف روانہ ہوگئے ۔ مجھے اس کے بارے میں معلوم ہوا تھا کہ بعض لوگ اسے ’’ روحی ‘‘ بھی کہتے ہیں ۔ دو سوٹ کیس ہماری کار کی ڈگی میں موجود تھے جن میں ایسا لباس اور ایسا سامان تھا جو صحرائی زندگی کے لیے ضروری تھا ۔ ڈرائیونگ میں خود ہی کررہی تھی ۔ عدنا ن میرے برابر بیٹھا تھا ۔ عقاب بہ دستور اس کے شانے پربیٹھا ہوا تھا ۔ میں بولی ۔ ’’ تم نے شاید بتایا تھا کہ اس عقاب کو سدھانے کے بعد بانو نے اسے تم سے مانوس بھی کروادیا تھا ۔ ‘‘ ’’ جی ہاں ۔‘‘ ’’ یہ تمھارے اشارے پر کام کرتا ہے؟‘‘ ’’ جی ۔‘‘ ’’ کبھی اس سے شکار نہیں کھیلا؟‘‘ ’’ جی نہیں ‘ لیکن میرا خیال ہے کہ میرے اشارے پر یہ کام بھی کرجائے گا یہ ۔‘‘ یہ باتیں میں نے محض وقت گزاری کے لیے کی تھیں ۔ میری نظر بیک مرر پر پڑتی رہی تھی ۔ دو کاریں ہمارے پیچھے آرہی تھیں۔ایک سوزوکی ٹرک بھی تھا ۔ انہی تینوں کاروں میں سے کسی ایک میں وہ لوگ ہوسکتے تھے جنہیں بانو نے میری سیکیورٹی کے لیے بھیجا تھا ۔ موبائل کی گھنٹی نے مجھے اس کی طرف متوجہ کیا ۔ اسکرین پر ایک اجنبی نمبر دیکھ کر میری پیشانی پر شکن پڑ گئی ‘ تاہم میں نے کال ریسیو کی ۔ ’’ہیلو!۔‘‘ ’’ میڈم !‘‘ ایک اجنبی آواز سنائی دی ۔ ’’ میں ان تینوں میں سے ہوں جن کو بانو نے آپ کی سیکیورٹی کے لیے مامور کیا ہے ۔‘‘ ’’ ہوں ۔تو؟‘‘ ’’ ہم مسٹرڈکلرکی کار میں آپ کے پیچھے آرہے ہیں ۔‘‘ ’’ یہ اندازہ تو مجھے ہوگیا تھا ۔ بس یہ نہیں جانتی تھی کہ تم لوگ کس کار میں ہو ۔ میں تمہاری کار دیکھ چکی ہوں ۔ تمہاری گاڑی ایک نیلی کار کے پیچھے ہے اور نیلی کار میرے بعد ہے ۔‘‘ ’’ وہ کار آپ کا تعاقب کررہی ہے ۔‘‘ ’’ کیا!‘‘ میں چونکی۔ ’’ جی ہاں ۔ وہ ہوٹل پر آکر رکی تھی ۔ اس وقت آپ روانہ ہوئیں ،تبھی سے یہ آپ کے پیچھے لگی ہوئی ہے ۔ ‘‘ ’’ ہوں۔ ‘‘ میرے ہونٹ بھینچ گئے ۔ کچھ تو قف سے میں نے پوچھا ۔ ’’ کتنے آدمی ہیں اس میں ؟‘‘ ’’ آدمی تو ایک ہی ہے ۔‘‘ ’’ کوئی غیر ملکی ؟‘‘ ’’ غیر ملکی تو نہیں معلوم ہوتا ۔‘‘ ’’ تمہیں اپنی طرف سے کوئی حرکت نہیں کرنی چاہئے ۔ ‘‘میں نے کہا اور رابطہ ختم کرکے کار کی رفتار میں کمی کی ۔ عدنان نے اس صورت حال کے بارے میں استفسار کیا ۔ میں نے اسے اختصار سے بتا دیا ۔ عدنان کے چہرے پر تنائو محسوس ہونے لگا ۔ میری کار کی رفتار میں کمی کے ساتھ نیلی کار کی رفتار بھی کم ہوئی تھی اور اس کے پیچھے مسٹرڈ کار کو بھی ایکسلیٹرپر دبائو کم کرنا پڑا تھا ۔ میں نے رفتار مزید کم کی۔ تعاقب میں آنے والی کاروں کی رفتار میں کمی آئی جس کے نتیجے میں ٹرک آگے نکل گیا ۔ میں نے کار کی رفتار بڑھائی ۔ نیلی اور مسٹرڈ کاروں کی رفتار بھی بڑھی ۔ ’’ آخر یہ چاہتا کیا ہے ! ‘‘ عدنان بولا ۔ ’’ ہمیں انتظار کرنا ہوگا ۔ ‘‘ میں نے کہا ۔ دس منٹ تک کاریں یکساں رفتار سے چلتی رہیں۔ کہیں دور ایک ہیلی کوپٹر دکھائی دے رہا تھا ۔ میں نے اس پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالنے پر اکتفا کی۔ دفعتاً نیلی کار کی رفتار میں اچانک خاصا اضافہ ہوا ۔ وہ میری کار سے آگے نکل گئی ۔ پھر اس وقت مجھے چونکنا پڑا جب نیلی کار اس طرح آڑی ہوکر رکی جیسے میری کار کا راستہ روکنا چاہتی ہو ۔ اس وقت دور نظر آنے والا ہیلی کوپٹر بھی میری کار کے اوپر چنگھاڑ رہا تھا ۔ نیلی کار کیوں رکی ؟ ہیلی کوپٹر کار پر کیوں آگیا ؟ کل کے روزنامہ 92میں ملاحظہ کیجئے !