میں پولیس کے اس انداز سے کچھ الجھی ضرور لیکن میں نے فوراً عدنان سے کہا ۔ ’’ دیکھو!‘‘ عدنان دروازے کی طرف بڑھا۔ میں نے مائوتھ پیس میں کہا ۔ ’’ بانو! وہ.....‘‘ ’’ سن لی ہے میں نے آواز ۔‘‘ بانو نے میری بات کاٹی ۔ ’’ تم خود جاکر دیکھو ! کچھ گڑ بڑ معلوم ہوتی ہے ۔ موبائل بند نہ کرنا ۔ ‘‘ میں موبائل بند کئے بغیر تیزی سے دروازے کی طرف بڑھی ۔ عدنان نے دروازہ کھولا ہی تھا کہ میں اس کے قریب پہنچ گئی ۔ باہر ایک سب انسپکٹر اور تین کانسٹیبل کھڑے تھے ۔ ’’ کچھ گڑ بڑ ہے ۔ ‘‘ بانو کی آواز میرے ذہن میں گونجی۔ ’’ گڑ بڑ‘‘ کا خیال کرتے ہوئے میں نے جارحانہ انداز اختیار کیا ۔ ’’ تمیز سے دروازہ کھٹکھٹانا چاہیے۔ ‘‘ میں نے بہت تیز لہجے میں کہا ۔ سب انسپکٹر کے بگڑے ہوئے تیور فوراً ڈھیلے پڑگئے ۔ وہ بولا ۔ ’’ آپ دھماکے کی جگہ سے فوراً غائب کیوں ہوگئیں ؟‘‘ ’’ آپ کو کیسے معلوم کہ میں وہاں تھی ؟‘‘ میں نے جواباً سوال کیا۔ ’’ ہمیں اطلاع مل چکی تھی کہ آپ کو بھی بیان ریکارڈ کرانے کے لیے لایا جارہا ہے ۔ ‘‘سب انسپکٹر نے کہا ۔ ’’ کار کا نمبر بھی بتا دیا گیا تھا ۔ وہاں سے معلوم ہوا کہ آپ کی کار غائب ہو چکی ہے ۔ آخر آپ وہاں سے فرار کیوں ہوئیں ؟یہی معلوم کرنے کیلئے میں یہاں پہنچا ہوں ۔ ‘‘ ’’جائے حادثہ سے بہت لوگ نکل گئے ہوں گے ! ایسی جگہ کون رکتا ہے؟ جہاں تک میرے بیان کی بات ہے ،وہ میں بہ ہر حال ریکارڈ کرائوں گی ۔‘‘ یہ سب کچھ میں نے عام لہجے میں کہا لیکن پھر تیز ہوگئی ۔ ’’آپ کو میرے کمرے پر چھاپا مارنے کی اجازت کس نے دی ؟ میں آپ کے افسر اعلیٰ سے اس کی شکایت کروں گی، ان کا نمبر بتایے ! میں ابھی بات کرتی ہوں ۔‘‘ ’’ ان سے بات کرکے آپ پولیس ہیڈ کوارٹر آئیے! ان کا نمبر یہ ہے ۔‘‘ اس نے نمبر بتایا جو عدنان نے جلدی سے نوٹ کرلیا ۔ ’’ سب انسپکٹر پھر بولا ۔‘‘آپ خود ہی بیان ریکارڈ کروانے کے لیے آنا چاہتی ہیں تو میں اس طرح آپ کو ڈسٹرب کرنے کے لیے معذرت خواہ ہوں ۔‘‘ میرے جارحانہ اندازِ گفت گو سے سب انسپکٹر بالکل ٹھنڈا پڑگیا تھا ۔ ’’ میں اجازت چاہتا ہوں۔آپ آجائیے گا ۔ ‘‘ وہ سپاہیوں کے ساتھ جانے کے لیے مڑا ۔میں نے اسے جانے دیا ۔ پولیس والوں کے اس رویے سے میں خوب واقف تھی ‘ پھر بھی اسے جاتے دیکھ کر میرے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ پھیل گئی ۔ ’’ دروازہ بند کردو۔‘‘ میں نے عدنان سے کہا اور موبائل کان سے لگاتے ہوئے دروازے کے قریب سے لوٹی ۔’’ سن لیا آپ نے بانو؟‘‘ ’’ ہاں ۔‘‘ بانو نے کہا ۔ ’’ پولیس کے اسی رویے سے عام لوگ تنگ رہتے ہیں ۔ تم نے تیز لہجے میں بات کرکے اسے ٹھنڈا کردیا ۔ خیر! تم اس نمبر پر ابھی بات کرلو جو اس نے تمھیں دیا ہے ۔ مجھ سے بعد میں بات کرنا ۔‘‘ بانو نے خود ہی رابطہ منقطع کردیا ۔ میں نے موبائل پر سب انسپکٹر کے بتائے ہوئے نمبر ملائے۔ ’’ ہیلو! ‘‘ دوسری طرف سے ایک پریشان سی آواز آئی ۔ ’’ کیا میں پولیس چیف سے بات کررہی ہوں ؟‘‘ میں نے پوچھا ۔ ’’ ہاں ۔ آپ کون ہیں ؟‘‘ ’’خجستہ عدنان۔‘‘ ’’ مجھے علم ہے آپ کے نام کا ۔ آپ.....‘‘ میں نے اس کی بات کاٹی ۔ ’’ میں ہوٹل آگئی ہوں ۔ میں دھماکے کی صورت میں وہاں کیسے رک سکتی تھی ؟ ابھی ایک سب انسپکٹر آیا تھا میرے پاس !..... ایسا انداز تھا اس کا جیسے اس نے میرے کمرے پر ریڈ کیا ہو !‘‘ ’’ مجھے ابھی علم نہیں اس کا ۔ موقع واردات سے انسپکٹر نے بھیجا ہوگا اسے ۔ اگر اس کا انداز غلط تھا تو میں اس کی تحقیق کرائوں گا ۔ آپ کو پولیس ہیڈ کوارٹر تو آنا ہے بیان دینے۔ ‘‘ ’’ میں فوراً آسکتی ہوں ؟‘‘ ’’ ابھی نہیں ۔ میں الجھا ہوا ہوں ۔ دھماکے کے بارے میں اطلاعات لے رہا ہوں ۔ بیان کیلئے میں آپ کو کسی وقت بلا لوں گا ۔ آپ ہوٹل نہ چھوڑئیے گا ۔ آپ کا فون نمبر آگیا ہے میرے پاس !..... کسی وقت بھی آپ سے رابطہ کرکے پولیس ہیڈ کوارٹر بلالیا جائے گا ۔‘‘ ’’ میں حاضر ہوں ۔‘‘ دوسری طرف سے رابطہ منقطع کردیا گیا ۔ پولیس چیف اس حادثے کی وجہ سے سخت پریشان تھا ‘ اور یہ قدرتی بات تھی ۔ میں نے بانو سے رابطہ کیا اور وہ گفت گو دہرائی جو پولیس چیف سے ہوئی تھی ۔ بانو نے کہا ۔ ’’ اگر انھوں نے رات ہی کو تمھیں نہ بلایا تو صبح تم کو رکنا پڑے گا ۔ چولستان کے لیے روانہ نہیں ہوسکو گی ۔ ‘‘ ’’ جی ہاں ۔ ‘‘ میں نے کہا اور پھر پوچھا ۔ ’’ حادثے کے بارے میں تفصیل معلوم ہوئی ؟‘‘ ’’ ابھی نہیں‘ اب تم لوگ آرام کرو ۔ کوئی خاص بات معلوم ہوئی تو میں فون کروں گی ۔ ‘‘ ’’ بہتر ۔ ‘‘ دوسری طرف سے رابطہ منقطع کردیا گیا ۔ ’’ اب سونا چاہیے ۔‘‘ میں نے کہتے ہوئے کمرے کے اکلوتے بستر کی طرف دیکھا۔ عدنان نے میری وہ نظریں بھانپ لی ہوں گی ۔ وہ بولا ۔’’ میں صوفے پر سوجاتا ہوں ۔‘‘ یہ موقع ایسا نہیں تھا کہ میں تکلف برتتی ۔ ایک بستر پر ہم دونوں سو ہی نہیں سکتے تھے ۔ یہی بہت تھا کہ میں ایک مرد کے ساتھ کمرے میں تھی ۔ عدنان پر بانو کو لاکھ بھروسا ہو، میرے لیے تو عجیب ہی تھا ۔ میں اس مجبوری کے عالم میں بستر پر لیٹ گئی عدنان صوفے پرجا لیٹا ۔ اس نے اپنے جوتے اتاردیے لیکن میں نے اپنی سینڈلیں نہیں اتاریں ۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ میرے برہنہ پیروں پر بھی عدنان کی نظر پڑے ۔ کمرا ایک ہی ملا تھا ۔ اگر دو کمرے ہوتے تو عدنان ڈرائنگ روم میں جا سوتا ۔ کچھ دیر تک میں اس الجھن میں رہی لیکن پھر میں نے اپنا ذہن بٹایا ۔ جو دھماکا ہوا تھا ، وہ کوئی نظر انداز کرنے والی بات نہیں تھی ۔ موساد والے نہیں چاہتے تھے کہ ان کے آدمی پولیس کی حراست میں لیے جائیں ۔ انھوں نے ان چاروں کو ختم کرنے کے لیے طالبان کے خود کش حملہ آور کا سہارا لیا ہوگا اور اس کا کام کے لیے بہت تیزی بھی دکھائی تھی ۔ اس کا صریح مطلب یہ تھا کہ رحیم یار خان میں بھی طالبان موجود تھے ۔ زیادہ شاید نہ ہوں لیکن تھے ۔ سوچتے سوچتے مجھ پر غنودگی طاری ہونے لگی ۔ میں نے اسی عالم میں دیکھا کہ عدنان کا عقاب اسکے صوفے کے ہتھے پر بیٹھا ہوا تھا ۔ غنودگی کے باعث میں یہ نہیں دیکھ سکی کہ اس کی آنکھیں بند تھیں یا کھلی ہوئی تھیں ۔ میری آنکھیں بہ ہر حال بند ہوگئیں ۔ خاصی دیر میں ہی نیند آئی تھی اور گہری آئی تھی لیکن اتنی گہری بھی نہیں کہ عقاب کی چیختی ہوئی آواز مجھے بے دار نہ کر پاتی ۔ میں نے دیکھا کہ وہ اڑتا ہوا دروازے پر جا بیٹھا تھا اور چیخ چیخ کر دروازے پر ٹھونگیں مار رہا تھا ۔ عدنان کی آنکھ بھی میرے ساتھ ہی کھلی تھی ۔ عقاب کی یہ حرکت میرے لیے ناقابل فہم تھی ۔ عقاب چیخ چیخ کر دروازے پر ٹھونکیں کیوں مار رہا تھا ؟ کل کے روزنامہ 92 میں ملاحظہ فرمائیں !